عرصہ ہواایک ترک افسانہ پڑھا تھا، یہ میاں بیوی اور تین بچوں پر مشتمل گھرانے کی کہانی تھی، جو جیسے تیسے زندگی گھسیٹ رہا تھا۔ جو جمع پونجی تھی وہ گھر کے سربراہ کے علاج معالجے پر لگ چکی تھی، مگر وہ اب بھی چارپائی سے لگاہوا تھا، آخر اسی حالت میں ایک روز بچوں کو یتیم کرگیا۔ رواج کے مطابق تین روز تک پڑوس سے کھانا آتا رہا، چوتھے روز بھی وہ مصیبت کا مارا گھرانہ کھانے کا منتظر رہا مگر لوگ اپنے اپنے کام دھندوں میں لگ چکے تھے، کسی نے بھی اس گھر کی طرف توجہ نہیں دی۔ بچے باربار باہر نکل کر سامنے والے سفیدمکان کی چمنی سے نکلنے والے دھویں کو دیکھتے، وہ سمجھ رہے تھے کہ ان کے لیے کھانا تیار ہورہا ہے، جب بھی قدموں کی چاپ آتی انہیں لگتا کوئی کھانے کی تھالی اٹھائے آرہا ہے مگر کسی نے بھی ان کے دروازے پر دستک نہ دی۔ ماں تو پھر ماں ہوتی ہے، اس نے گھر سے روٹی کے کچھ سوکھے ٹکڑے ڈھونڈ نکالے، ان ٹکڑوں سے بچوں کو بہلاپھسلاکر سلادیا۔ اگلے روز پھر بھوک سامنے کھڑی تھی، گھر میں تھا ہی کیا جسے بیچا جاتا، پھر بھی کافی دیر کی ’’تلاش‘‘ کے بعد دوچار چیزیں نکل آئیں، جنہیں کباڑیے کو فروخت کرکے دو، چار وقت کے کھانے کا انتظام ہوگیا۔ جب یہ پیسے بھی ختم ہوگئے تو پھر جان کے لالے پڑگئے، بھوک سے نڈھال بچوں کا چہرہ ماں سے دیکھا نہ گیا، ساتویں روز بیوہ ماں خود کو بڑی سی چادر میں لپیٹ کر محلے کی پرچون کی دکان پر جاکھڑی ہوئی، دکان دار دوسرے گاہکوں سے فارغ ہوکر اس کی طرف متوجہ ہوا، خاتون نے ادھار پر کچھ راشن مانگا تو دکان دار نے نہ صرف صاف انکار کردیا، بلکہ دوچارباتیں بھی سنا دیں۔ اسے خالی ہاتھ ہی گھر لوٹنا پڑا۔ ایک تو باپ کی جدائی کا صدمہ اوپر سے مسلسل فاقہ، 8سالہ بیٹے کی ہمت جواب دے گئی اور وہ بخار میں مبتلاہوکر چارپائی پر پڑگیا، دوادارو کہاں سے ہو، کھانے کو لقمہ تک نہیں تھا، چاروں گھر کے ایک کونے میں دبکے پڑے تھے، ماں بخار سے آگ بنے بیٹے کے سر پر پانی کی پٹیاں رکھ رہی تھی، جبکہ پانچ سالہ بہن اپنے ننھے منے ہاتھوں سے بھائی کے پاؤں دبارہی تھی، اچانک وہ اٹھی، ماں کے پاس آئی اور کان سے منہ لگاکر بولی ماں کے دل پر تو گویا خنجر چل گیا، تڑپ کر اسے سینے سے لپٹا لیا اور پوچھا ’’میری بچی، تم یہ کیا کہہ رہی ہو؟‘‘ بچی معصومیت سے بولی ’’ہاں اماں! بھائی مرے گا تو کھانا آئے گا ناں!‘‘
فہرستِ صفحات
منظر نامہ شناسائی
آمدو رفت
محفوظات
-
▼
2012
(42)
-
◄
اپریل
(8)
- غریب کا بچہ انڈا چرا لے تو اسے اندھیری کوٹھڑیوں می...
- کوئی عام شخص جج کے سامنے گریبان کھول کر چلا جائے ت...
- فوج سیاچن میں کیا کررہی ہے؟
- ینگ ڈاکٹروں کی ہڑتال ، خون ناحق کس کی گرد ن پر ہو ...
- جسے دیکھواٹھ کر پاکستان کے خلاف بولنا شروع کردیتاہے
- A Tribute to Siachen Mujahids
- پیپلزپارٹی کی حکومت کے چارسال مکمل
- ذرا تصور کیجئے
-
◄
فروری
(8)
- ذرائع ابلاغ وسیع پیمانے پر اخلاقی تباہی پھیلانے وا...
- پاکستان میں پرائیویٹ سیکٹرکو تعلیم کے میدان میں کھ...
- پاکستان میں پرائیویٹ سیکٹرکو تعلیم کے میدان میں ک...
- ویلنٹائن ڈے ,دنیاکی خاطر اپنی آخرت برباد کرنا خسار...
- دوست ہیرے کی مانند ہے اور بھائی سونے کی مانند
- اگر اس ماہِ مبارک میں ہم صرف ایک سنت کو ہمیشہ کے ل...
- غیرضروری اشیاءکی خریداری کو ترک کرکےطلب میں کمی لا...
- پھربھی پانچ سال پورے کرنے کی خواہش؟
-
◄
جنوری
(14)
- ناکامیوں سے کبھی حوصلہ نہیں ہارناچاہیے
- میرے وطن کے اُداس لوگو
- بیٹیاں ، رحمت خداوندی
- کوئی ان سے پوچھے اسے جانے کس نے دیا تھا ؟
- آيئے ھم سب مل کر اپنے ناراض رب کو راضی کریں
- ایک طرف ریمنڈ ڈیوس دوسری جانب ڈاکٹر عافیہ
- قوم کو حکمرانوں پر پورا اعتماد ھو تو
- ساری رات روندے رہے تے مریا کوئی نہیں
- سنو ارفع کریم
- ارفع ھم سب تم سے شرمندہ ھیں
- بیٹیاں تو تعبیر مانگتی دعاؤں جیسی ہوتی ہیں
- آ ئو کامیابی کی طرف
- امریکہ نے کہا طالبان دہشت گرد ہیں
- آخر کب تک ؟
-
◄
اپریل
(8)
منگل، 24 جولائی، 2012
جمعرات، 14 جون، 2012
لگے رہو منے بھائی باپ کا مال سمجھ کے
احساس محرومی، ناانصافی اورحق تلفی کی شکایت کرنے والی بلوچستان کی موجودہ حکومت نے ریاست کے وزیراعلی کے لیے ایک ارب تیس کروڑ روپے کا نیا جہاز خرید لیا ہے۔ یہ انکشاف صوبائی وزیر خزانہ میرعاصم کرد گیلو نے منگل کے روز کوئٹہ میں پوسٹ بجٹ بریفنگ کے دوران کیا۔انہوں نے کہا کہ انیس سو نوے سے وزیراعلی کے پرانے جہاز پر چھ سے سات کروڑ روپے کا خرچہ بھی کیا لیکن اس کے باوجود دوتین حادثات ہوتے ہوتے بچ گئے۔صوبائی وزیرخزانہ نے کہا کہ چار پانچ مہینے کے بعد تو ویسے ہی ہماری حکومت جا رہی ہے۔ لیکن جو جہاز خریدا گیا ہے اس سے آنے والی حکومت استفادہ کرے گی۔ مالی سال دو ہزارگیارہ اور بارہ میں گورنر بلوچستان کے سیکریٹ فنڈ کے لیے پچاس لاکھ روپے رکھے گئے تھے لیکن گورنر سیکریٹ فنڈکی مد میں سترہ کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں۔ اس طرح وزیراعلی بلوچستان کا بھی سیکریٹ فنڈ پچاس لاکھ روپے تھا لیکن وزیراعلی نے نو کروڑ پچاس لاکھ روپے خرچ کیے ہیں۔ صوبے کے عوام کو جہاز کی نہیں بلکہ تعلیم ، صحت ، ڈیمز ، روزگار، سڑکیں اور امن کی ضرورت ہے۔بجٹ دستاویزات کے مطابق صوبائی وزرا اور ان کے عملے کے لیے گزشتہ سال تیئس کروڑ روپے رکھے گئے تھے لیکن اخراجات بیالیس کروڑ سے زائد ہوئے ہیں۔ یعنی مختص رقم سے بارہ کروڑ روپے زائد خرچ کئے گئے۔
اتوار، 27 مئی، 2012
سچ یہی ہے کہ موجودہ حکمران خود ہمارے اپنے منتخب کردہ ہیں
-ایک شوہر نے اپنی پھوہڑ اور بدمزاج بیوی سے کہا " بیگم اب اِس گھر کو تم ہی جنّت بنا سکتی ہو " ۔ بیوی خوش ہو کر بولی " وہ کس طرح " ؟شوہر ٹھنڈی سانس لے کر بولا " میکے جاکر " ۔ موجودہ حکمرانوں نے پچھلے ساڑھے چار برسوں سے اِس ملک کو غریب عوام کیلیے جس طرح جہنّم بنایا ہوا ہے ، اب عوام کی بھی دِلی خواہش اُس مظلوم شوہر سے قطعی مختلف نہیں کہ موجودہ حکمران بھی جلد سے جلد ایوانِ اقتدار سے رُخصت ہو کر اپنے گھر چلے جائیں تو شائد اُن کی زندگیاں بھی آسان ہوجائیں اور وہ سُکھ کا سانس لے سکیں ۔ لیکن حکمرانوں نے بھی عوام کو بلیک میل کرنے کا عجیب و غریب طریقہ اپنایا ہوا ہے کہ اگر ہمیں گھر بھیجنے کی کوشش کی گئی تو موجودہ جمہوری سسٹم سے عوام ہاتھ دھو بیٹھیں گے اور عوام آسمان کی طرف دیکھ کر پھر خدا سے شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ " اے اللہ اِس " جمہوریت " کو چومنے چاٹنے کے عوض تو ہمیں کتنی رکعتوں کا ثواب عطا فرمائیے گا " ؟ ایک شکوہ مع جوابِ شکوہ تو حکیم الامت رقم فرما گئے ۔ اب ایک اور مظلوم شوہر کا شکوہ بھی لگے ہاتھوں سُن لیں " اے اللہ تو نے بچپن دیا ، چھین لیا ، جوانی دی چھین لی ، پیسہ دیا واپس لے لیا ، ایک بیوی بھی دے رکھی ہے ۔ بھول گیا کیا " ؟ عوام کوئی راستہ نہ پاکر آخرکار خدا سے ہی شکوہ کر کے کہتے ہیں " اے خدا موجودہ حکمرانوں کی صورت میں ہم پر جو عذاب تو نے مُسلّط کیا ہوا ہے ، وہ ختم آخر کیوں نہیں ہوجاتا ؟ نعوذ باللہ ! یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کچھ بھول جائے ، لہذا اِس سے قبل کہ اِس ناچیز پر کوئی کفر کا فتویٰ لگادے جلدی سے جوابِ شکوہ بھی سُن لیں قدرت اِس ملک کے " بھولے بھالے " عوام کا شکوہ سُن کر مُسکراتی ہے اور نہایت رسان سے کہتی ہے " جیسے عوام ، ویسے حکمران " کیا تمہیں میرا وعدہ یاد نہیں کہ " اُس قوم کی حالت میں اُس وقت تک نہ بدلوں گا ، جب تک اُس قوم کو خود اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ آئے " ۔ کیا اِن حکمرانوں کو میں نے آسمان سے اُتارا ہے ؟ تم نے خود ہی تو اِنہیں منتخب کر کے اپنے اوپر مُسلّط کیا ہے ۔ پھر شکوہ کیسا " ؟ یں
جمعرات، 10 مئی، 2012
قابل رحم ہے وہ قوم جس کا حکمران سزا یافتہ مجرم ہو
اٹارنی جنرل نے فرمایا کہ ’’ شعرو شاعری سے سزا نہیں دی جا سکتی‘‘ لیکن انہیں شاید یہ نہیں معلوم کہ جس شعرو شاعری کا وہ حوالہ دے ہیں اس کا تعلق سزا کے فیصلے سے نہیں ہے بلکہ فیصلے سے ہٹ کر جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ کا اضافی نوٹ ہے اور اس کا تعلق بھی اخلاقیات سے ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جسٹس کھوسہ نے لبنان کے عیسائی شاعر اور فلسفی خلیل جبران کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے وہ فیصلے کا حصہ نہ ہوتے ہوئے بھی فیصلے کی جان ہے۔ اس سب کا تعلق بھی ا خلاقیات سے ہے لیکن اس میں غلط کیا ہے؟ یہ بات کس کو ناگوار گزری کہ’’ قابل رحم ہے وہ قوم جس کے رہنما قانون کی نافرمانی کرکے شہادت کے متلاشی ہیں‘ قابل رحم ہے وہ قوم جس کے حکمران قانون کا مذاق اڑاتے ہیں اور قابل رحم ہے وہ قوم جو اپنے کمزوروں کو سزا دیتی ہے مگر طاقت وروں کو کٹہرے میں لانے سے کتراتی ہے ۔ ترس آتاہے ایسی قوم پر جو مخصوص افراد کے لیے من پسند انصاف چاہتی ہے‘‘۔ اگر پاکستان میں صورتحال ایسی ہی ہے تو اس کے ذمہ داران کو شرم کرنی چاہیے اور اگر وہ سمھجتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے تو چراغ پا ہونے کی ضرورت نہیں۔ مگر اس کا کیا کیاجائے کہ یہ قوم واقعی قابل رحم ہے۔ سید یوسف رضا گیلانی فی الوقت تو مجرم ہو گئے لیکن وہ نجانے کس حد تک جانے کی بات کرتے ہیں اور وکیل استغاثہ مجرم کی پشت پر کھڑا اعلان کررہاہے کہ فیصلہ تسلیم نہ کیاجائے۔ کیا اس لیے کہ مخصوص فرد کو من پسند ’’انصاف ‘‘ نہیں ملا۔ گیلانی صاحب خط لکھ دینے سے آپ کے صدر کا کچھ نہ بگڑتا مگر آپ نے خود بات بگاڑدی۔ قابل رحم ہے وہ قوم جس کا حکمران سزا یافتہ مجرم ہو۔
قابل رحم ہے وہ قوم جس کا حکمران سزا یافتہ مجرم ہو
پیر، 7 مئی، 2012
پھر وکلاء گردی ، پھر ایک وکیل نے معزز جج صاحب کو جوتا دے مارا
۔ ہم کدھر جارہے ہیں،اوپر سے نیچے تک قانون دانوں نے ہی قانون کو مذاق بنا کر رکھ دیاہے۔بھری عدالت میں مرضی کا فیصلہ نہ آنے پر ایک وکیل نے جج صاحب کو جوتا دے مارا،یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ جب سے عدلیہ آزاد ہوئی ہے وکیل منہ زور ہو گئے ہیں جو لوگ عدالتوں میں جاتے ہیں ان کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ جج صاحبان اب ان وکلاء حضرات سے کیسے ڈرتے ہیں،کہاں کا انساف اور کہا ں کی انصاف پسندی،جس قوم کے لیڈر ،پڑھے لکھا معزز طبقہ اس طرح کی حرکتیں کرنا شروع کر دے اس کا اللہ ہی حافظ ہوگا،اگر اس روش کو نہ روگا گیا تو وطن عزیز ایک نئے المیہ سے دوچا ر ہوجائے،بدمعاشی اور مرضی سے انصاف لینے والوں کے سامنے جج اور قوم کو سرنگوں ہونا پڑے گا،پہلے کہاں عالم اقوام میں ہماری عزت کے ڈھول بج رہے ہیں جو اس طبقہ نے دنیا کو جگ ہنسائی کا موقع فراہم کردیا ہے۔پوری قوم نے کیا اس لئے محترم چیف جسٹس صاحب کی بحالی کی تحریک چلائی تھی کہ قوم کو نئی مصیبت کا سامنا کرنا پڑے
جمعرات، 3 مئی، 2012
یوم آزادی صحافت، دنیا بھر میں صحافیوں کے قتل میں 16 فیصد اضافہ، پاکستان سرفہرست
آج پوری دنیا میں آزادیٴ صحافت کا عالمی دن تحت منایا جارہا ہے جس کا مقصد حق اور سچ کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ شہریوں میں سماجی شعور کی آگاہی بھی فراہم کرنا ہے۔ دنیا بھر میں صحافیوں کے قتل میں 16فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ پاکستان سرفہرست ہے۔ صحافت کی آزادی اب صرف کانفرنسوں تک محدود ہوکر رہ گئی اور حقیقت میں سچ کو فروغ دینے والے ہر صحافی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کئی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے زندگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ پاکستان میں صحافت کی آزادی کا تصور ختم ہوکررہ گیا ہے کبھی حکومتیں اپنی بات منوانے کیلئے ہرممکن دباؤ ڈالتی ہیں تو کبھی پریشر گروپس صحافت کی آزادی پر اثر انداز ہوتے ہوئے سچائی کو کچلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ملک میں حقائق کوپیش کرنے والے صحافیوں کیلئے کسی قسم کا تحفظ نہیں جس کا اندازہ اس امر سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان بدستور دوسرے سال بھی عالمی سطح پر صحافیوں کے قتل کے حوالے سے سرفہرست ہے۔ ولی بابر اور سلیم شہزاد سمیت پورے سال کے دوران 10صحافی پیشہ ورانہ خدمات سرانجام دیتے ہوئے قتل کردیئے گئے۔ آزادی صحافت کے عالمی دن کے حوالے سے مختلف ذرائع سے جو اعدادوشمار حاصل کئے ہیں اس کے مطابق عالمی سطح پر 2011ء صحافیوں کیلئے برا ثابت ہوا اور صحافیوں کے قتل کے واقعات میں 16فیصد، غیر قانونی تحویل میں رکھے جانے والے صحافیوں کی تعداد میں 20فیصد، مختلف اوقات میں حراست میں لئے گئے صحافیوں کی تعداد میں 95فیصد، صحافیوں پر حملے اور تشدد کے واقعات میں 43فیصد اور اغوا کے واقعات میں 39فیصد اضافہ ہوا۔ رپورٹرز ود آؤٹ باڈرز کے اعداد وشمار کے مطابق دنیا بھر میں 2011ء کے دوران 28/ممالک میں 66صحافی اپنے فرائض منصبی ادا کرتے ہوئے قتل کردیئے گئے جبکہ 2010ء کے دوران ایسے صحافیوں کی تعداد 57تھی۔ سال بھر کے دوران 10صحافیوں کے قتل کے ساتھ پاکستان سرفہرست رہا جبکہ 7کے ساتھ عراق دوسرے اور 5,5 کے ساتھ لیبیا اور میکسیکو تیسرے نمبر پر رہے۔ بھارت اور ایران میں 2,2 صحافی قتل کئے گئے۔ صحافیوں کے قتل کے حوالے سے مشرق وسطیٰ کاخطہ بدترین رہا جہاں 20صحافی قتل ہوئےجبکہ18صحافیوں کی ہلاکتوں کے ساتھ امریکا دوسرے اور 17کیساتھ ایشیا تیسرے نمبر پر رہا۔
بدھ، 25 اپریل، 2012
غریب کا بچہ انڈا چرا لے تو اسے اندھیری کوٹھڑیوں میں بند کردیا جاتا ہے
کوئی عام شخص جج کے سامنے گریبان کھول کر چلا جائے تو اسے عدالت کی توہین تصور کیا جاتا ہے اور اُدھر اعلیٰ ترین حکومتی شخصیات نے ججوں کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالا ہوا ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت ایک کے بعد ایک حکم دیے جارہی ہے اور حکومت ان احکامات کو صرف ردی کی ٹوکری میں نہیں پھینکتی، پہلے انہیں جوتوں تلے خوب رگڑتی بھی ہے۔ غریب کا بچہ انڈا چرالے تو اسے اندھیری کوٹھڑیوں میں بند کردیا جاتا ہے لیکن وزیراعظم کا بیٹا کروڑوں روپے ڈکارنے کا الزام لگنے کے باوجوگلچھرے اڑاتاپھررہا ہے۔ موجودہ حکمرانوں نے ایک نیا رواج متعارف کرایا ہے، جو جتنی زیادہ لوٹ مار کرتا ہے اسے اتنا ہی بڑاعہدہ بطور انعام دیا جاتا ہے، اگر عدالت کسی کو کرپشن کا ملزم ٹھہرادے تو گویا اس کی لاٹری کھل گئی، ایک دو تین نہیں درجنوں مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ عدالت نے جس افسر کے خلاف کارروائی کا حکم دیا، حکومت نے اسے پہلے سے زیادہ پرکشش عہدے پر بٹھادیا۔ غالباً پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں قانون پر اتنے ’’اچھے‘‘ طریقے سے عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے کرائے کے بجلی گھروں کے مقدمے میں سابق وزیرپانی وبجلی راجاپرویزاشرف سمیت متعدد افراد کے خلاف کارروائی کا حکم دیا، حکومت نے عدالتی فیصلے پر فوری ’’عمل درآمد‘‘ کرتے ہوئے راجا صاحب کو ایک دوسری وزارت سے نوازدیا۔ باقی ملزمان کو بھی پورا سرکاری پروٹوکول دیا جارہا ہے
کوئی عام شخص جج کے سامنے گریبان کھول کر چلا جائے تو اسے عدالت کی توہین تصور کیا جاتا ہے اور اُدھر اعلیٰ ترین حکومتی شخصیات نے ججوں کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالا ہوا ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت ایک کے بعد ایک حکم دیے جارہی ہے اور حکومت ان احکامات کو صرف ردی کی ٹوکری میں نہیں پھینکتی، پہلے انہیں جوتوں تلے خوب رگڑتی بھی ہے۔ غریب کا بچہ انڈا چرالے تو اسے اندھیری کوٹھڑیوں میں بند کردیا جاتا ہے لیکن وزیراعظم کا بیٹا کروڑوں روپے ڈکارنے کا الزام لگنے کے باوجوگلچھرے اڑاتاپھررہا ہے۔ موجودہ حکمرانوں نے ایک نیا رواج متعارف کرایا ہے، جو جتنی زیادہ لوٹ مار کرتا ہے اسے اتنا ہی بڑاعہدہ بطور انعام دیا جاتا ہے، اگر عدالت کسی کو کرپشن کا ملزم ٹھہرادے تو گویا اس کی لاٹری کھل گئی، ایک دو تین نہیں درجنوں مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ عدالت نے جس افسر کے خلاف کارروائی کا حکم دیا، حکومت نے اسے پہلے سے زیادہ پرکشش عہدے پر بٹھادیا۔ غالباً پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں قانون پر اتنے ’’اچھے‘‘ طریقے سے عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے کرائے کے بجلی گھروں کے مقدمے میں سابق وزیرپانی وبجلی راجاپرویزاشرف سمیت متعدد افراد کے خلاف کارروائی کا حکم دیا، حکومت نے عدالتی فیصلے پر فوری ’’عمل درآمد‘‘ کرتے ہوئے راجا صاحب کو ایک دوسری وزارت سے نوازدیا۔ باقی ملزمان کو بھی پورا سرکاری پروٹوکول دیا جارہا ہے
پیر، 23 اپریل، 2012
فوج سیاچن میں کیا کررہی ہے؟
نوازشریف کی سیاچن کو یکطرفہ خالی کرنے کی بات بھی انتہائی مضحکہ خیز ہے.اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سیاچن کی جنگ پاکستان اور بھارت پر بوجھ بن چکی ہے، ماہانہ کروڑوں روپے اس میں پھونکے جارہے ہیں، اگر یہی رقم فلاح وبہبود کے کاموں پر خرچ کی جائے تو بہت سے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں، لیکن معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے جتنا میاں صاحب نے بیان کیا ہے۔ وہ پوچھتے ہیں فوج سیاچن میں کیا کررہی ہے؟ میاں صاحب! فوج وہاں پر پاکستان کے دفاع کی جنگ لڑرہی ہے، سجیلے جوانوں نے بھارت کی پیش قدمی کو روکا ہوا ہے۔ نئی دہلی کی نظریں برف پوش پہاڑوں پر نہیں گلگت بلتستان اور شاہراہ قراقرم پر ہے۔ اگر پاک فوج جانوں کا نذرانہ دے کر بھارت کو سیاچن پر نہ روکتی تو آج یہ جنگ اسلام آباد کے قریب لڑی جارہی ہوتی۔ ’’دنیا کو پتا ہے کہ پاک فوج سیاچن میں کیوں بیٹھی ہے، کوئی بغیر کسی وجہ کے 22ہزار فٹ بلند چوٹیوں پر نہیں بیٹھتا جہاں آکسیجن بھی نہ ہو۔‘‘، پاک فوج کی حیثیت وہاں پر حملہ آور کی نہیں ہے جو وہ خود غیرمشروط طو رپر علاقہ چھوڑکر واپس آجائے۔ دوسری بات، بالفرض اگر پاک فوج پیچھے ہٹتی بھی ہے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ بھارت آگے نہیں بڑھے گا؟ اور کیا یہ
Aپسپائی عملاً بھارت کا قبضہ تسلیم کرنا نہیں ہوگی؟
جمعرات، 19 اپریل، 2012
ینگ ڈاکٹروں کی ہڑتال ، خون ناحق کس کی گرد ن پر ہو گا ؟
ینگ ڈاکٹروں کی ہڑتال ان کے پیشے کی بنیادی اخلاقیات کے خلاف اورصوبائی حکومت کی ہٹ دھرمی غریبوں کوقتل کرنے کے مترادف ہے ۔ ینگ ڈاکٹرزکو اپنے مطالبات منوانے کے لیے کوئی دوسراراستہ اختیارکرناچاہیے یہ طریقہ مسیحائی کے منافی ہی نہیں بلکہ مسیحائی کے نام پربدنما داغ ہے۔ پنجاب حکومت اورڈاکٹروں کی ہٹ دھرمی کے نتیجے میں ہسپتالوں میں ہونے والی اموات ذمہ داروں کے خلاف سخت اقدام کیے جائیں، ڈاکٹروں اور صوبائی حکومت کومریضوں کو بے یارو مدد گار چھوڑنے کی بجائے مذاکرات کا راستہ اختیارکریں۔ اپنے جائز مطالبات کے لئے احتجاج ڈاکٹروں کا حق ہے مگر ڈاکٹرز اپنے پیشہ کا احترام کرتے ہو ئے مریضوں کے علاج معالجہ میں کمی نہ کریں۔ڈاکٹروں کی شکایات اپنی جگہ درست، لیکن کیا انہیں اپنے مقام اور فرائض منصبی کا بالکل بھی اندازہ نہیں رہا اور کیا ان کے سینے میں دھڑکتے دل میں رحم نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی جو ہر کچھ عرصے بعد اپنی شکایات کے ازالے کے لئے ہڑتال کا سہارا لیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں بیمار اور حادثات کے شکار لوگوں کی تکالیف کئی گنا بڑھ جاتی ہیں اور اس ہڑتال کے نتیجے میں ہونے والے اموات کا خون ناحق کس کی گردن پر ہو گا؟
جمعرات، 12 اپریل، 2012
جسے دیکھواٹھ کر پاکستان کے خلاف بولنا شروع کردیتاہے
جسے دیکھواٹھ کر پاکستان کے خلاف بولنا شروع کردیتاہے اور جوبراہ راست مخالفت نہیں کرتا وہ پاکستان توڑنے پر تلا ہو اہے۔ کہیں بلوچ علیحدگی پسند ہیں اور کہیں سندھی قوم پرست ۔ کچھ لوگ بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنا چاہتے ہیں اور کچھ سندھ کو علیحدہ ملک بنانے کے دعویدار ہیں۔ اسی اثناء میں کراچی میں ایک بار پھر مہاجر صوبے کی تحریک چل پڑی ہے۔ اس کے پیچھے کون ہے‘ یہ کوئی راز نہیں مہاجر صبوبے کی تحریک کو تقویت دینے کے لیے کانگریسی لیڈر ابوالکلام آزاد کو زندہ کردیا گیا ہے اور قیام پاکستان سے پہلے کی ان کی تقاریرٹی وی چینلزپر چلوائی جار ہی ہیں جن میں بھارت سے ہجرت کرکے آنے والوں کو اکسایا جارہاہے ۔ حکومت تو سوئی پڑی ہے ورنہ اس کے لیے یہ معلوم کرنا مشکل نہیں کہ ٹی وی چینل پر ابوالکلام کی تقاریر مسلسل کون چلوارہاہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت سے کوئی شکوہ ہی بے جا ہے۔ اے این پی کو پہلی مرتبہ ایک صوبے کی حکومت ملی ہے۔ اس کی تاریخ گواہ ہے کہ اس نے کبھی بھی پاکستان کو تسلیم نہیں کیا اوراس جماعت کے بانیوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی۔ خان عبدالغفار عرف باچا خان نے تو پاکستان کی مٹی میں دفن ہونا بھی گوارہ نہیں کیا۔ پاکستان کی مخالفت کی وجہ سے وہ سرحدی گاندھی کہلاتے تھے۔
منگل، 10 اپریل، 2012
A Tribute to Siachen Mujahids
میں اکثر ماں سے کہتا تھا
اْس دن کا انتظار کرنا
جب دھرتی تیرے بیٹے کو پکارے گی
اور ان عظیم پربتوں کے درمیان بہتے
اْشو کے دریا کا نیلا پانی
اور سوات کی گلیوں میں بارش کے قطروں کی طرح گرتی
روشنی کی کرنیں پکاریں گی۔ ۔ ۔
اور پھر اس دن کے بعد
میرا انتظار نہ کرنا
کہ خاکی وردی میں جانے والے اکثر
سبز ہلالی میں لوٹ کر آتے ہیں۔ ۔ ۔
مگر میری ماں۔ ۔ ۔
آج بھی میرا انتظار کرتی ہے
گھر کی چوکھٹ پہ بیٹھی لمحے گنتی رہتی ہے
میرے لیے کھانا ڈھک رکھتی ہے۔ ۔ ۔
کبھی جو تمہیں میری ماں ملے
تو اْس سے کہنا،
وہ گھر کی چوکھٹ پہ بیٹھ کر
میرا انتظار نہ کیا کرے۔ ۔ ۔ ۔
خاکی وردی میں جانے والے
لوٹ کر کب آتے ہیں؟
میں اکثر ماں سے کہتا تھا
یاد رکھنا !
اس دھرتی کے سینے پہ
میری بہنوں کے آنسو گرے تھے،
مجھے وہ آنسو انہیں لوٹانے ھیں۔ ۔ ۔
میرے ساتھیوں کے سر کاٹے گئے تھے
اور ان کا لہو پاک مٹی کو سرخ کر گیا تھا۔۔
مجھے مٹی میں ملنے والے
اْس لہو کا قرض اتارنا ہے۔ ۔ ۔
اور میری ماں یہ سن کر
نم آنکھوں سے
مسکرا دیا کرتی تھی۔ ۔ ۔
کبھی جو تمہیں میری ماں ملے
تو اْس سے کہنا
اس کے بیٹے نے لہو کا قرض چکا دیا تھا
اور
دھرتی کی بیٹیوں کے آنسو چن لیے تھے۔ ۔ ۔
میں اکثر ماں سے کہتا تھا
میرا وعدہ مت بھلانا،
کہ جنگ کے اس میدان میں
انسانیت کے دشمن درندوں کے مقابل
یہ بہادر بیٹا پیٹھ نہیں دکھائے گا
اور ساری گولیاں
سینے پہ کھائے گا
اور میری ماں
یہ سن کر
تڑپ جایا کرتی تھی
کبھی جو تمہیں میری ماں ملے
تو اْس سے کہنا،
اس کا بیٹا بزدل نہیں تھا
اس نے پیٹھ نہیں دکھائی تھی
اور ساری گولیاں سینے پہ کھائیں تھی۔ ۔۔ ۔
میں اکثر ماں سے کہتا تھا
تم فوجیوں سے محبت کیوں کرتی ہو؟
ہم فوجیوں سے محبت نہ کیا کرو، ماں!
ہمارے جنازے ہمیشہ جوان اْٹھتے ہیں۔ ۔ ۔
اور میری ماںـ ـ ـ
میری ماں یہ سن کر
رو دیا کرتی تھی ـ ـ ـ
کبھی جو تمہیں میری ماں ملے
تو اْس سے کہنا،
وہ فوجیوں سے محبت نہ کیا کرے۔ ۔ ۔
اور
دروازے کی چوکھٹ پہ بیٹھ کر
میرا انتظار نہ کیا کرے
سنو۔ ۔ ۔!
تم میری ماں سے کہنا
اْس سے کہنا وہ اب بھی ہنستی رہا کرے کہ
شہیدوں کی مائیں رویا نہیں کرتیں
بدھ، 4 اپریل، 2012
پیپلزپارٹی کی حکومت کے چارسال مکمل
پیپلزپارٹی کی حکومت کے چارسال مکمل ہوچکے ہیں۔ صدراوروزیراعظم اس پر داد طلب ہیں۔ ادھرملک بھرکے عوام کے صبرکا پیمانہ لبریزہوچکاہے۔ ہرطرف احتجاج ہے‘ مظاہرے ہیں اور حکمرانوں کے خلاف نعرے,۔یکم اپریل سے ایک بارپھرتیل وگیس کی قیمت میں ظالمانہ اضافہ کرنے پرتاجرتک بلبلااٹھے ہیں۔ تاجربرادری نے سول نافرمانی کی دھمکی دے دی اور ٹرانسپورٹرز کرائے بڑھانے کا اعلان کررہے ہیں‘ پنجاب میں توکرائے بڑھابھی دیے گئے۔ ان چاربرسوں میں بدامنی‘ مہنگائی اور بیروزگاری میں بے تحاشہ اضافہ ہواہے‘ صنعتیں بندہورہی ہیں‘ عوام مہنگائی کے ہاتھوں بے حال ہیں۔ اونچے ایوانوں کے روزکے اخراجات بڑھتے جارہے ہیں۔ ان چاربرسوں میں حکومت نے اتنا قرض چڑھالیاہے جو قیام پاکستان کے بعد سے چارسال پہلے تک لیے جانے والے قرض سے زیادہ ہے۔ جہاں منتخب وزیراعظم کی حیثیت سے ریکارڈ توڑا گیا وہیں قرض لینے کا بھی نیا ریکارڈ قائم کیاگیا۔ یہ قرض حکمران نہیں عوام اداکریں گے اس لیے حکمرانوں کو کوئی فکر بھی نہیں کہ وقت آیا تو وہ اپنا سامان سمیٹ کر ایوانوں سے چلتے بنیں گے
پیر، 2 اپریل، 2012
ذرا تصور کیجئے
ذرا تصور کیجئے! ایسے ملک کے بارے میں باہر کی دنیا کیا سوچے گی جس کے شہری جھوٹی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹ کر غیر قانونی طریقوں سے ترقی یافتہ ممالک میں سیاسی پناہ کی درخواستیں دیتے پھر رہے ہوںاور پھر ان کی کارستانیاں کوئی اور نہیں بلکہ اسی ملک میں بے نقاب ہوں جہاں سیاسی پناہ حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے… ذرا سوچیے! اس ملک کا کیا تصور ہوگا جس کے باشندے جھوٹی سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لیے اپنے ملک پر تنقید کے آرے چلاتے ہوں ۔ جی ہاں! وطن عزیز کو بدنام کے لیے ایک ایسا ہی گروہ سرگرم ہے جس کو ہم اور آپ جماعت احمدیہ یا قادیانیوں کے نام سے جانتے ہیں اور تشویشناک امر یہ ہے کہ اس گروہ کی جعلسازی کو جرمنی کی وفاقی پولیس نے اس وقت بے نقاب کیا جب چند روز قبل شہر ڈارم شاڈ کے قریب فونک شاڈ میں جماعت احمدیہ کے چار گھروں پرچھاپا مار کر جماعت احمدیہ کے صدر ثناء اﷲ سمیت تین لوگوں اظہرجوئیا، عمر جوئیا اور ناصر جوئیا کو گرفتار کرلیا گیا۔ ذرائع کے مطابق یہ یورپ کی تاریخ میں غیر قانونی سیاسی پناہ حاصل کرنے میں مدد دینے والا اب تک کا سب سے بڑا گروہ ہے، اس گروہ کے تانے بانے کس خوفناک حد تک پھیلے ہوئے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایے کہ جرمن پولیس نے زیر حراست احمدیوں سے پوچھ گچھ کے نتیجے میں ایک جرمن وکیل بوش برگ اور اس کی احمدی سیکریٹری روبینہ کے گھروں پر بھی چھاپے مارے ہیں۔ انکشافات در انکشافات کا سلسلہ جاری ہے، جرمن ریڈیو چیخ رہا ہے، یورپی اخبارات چنگھاڑرہے ہیں۔ پولیس کمانڈوز ایک شہر سے دوسرے شہر مسلسل چھاپے مار کر احمدیوں کو گرفتار کر رہے ہیں، ذرائع کے مطابق احمدیوں کا یہ گروہ ایک طویل عرصے سے سرگرم تھا اور پاکستان سے ان گنت احمدیوں کو غیر قانونی طریقے سے جرمنی اور یورپ کے دیگر شہروں میں پناہ دلوا چکا تھا ۔ جرمن میڈیا کے مطابق احمدیوں کے خلاف جرمنی کی تاریخ میں سب سے بڑی پولیس کارروائی کی گئی جس میں بھاری پولیس نفری استعمال ہوئی او رپولیس کمانڈوز نے بھی اس میں بھرپور حصہ لیا۔ جماعت احمدیہ کے بعض ’’ لبرل‘‘ ذرائع نے جرمنی پولیس کی کارروائی پر کچھ حیرت انگیز انکشافات کیے ہیں۔ ان کے مطابق جماعت احمدیہ کی مرکزی قیادت اس بات کا حتمی فیصلہ کرچکی ہے کہ پاکستان سے بڑی تعداد میں احمدیوں کو یورپ کے مختلف ملکوں میں بسایا جائے ، اس ضمن میں مسلم نوجوانوں کو بھی بیرون ملک کے سہانے سپنے اور احمدی خواتین سے شادی کا لالچ دے کر جرمنی، لندن، کینیڈا ، ہالینڈ ، بیلجئیم، اسپین و دیگر یورپی ممالک میں بسایا جارہا ہے اور اس مہم کو کامیاب بنانے کے لیے پاکستان میں متعدد احمدی گروہ سرگرم ہیں۔
پیر، 26 مارچ، 2012
واہ وکیل صاب
وزیراعظم کے وکیل اورسینیٹ میں نئے قائدایوان بیرسٹراعتزازاحسن پاکستان کے روشن خیال دانشوروں میں ایک اہم نام ہیں۔ ان کی فکرودانش کا ان کے مخالفین بھی احترام کرتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلوں پر عمل درآمد نہ ہونے اور وزیراعظم پرتوہین عدالت کے الزام میں ’’فرد جرم ‘‘ عائد ہونے کے بعد اعتزازاحسن نے اپنی زندگی کے سب سے مشکل مقدمے کا دفاع شروع کیاہے۔ اس مقدمے میں بیرسٹر اعتزازاحسن کے دلائل نے دوستوں اور ناقدوں سب کو شرمندہ کرنا شروع کردیاہے۔ وہ کوئی تکنیکی نکتہ سامنے نہیں لاسکے ہیں۔ گزشتہ روز عدالت عظمیٰ میں وزیراعظم کے حق میں دلائل دیتے ہوئے وکیل صفائی بیرسٹر اعتزازاحسن نے کہاکہ عدالت نے وزیراعظم کے خلاف سخت الفاظ استعمال کیے ہیں حالانکہ وہ پیراورگدی نشین ہیں۔ روشن خیال حضرات ایک جملہ بار باراستعمال کرتے ہیں کہ وہ پاپائیت اور تھیوکریسی کو تسلیم نہیں کرتے ۔ویسے تو اسلام میں پاپائیت کا کوئی وجود نہیں ہے‘ لیکن وکیل صفائی بیرسٹر اعتزازاحسن نے وزیراعظم کا یہ استحقاق بیان کیاہے کہ چونکہ وہ پیر اورگدی نشین ہیں اس لیے ان کے بارے میںسخت الفاظ استعمال نہیں کیے جانے چاہئیں تھے۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ ہمارے ملک کا لبرل اور روشن خیال طبقہ کس تضاد فکری کا شکارہے۔ جدیدیت تو ویسے بھی کسی طبقے کا تقدس قبول نہیں کرتی۔ یہ الگ بات ہے کہ حکومت نے ریاست کے سب سے بڑے منصب دارکو استثنیٰ کے ’’مقدس‘‘ منصب پرفائزکیاہواہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج وزیراعظم کی صفائی پیش کرنے کے لیے اعتزاز احسن کو اس لیے موقع مل گیا ہے کہ عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے حکومت کو ضرورت سے زیادہ مہلت دے دی ہے۔ اس کی وجہ سے پاکستان کا لبرل طبقہ بھی بے نقاب ہوگیاہے۔
ہفتہ، 24 مارچ، 2012
اندھا بانٹے ریوڑیاں
صدر آصف علی زرداری نے یوم پاکستان کے موقع پرمختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں سرانجام دینے اور دہشت گردی کیخلاف جنگ میں شہید ہونے والوں میں سول و فوجی اعزازت تقسیم کیے۔کل 190اعزازات تقسیم کیے گئے۔ ایوان صدر اسلام آباد میں ہونے والی تقریب میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی ، سیاسی رہنمائوں ، عسکری قیادت اور دیگر حکام بھی موجود تھے ، رحمن ملک، فرحت اللہ بابر ، بیگم نصرت بھٹو ، فرزانہ راجا ، گورنر سلیمان تاثیر کی اہلیہ ، شرمین عبید چنا ئے سمیت فوجی جوانوں اور اعلیٰ سول حکام اور ان کے اہل خانہ نے اعزازات وصول کیے ۔دہشت گردی کیخلاف جنگ میں لڑتے ہوئے شہید ہونے والے جن افسران اور جوانوں کو ستارہ بسالت دیا گیاان میںریئر ایڈمرل وسیم اکرم ، ائر وائس مارشل اشفاق آرائیں ، کیپٹن سید سردار حسین شاہ ، کمانڈر محمد فرحت عباس ، کمانڈر جواد حیدر خواجہ ، لیفٹیننٹ کمانڈر غلام شبیر ، لیفٹیننٹ کمانڈر خرم شہزاد اکرم ، کیپٹن ظفر خان شہید ، کیپٹن محمد جاوید خان شہید ، لیفٹیننٹ سید یاسر عباس شہید ، کیپٹن راجہ فرحان علی شہید ، لیفٹیننٹ فیض سلطان ملک شہید ، لیفٹیننٹ سجاد خان شہید کے اعزازت ان کے والدین نے وصول کیے جبکہ نائب صوبیدار فضل الرحمن کا اعزاز ان کی اہلیہ ، نائب صوبیدار فہیم خان کا اعزاز ان کی بیٹی ، حوالدار محمد زبیر ، حوالدار اللہ دتہ کی اہلیہ لیڈنگ ٹیکنیشن عبدالرزاق شہید کے والد ، لانس نائیک مظہر علی شاہ کی اہلیہ ، سپاہی محمد جاوید شہید کے والد سپاہی جمشید علی شہید کی اہلیہ ، سگنل میں محمد عمران علی شہید کے والد ، سپاہی محمد احسن کی والدہ ، سپاہی راشد اسلم شہید کی والدہ ، ٹیکنیشن محمد طیب شہید کے بھائی ، شیف انعام الرحمان شہید کے والد ، شیف اصغر علی شہید کے والد نے اپنے اقرباء کے اعزازات وصول کیے ۔ سول فوجی اعزازات پانے والوں میں مادر جمہوریت بیگم نصرت بھٹو (مرحومہ ) کو نشان امتیاز دیا گیا ان کا اعزاز صنم بھٹو نے وصول کیا ۔سابق گورنر سلیمان تاثیر کی ا ہلیہ نشان امتیاز ،ا سپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا ، وزیر داخلہ رحمن ملک ، سعودی عرب کے سفیر عبدالعزیز بن ابراہیم ، آسکر ایوارڈ یافتہ شرمین عبید چنائے ، فرزانہ راجا ، ایم ڈی بیت المال زمرد خان ، ترجمان ایوان صدر فرحت اللہ بابر ، میاں عامر محمود ، سلیمان فاروقی ، سلطان علی لاکھانی ، صحافی نذیر ناجی ، وارث میر کو نشان امتیاز اور ہلال امتیاز کے اعزازات دیے گئے ۔ سید وڈال شاہ ، نرگس سیٹھی کو ہلال امتیاز ، ڈاکٹر عالمگیر ،عبدالعزیز شہید ، ناصرہ وزیر علی ، سکندر احمد رائے ، غلام مصطفیٰ سولنگی ، سہیل رانا ، حنیف خالد ، زاہد ملک ، ڈاکٹر ظہیر احمد مرحوم ، برہان گوہر اعجاز ، جمیل احمد کو ستارہ امتیاز ۔اداکارہ میرا کو تمغہ حسن کارکردگی‘جاوید شیخ محمد عزمل اناکر ( جاپان ) ، وسیم اشرف تائی شہید جمال الدین خان کو تحفہ شجاعت جبکہ شہید عبدالقدیر خان تمغہ شجاعت کے اعزازات ان کی بیوائوں ، عبدالرشید خان ، سید احمد خان ، عبداللہ جان ترین شہید ، آصف رحمان خان ، ارشاد علی رضا ، گلفت حسین شہید ، کانسٹیبل شازیہ گل شہید ، شاہ ایران شہید ابدالی محمد حسین شہید ، ہیڈ کانسٹیبل محمد طارق ، میجر ریٹائرڈ داور بن ظہور ، لیفٹیننٹ ریٹائرڈ اطہر اقبال سے کچکول خان شہید ، سلیم خان شہید ، عطا اللہ شہید ، فرید اللہ شہید ، شمشاد بیگم شہید ، محمد وصال خان شہید ، ملک مناسب خان شہید ، ملک فضل خان شہید ، محمد نوید یونس شہید ، عبدالجبار بھٹو ، لیفٹیننٹ ریٹائرڈ مقصود احمد کو تمغہ شجاعت ، اشتیاق بیگ ، ملک محمد آصف ، ایمان علی موچن ، سید جاوید حسنین کاظمی کو تمغہ امتیاز دیا گیا ۔شرمیلا فاروقی کو ستارہ امتیار سے نوازا گیا۔
صدر آصف علی زرداری نے یوم پاکستان کے موقع پرمختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں سرانجام دینے اور دہشت گردی کیخلاف جنگ میں شہید ہونے والوں میں سول و فوجی اعزازت تقسیم کیے۔کل 190اعزازات تقسیم کیے گئے۔ ایوان صدر اسلام آباد میں ہونے والی تقریب میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی ، سیاسی رہنمائوں ، عسکری قیادت اور دیگر حکام بھی موجود تھے ، رحمن ملک ، فرحت اللہ بابر ، بیگم نصرت بھٹو ، فرزانہ راجا ، گورنر سلیمان تاثیر کی اہلیہ ، شرمین عبید چنائے سمیت فوجی جوانوں اور اعلیٰ سول حکام اور ان کے اہل خانہ نے اعزازات وصول کیے ۔دہشت گردی کیخلاف جنگ میں لڑتے ہوئے شہید ہونے والے جن افسران اور جوانوں کو ستارہ بسالت دیا گیاان میںریئر ایڈمرل وسیم اکرم ، ائر وائس مارشل اشفاق آرائیں ، کیپٹن سید سردارحسین شاہ ، کمانڈر محمد فرحت عباس ، کمانڈر جواد حیدر خواجہ ، لیفٹیننٹ کمانڈر غلام شبیر ، لیفٹیننٹ کمانڈر خرم شہزاد اکرم ، کیپٹن ظفر خان شہید ، کیپٹن محمد جاوید خان شہید ، لیفٹیننٹ سید یاسر عباس شہید ، کیپٹن راجہ فرحان علی شہید ، لیفٹیننٹ فیض سلطان ملک شہید ، لیفٹیننٹ سجاد خان شہید کے اعزازت ان کے والدین نے وصول کیے جبکہ نائب صوبیدار فضل الرحمن کا اعزاز ان کی اہلیہ ، نائب صوبیدار فہیم خان کا اعزاز ان کی بیٹی ، حوالدار محمد زبیر ، حوالدار اللہ دتہ کی اہلیہ لیڈنگ ٹیکنیشن عبدالرزاق شہید کے والد ، لانس نائیک مظہر علی شاہ کی اہلیہ ، سپاہی محمد جاوید شہید کے والد سپاہی جمشید علی شہید کی اہلیہ ، سگنل میں محمد عمران علی شہید کے والد ، سپاہی محمد احسن کی والدہ ، سپاہی راشد اسلم شہید کی والدہ ، ٹیکنیشن محمد طیب شہید کے بھائی ، شیف انعام الرحمان شہید کے والد ، شیف اصغر علی شہید کے والد نے اپنے اقرباء کے اعزازات وصول کیے ۔ سول فوجی اعزازات پانے والوں میں مادر جمہوریت بیگم نصرت بھٹو (مرحومہ ) کو نشان امتیاز دیا گیا ان کا اعزاز صنم بھٹو نے وصول کیا ۔سابق گورنر سلیمان تاثیر کی ا ہلیہ نشان امتیاز ،ا سپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا ، وزیر داخلہ رحمن ملک ، سعودی عرب کے سفیر عبدالعزیز بن ابراہیم ، آسکر ایوارڈ یافتہ شرمین عبید چنائے ، فرزانہ راجا ، ایم ڈی بیت المال زمرد خان ، ترجمان ایوان صدر فرحت اللہ بابر ، میاں عامر محمود ، سلیمان فاروقی ، سلطان علی لاکھانی ، صحافی نذیر ناجی ، وارث میر کو نشان امتیاز اور ہلال امتیاز کے اعزازات دیے گئے ۔ سید وڈال شاہ ، نرگس سیٹھی کو ہلال امتیاز ، ڈاکٹر عالمگیر ،عبدالعزیز شہید ، ناصرہ وزیر علی ، سکندر احمد رائے ، غلام مصطفیٰ سولنگی ، سہیل رانا ، حنیف خالد ، زاہد ملک ، ڈاکٹر ظہیر احمد مرحوم ، برہان گوہر اعجاز ، جمیل احمد کو ستارہ امتیاز ۔اداکارہ میرا کو تمغہ حسن کارکردگی‘جاوید شیخ محمد عزمل اناکر ( جاپان ) ، وسیم اشرف تائی شہید جمال الدین خان کو تحفہ شجاعت جبکہ شہید عبدالقدیر خان تمغہ شجاعت کے اعزازات ان کی بیوائوں ، عبدالرشید خان ، سید احمد خان ، عبداللہ جان ترین شہید ، آصف رحمان خان ، ارشاد علی رضا ، گلفت حسین شہید ، کانسٹیبل شازیہ گل شہید ، شاہ ایران شہید ابدالی محمد حسین شہید ، ہیڈ کانسٹیبل محمد طارق ، میجر ریٹائرڈ داور بن ظہور ، لیفٹیننٹ ریٹائرڈ اطہر اقبال سے کچکول خان شہید ، سلیم خان شہید ، عطا اللہ شہید ، فرید اللہ شہید ، شمشاد بیگم شہید ، محمد وصال خان شہید ، ملک مناسب خان شہید ، ملک فضل خان شہید ، محمد نوید یونس شہید ، عبدالجبار بھٹو ، لیفٹیننٹ ریٹائرڈ مقصود احمد کو تمغہ شجاعت ، اشتیاق بیگ ، ملک محمد آصف ، ایمان علی موچن ، سید جاوید حسنین کاظمی کو تمغہ امتیاز دیا گیا ۔شرمیلا فاروقی کو ستارہ امتیار سے نوازا گیا۔ |
پیر، 12 مارچ، 2012
خیبرپختونخوا میں نصابی کتب سے قرآنی سورتوں کے اخراج کا فیصلہ
امریکی ’’وارآن ٹیرر‘‘ کے محاذوں میں ایک اہم محاذ تعلیم کا بھی ہے۔ مدارس کو ہدف بنانے سے لے کر نصاب تعلیم میں تبدیلی اہم ایجنڈا ہے۔ نصاب تعلیم میں اصلاح کے بجائے بگاڑ کا عمل مسلسل جاری ہے۔ اس سلسلے میں تازہ ترین فیصلہ صوبہ خیبر پختونخوا میں نویں جماعت کی اسلامیات کی کتاب سے سورۃ الانفال‘ سورۃ الاحزاب اور سورۃ الممتحنہ کا اخراج ہے۔ یہ وہ سورتیں ہیں جن میں جہاد کی ترغیب دی گئی ہے۔ امریکا اور مغرب نے جہاد کو دہشت گردی قرار دے دیا ہے۔ یہ کام صوبہ خیبر پختونخوا میں اے این پی کی حکومت نے کیا ہے۔ اے این پی اور پیپلزپارٹی سمیت ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں۔ لیکن نصابی کتب سے اسلام کی تعلیمات کو کم کرنا اور بالخصوص جہادی سورتوں کا اخراج امریکی صلیبی جنگ کا حصہ ہے۔ امریکا نے ابوغرائب کے تعذیب خانے میں قرآن کے اوراق کو ٹوائلٹ میں بہانے کی گستاخی کی‘ پادری ٹیری جونز نے قرآن سوزی کا اعلان کیا‘ انٹرنیٹ پر توہین رسالت کے لیے کارٹون بنانے کے مقابلے کا اعلان کیا گیا‘ بگرام ایئربیس پر امریکی فوجیوں نے قرآن نذرآتش کیا‘یہ سارے واقعات اس جنگ کا حصہ ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں نصابی کتاب قرآن کی سورتوں کا اخراج بھی قرآن سوزی کے امریکی عمل کا حصہ ہے۔
اتوار، 4 مارچ، 2012
امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کی پاکستان کو دھمکی
امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن نے خبردارکیاہے کہ اگرپاکستان نے ایران کے ساتھ مجوزہ گیس پائپ لائن منصوبے پرعمل کیاتو اسے بھی امریکا کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اب یہ پاکستانی حکمرانوں کا امتحان ہے کہ وہ پاکستان کے مفاد میں جرأت مندانہ فیصلہ کرتے ہیں یا ماضی کی طرح ہتھیارڈال دیتے ہیں۔اب یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ پاکستان کا توانائی کابحران جان بوجھ کربڑھایاگیا ہے ایک طرف بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قراردے کر بھارت کے لیے پاکستان کی منڈی کو کھول دیاگیاہے تاکہ افغانستان پر قابض امریکا اور یورپی طاقتوں کو بھارت سے زمینی رابطہ رکھنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو‘ دوسری طرف پاکستان کا پڑوسی مسلمان ملک پاکستان کے توانائی کے بحران کو بھی حل کرسکتاہے اور پاکستان کو توانائی کے سستے ذرائع میسرآسکتے ہیں‘ لیکن تین برس سے امریکا مذاکرات کے نام پر توانائی کے بحران کو بڑھارہاہے۔
جمعہ، 24 فروری، 2012
ذرائع ابلاغ وسیع پیمانے پر اخلاقی تباہی پھیلانے والا ہتھیاربن گئے ہیں۔
موجودہ دور میں ذرائع ابلاغ کو غیرمعمولی طاقت حاصل ہوگئی ہے ‘ذرائع ابلاغ اورمیڈیا کی آزادی کا شوربھی ہے‘ لیکن اس شورمیں آزادی کے ساتھ ذمہ داری کا تصورپس منظرمیں چلا گیا ہے۔ ذرائع ابلاغ نے حکمرانوں کے جبرواستبدادکے سامنے تو مزاحمت کی ہے لیکن سرمایہ دارانہ ظلم واستحصال کا آلہ کاربھی بن گیاہے۔ زیادہ بہترالفاظ میں یہ کہاجاسکتاہے کہ پوری دنیا میں ذرائع ابلاغ ”وسیع پیمانے پر اخلاقی تباہی پھیلانے والا ہتھیار“بن گئے ہیں۔ پاکستان میں نائن الیون کے بعد دس برسوں میں ذرائع ابلاغ تہذیب مغرب اور سرمایہ دارانہ نظام کے قائد امریکا کی عسکری اور سیاسی دہشت گردی کے ساتھ ثقافتی دہشت گردی کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے موجودہ کردار کا تعلق بھی امریکی ”وارآن ٹیرر“ سے ہے جو اسلام اور مغرب کی عالمی جنگ کا حصہ ہے۔ اس جنگ کے تحت عالم اسلام کی مخصوص ذہنی تشکیل بھی مقصودہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ بالخصوص ٹی وی چینل اس جنگ میں امریکا اوربھارت کے مقامی آلہ کار بن گئے ہیں۔ پاکستانی معاشرے کی دینی اور اخلاقی بنیادوں کوکھودڈالنے کے لیے ذرائع ابلاغ کے ثقافتی ڈرون حملے بھی جاری ہیں۔ اس عمل نے معاشرے کی پاکیزگی کو آلودہ کردیاہے۔ اس نے ہمارے گھروں اور ہمارے بچوں کی ایمانی حیات کے لیے خطرہ پیداکردیا ہے۔ معاشرے کو پاکیزہ رکھنا ہم سب کا ملّی فریضہ ہے۔ دولت کی پوجا کرنے والے مفاد پرست عناصرکو ذرائع ابلاغ کی اقدارکا تعین کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ پاکستان کے ذرائع ابلاغ کو اسلام اور انسانیت کی مشترکہ پاکیزہ اقدارکا پابندبنانا حکومت کابھی فریضہ ہے اور بداخلاقی اورعریانی وفحاشی کی یلغارکو روکنا ہرفردکی ذمہ داری ہے۔
بدھ، 22 فروری، 2012
پاکستان میں پرائیویٹ سیکٹرکو تعلیم کے میدان میں کھلی چھوٹ
پاکستان میں پرائیویٹ سیکٹرکو تعلیم کے میدان میں کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ یہاں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے معیار، نصاب، اساتذہ کی اہلیت اور تنخواہوں، فیسوں اور ہم نصابی سرگرمیوں پرکوئی چیک نہیں ہے۔ بھانت بھانت کے نصاب پڑھائے جارہے ہیں، اساتذہ کی اہلیت کا کوئی معیار نہیں، من مانی فیسیں وصول کی جاتی ہیں اور اچھے مسلمان اور اچھے پاکستانی تیارکرنے کی باتیں ہوا میں اڑا دی گئی ہیں۔ یہ ملک وملت کے خلاف گہری سازش ہی، کیونکہ یہ نظامِ تعلیم ہی ہوتا ہے جو معاشرے کے عقائد و اقدارکے مطابق افراد تیار کرتا ہے اور اگر یہ پراسیس رک جائے تو قومیں با نجھ ہوجاتی ہیں۔ پاکستان میں نظام تعلیم کے سا تھ جوکچھ ہورہا ہے وہ اس امرکا مظہر ہے کہ قوم کی قیادت ایسے ہاتھوں میں ہے جن کو ملک کی سالمیت،بقا اور اس کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت سے کوئی دلچسپی نہیں،
منگل، 14 فروری، 2012
ویلنٹائن ڈے ,دنیاکی خاطر اپنی آخرت برباد کرنا خسارے کا سوداہے۔
آج پھرعاقبت نااندیش اور مغرب کے اسیرپاکستانی ویلنٹائن ڈے منارہے ہیں۔ یہ خرافات کے سواکچھ نہیں ہے اور خود مغرب میں اس کی سند موجود نہیں کہ اس دن کا آغازکب سے اورکیوں ہوا؟ بھارتی ڈرامے بھی اس رجحان کو فروغ دے رہے ہیں حالانکہ بھارتی معاشرے میں بھی یہ بات قابل قبول نہیں ہے۔ افسوسناک با ت یہ ہے کہ ویلنٹائن ڈے کی لعنت اور فحاشی کو فروغ دینے میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ٹی وی چینلز اور کچھ اخبارات آگے آگے ہیں۔ اس پر احتجاج کیاجائے تو اسے آزادی اظہارکی راہ میں رکاوٹ سمجھاجاتاہے حالانکہ مادرپدرآزادی کسی بھی صالح معاشرے میں قابل قبول نہیں ہے ایک مسلمان کویہ ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ وہ جس قوم سے محبت رکھے گا‘ اس کے طورطریقے اختیارکرے گا‘ آخرت میں اسی کے ساتھ اٹھایاجائے گا۔ دنیاکی خاطر اپنی آخرت برباد کرنا خسارے کا سوداہے۔
بدھ، 8 فروری، 2012
دوست ہیرے کی مانند ہے اور بھائی سونے کی مانند
حضرت شیخ سعدی سے کسی نے پوچھا
دوست اور بھائی میں کیا فرق ہوتا ہے-
شیخ سعدی فرمانے لگے
" دوست ہیرے کی مانند ہے اور بھائی سونے کی مانند "
وہ شخص بہت حیران ہوا اور کہنے لگا
حضرت ! بھائی جو حقیقی اور سگا رشتہ ہے اسے
آپ کم قیمت چیز سے منسوب کر رہے ہیں - اس میں کیا حکمت ہے ؟
شیخ سعدی نے فرمایا -
سونا اگرچہ کم قیمت ہے لیکن اگر ٹوٹ جائے تو اسے پگھلا کر اصل شکل دی جا سکتی ہے جب کہ ہیرا اگر ٹوٹ جائے تو اسے اصل شکل نہیں دی جا سکتی
بھائیوں میں اگر وقتی چپقلش ہو جائے تو وہ دور ہو جاتی ہے - لیکن اگر دوستی کے رشتے میں کوئی دراڑ آجائے تو اسے دور نہیں کیا جا سکتا۔
منگل، 7 فروری، 2012
اگر اس ماہِ مبارک میں ہم صرف ایک سنت کو ہمیشہ کے لیے اپنانے کا ارادہ کرلیں تو شاید اس محبت کا ایک ادنیٰ سا حق ادا ہوسکے جس کا دعویٰ ہم ببانگ دہل کرتے ہیں
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنا جذباتیت نہیں بلکہ عبادت ہی‘ تو بھلا ہم اُن سے محبت کابرملا اظہار کیوں نہ کریں؟ کیوں نہ ڈنکا بجائیں!‘ شادیانے بجائیں! چونکہ ترقی یافتہ ممالک میں محبت کے اظہار کے لیے کچھ ایام مخصوص ہوتے ہیں لہٰذا ہم نے بھی اس کام کے لیے ربیع الاوّل کا مہینہ مخصوص کرلیا ہے۔ ادھر ربیع الاوّل کا گلی میں چاند نکلا ادھر عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اژدھام ہوا۔ گلیاں چوبارے سجا دیئے گئی‘ ممبر و محراب چمکا دیئے گئی‘ خانقاہوں‘ درباروں اور مساجد میں چراغاں کردیا گیا‘ ہر گھر‘ ہر عمارت‘ ہر گلی‘ ہر کوچے میں سبز جھنڈا لہرا دیا گیا۔ 14 اگست کی روایت کی طرح ہر ہاتھ میں جھنڈا‘ ہر دکان میں جھنڈا‘ ہر فٹ پاتھ پہ جھنڈا‘ ہر بازار میں جھنڈا نظر آنے لگا‘ ہر گلی میں ایک ٹینٹ لگا ہی‘ ہر لاوڈ اسپیکر سے صدا آرہی ہے ”جشن آمد رسول اللہ ہی اللہ“ عیقدت کے پھول نچھاور کیے جارہے ہیں‘ محبت کے گلدستے پیش کیے جارہے ہیں۔ سیرت کے جلسے ہورہے ہیں‘ نعتیہ مشاعرے پڑھے جارہے ہیں‘ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منایا جارہا ہی‘ عطر پاشی کی جارہی ہی‘ گل پاشی کی جارہی ہی‘ نعت خوانوں پر روپے اشرفی‘ ڈالر و درہم لٹائے جارہے ہیں۔ ان محافل میں شرکت کو خوش بختی و سعادت سمجھنے کے ساتھ ساتھ نجات کی گارنٹی سمجھا جارہا ہے۔ خواتین نہایت ادب و احترام‘ تیاری اور اہتمام کے ساتھ محفل میلاد میں شریک ہورہی ہیں‘ آنکھوں میں کجرا اور ہاتھوں میں گجرا سجا ہوا ہی‘ بہترین تراش خراش کے لباس میں ملبوس ہیں‘ گوٹے کنارے کے دوپٹے برہنہ سروں کو آج ڈھانپے ہوئے ہیں‘ ثواب بھی مل رہا ہے اور شیرنی بھی ۔ نعتوں کے نئے البم ریلیز ہورہے ہیں‘ مشہور مغنیوں کے علاوہ اداکارائیں اور فن کارائیں نعت خوانی کی سعادت سے مشرف ہورہی ہیں‘ نعت خواں صبح اس محفل میں‘ شام اس محفل میں‘ دن اس ریکارڈنگ میں‘ رات اس ریکارڈنگ میں (کیا فیوض و برکات ہیں! واللہ!) کہہ کہہ کر جھوم جھوم کر نعت پڑھتے جارہے ہیں‘ اعلان کرتے ہیںکہ ”میں تو پنجتن کا غلام ہوں‘ میں غلام ابن غلام ہوں“ دعویٰ کرتے ہیں کہ ”تم پر میں لاکھوں جان سے قربان یا رسول!“ جلسی‘ جلوس‘ ریلیاں‘ محافل‘ کانفرنس‘ خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے فلوٹ‘ جشن میلاد النبی کے بینرز.... غرضیکہ کوئی کسر نہیں چھوڑتے اظہار عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں۔ ہم چونکہ ہر کام میں ”دکھاوے“ کے قائل ہوچکے ہیں اس لیے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی دکھاوے سے باز نہیں آتی‘ حد سے گزر جاتے ہیں‘ غلو کر جاتے ہین‘ جذبات کے اس ریلے میں یہ بھی نہیں سوچتے کہ ہم کر کیا رہے ہیں؟ دھوم دھام سے جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی منا لیتے ہیں۔ ہم سب کچھ کرلیتے ہیں مگر وہ نہیں کرتے جو آپ کو پسند ہی‘ جس میں آپ کی خوشنودی ہے۔ اگر ہم کسی کام کو کرنے سے قاصر ہیں تو وہ صرف اسوہ حسنہ کی پیروی ہے۔ اگر اس ماہِ مبارک میں ہم صرف ایک سنت کو ہمیشہ کے لیے اپنانے کا ارادہ کرلیں تو شاید اس محبت کا ایک ادنیٰ سا حق ادا ہوسکے جس کا دعویٰ ہم ببانگ دہل کرتے ہیں۔
ہفتہ، 4 فروری، 2012
غیرضروری اشیاءکی خریداری کو ترک کرکےطلب میں کمی لائی جا سکتی ہے
قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا وفاقی صوبائی اورضلعی نظام بالکل ناکام ہوچکا ہے اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں من مانے اضافے کا سلسلہ جاری ہے۔ ایسے میں مہنگائی سے بچا و کی ایک ہی صورت نظرآتی ہے کہ عوام بالخصوص متوسط طبقہ غیرضروری اشیاءکی خریداری کو ترک کرکے طلب میں کمی لائے تاکہ قیمتوں میں استحکام آئے۔ موبائل فون کے استعمال کو صرف ضرورت کی حدتک رکھاجائے اور نوجوانوں کو اسی کے استعمال کے سلسلے میں کفایت شعاری کی عادت ڈالی جائے۔ اس کے علاوہ پیپسی‘ کوکاکولا‘ برگرجیسی غیرضروری لوازمات میں بہت حدتک کمی کی جائے اور پیسہ بچاکر ضرورت اور مستحق لوگوں کی مددکی جائے تاکہ غربت‘ افلاس اوربے روزگاری سے تنگ آکرخودکشی کرنے والے افراد میں نمایاں کمی آسکے۔ روپے کی قیمت غیرمستحکم ہے اور 2011ءکے آخری مہینوں میں اس میں کمی آنا شروع ہوئی جس کی وجہ سے غیرملکی درآمدشدہ اشیاءکی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا۔ صارفین اگرغیرملکی درآمدشدہ چیزوں کا ممکنہ حدتک استعمال کرکے ایک جانب قیمتی زرمبادلہ بچاکر ملکی صنعتوں کی حوصلہ افزائی کرکے روزگارکے مواقع پیدا ہونے کی راہ ہموارکرسکتے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب اپنی آمدنی میں بچت بھی کرسکتے ہیں
جمعرات، 2 فروری، 2012
پھربھی پانچ سال پورے کرنے کی خواہش؟
ابھی کچھ دن پہلے ہی صدرمملکت جناب آصف علی زرداری نے فرمایاتھاکہ ہمیں پانچ سال پورے کرنے دیں تو ملک کی تقدیربدل دیں گے‘ ہم نے معیشت کو مستحکم کیاہے‘ ہم سیاست کو عبادت سمجھتے ہیں،پانچ سال پورے ہونے پر ملک کی تقدیر بدل دینے کا دعویٰ صدر مملکت نے اپنے اقتدارکے چار سال مکمل ہونے پرکیاہے اور اس عرصہ میں انہوں نے ملک کی تقدیرجس طرح بدلی ہے اور معیشت کو مستحکم کیاہے وہ سب کے سامنے ہے۔ عوام بلبلائے پھررہے ہیں، کپڑا، مکان توکجا روٹی کا حصول دشوارہوگیاہے۔ بچی کھچی مدت مل بھی گئی تو ماضی گواہ ہے کہ مستقبل میں کیا کریں گے۔ معیشت کی مزیدتباہی ، مہنگائی میں ہوش ربا اضافہ اور بدعنوانی کے جال میں مزید استحکام۔ اس کا اظہاریوں تو روزانہ کی بنیاد پر ہورہاہے اور نئے سال کے آغازپر ہی ایک تحفہ تھمادیا گیا تھا مگر یکم فروری کو عوام کو مہنگائی کے جس بھیانک اورتباہ کن سونامی سے دوچارکیاگیاہے اس کی مثال تلاش کرنا مشکل ہے۔ پیٹرول، ڈیزل، سی این جی‘ ایل پی جی‘ مٹی کا تیل، سب ہی کچھ تو نہ صرف مہنگاکردیاگیا بلکہ اتنا بھاری اضافہ کیاگیا ہے کہ عوام کے ہوش اڑگئے ہیں۔ اضافہ چند پیسوں کا یا روپیہ دو روپیہ کا نہیں، لوٹ مارکے سب ریکارڈ توڑدیے گئے ہیں۔ پیٹرول پر 5 روپے 37 پیسے اور ڈیزل پر 4 روپے 64 پیسے فی لیٹر اضافہ ہواہے۔ ڈیزل کی قیمت پیٹرول سے کہیں زیادہ آگے نکل گئی ہے۔ یکم فروری سے پیٹرول 94 روپے 91 پیسے اورڈیزل 103 روپے 46 پیسے فی لیٹرہوگیاہے۔ یہ اندھیر نگری ،چوپٹ راج کا شاہکارہے۔ ڈیزل ہمیشہ سے پیٹرول کے مقابلے میں سستا رہاہے۔ بڑی گاڑیاں ڈیزل پرچلتی ہیں۔ کاشتکاربھی ٹیوب ویل اور ٹریکٹروں میں ڈیزل استعمال کرتے ہیں ۔ اب نہ صرف زرعی اجناس مزید مہنگی ہوںگی بلکہ نقل وحمل اور مسافربسوں کے کرائے بھی آسمان سے باتیں کریںگے جو پہلے ہی کم نہیں ہیں اور حکومتوں کا ان پرکوئی کنٹرول نہیں ہے۔ سی این جی پر چلنے والی بسیں ڈیزل کے حساب سے کرایہ وصول کرتی ہیں۔ اورکرائے ہی کیا حکومت کا توکسی بھی ایسے معاملے پرکنٹرول نہیں جس کا تعلق عوام سے ہو۔ بے شرمی کی انتہا یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے کہاگیاہے کہ چونکہ پچھلے ماہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نہیں بڑھائی تھیں اس لیے ساری کسرنکال لی گئی ہے۔ اس حکومت کو اگر پانچ سال پورے کرنے دیے گئے اور مزید ایک سال کی مہلت دی گئی تو ماہانہ نہیں روزانہ کی بنیاد پرمہنگائی بڑھے گی اور تب تک جانے عوام کا کیاحال ہو۔ ایسا لگ رہاہے کہ حکومت کے آخری دنوں میں یہ طے کرلیاگیاہے کہ عوام اور ملک کی معیشت کو جتنا نقصان پہنچایاجاسکے‘ پہنچادیا جائے ۔ کیا حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ مہنگائی کا طوفان برپاکرکے اور لوٹ مار، بدعنوانی کا ریکارڈ بناکر وہ جب دوبارہ عوام کے پاس جائیں گے تو انہیں پذیرائی ملے گی‘ سرآنکھوں پربٹھایاجائے گا اور لوٹ مارکا ایک اور موقع فراہم کیاجائے گا؟
اس بدترین صورتحال پر پانچ سال پورے کرنے کی خواہش!۔
پیر، 30 جنوری، 2012
ناکامیوں سے کبھی حوصلہ نہیں ہارناچاہیے
قومی کرکٹ ٹیم نے دنیا کی نمبر1 کرکٹ ٹیم انگلینڈکو عبرت ناک شکست د ے کر ٹیسٹ سیریزجیت لی۔ ابوظہبی میں منعقدہونے والی ٹیسٹ سیریزمیں مسلسل دوسری کامیابی نے پور ے پاکستان میں خوشی کی لہردوڑادی ہے۔ یہ ایک ایسی کامیابی ہے جس کا کرکٹ کے مبصرین کو وہم وگمان بھی نہیں تھا۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے انگلینڈ کو بہت ہی آسان ہدف دیاتھا اور اس کے پاس ڈیڑھ دن بھی تھے لیکن پاکستانی بولروں نے انگلینڈ کی پوری ٹیم کو 72 رنز ک
ے اوپر آٹ کردیا اور اس کامیابی کا سہرا ٹیم اسپرٹ کپتان مصباح الحق اور پاکستانی بالروں عبدالرحمان کے سرہے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم طویل عرصے سے داخلی اورخارجی بحران کا شکارہے۔ گزشتہ ٹیسٹ میچ میں پاکستانی کھلاڑیوں کی کارکردگی برطانیہ کے ذرائع ابلاغ کو برداشت نہیں ہوئی تھی اور انہوں نے اعتراضات شروع کردئے تھے لیکن اللہ رب العزت نے پاکستانی کھلاڑیوں کے ذریعے انگلینڈ کا تکبرتوڑدیا۔ انگلینڈ کے خلاف پاکستان کرکٹ ٹیم کی تاریخی فتح اس بات کی علامت ہے کہ پاکستانی نوجوان زندگی کے ہرشعب میں کارنامے انجام د ے کر ملک کانام روشن کرسکتاہے۔ ملک میں ایسا نظام موجود نہیں ہے جو باصلاحیت نوجوانوں کو مواقع فراہم کرسکے۔ ہمارے حکمرانوں نے تو کرکٹ کو بھی تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ،میچ فکسنگ اسکینڈل نے پوری قوم کو رسوا کردیا۔ اس کامیابی سے یہ سبق ملتاہے کہ ناکامیوں سے کبھی حوصلہ نہیں ہارناچاہیے۔
منگل، 24 جنوری، 2012
میرے وطن کے اُداس لوگو
نہ خود کو اتنا حقیر سمجھو
کہ کوئی تم سے حساب مانگے
نہ خود کو اتنا قلیل سمجھو
کہ کوئی اُٹھ کر کہے یہ تم سے
وفائیں اپنی ہمیں لُٹا دو
وطن کو اپنے ہمیں تھما دو
اُٹھو اور اُٹھکر بتا دو اُن کو
کہ ہم ہیں اہل ایمان سارے
نہ ہم میں کوئی صنم کدہ ہے
ہمارے دل میں تو اک خُدا ہے
میرے وطن کے اُداس لوگو
جھکے سروں کو اُٹھا کے دیکھو
قدم تو آگے بڑھا کے دیکھو
ہے اک طاقت تمھارے سر پر
کرے گی سایہ جو اُن سروں پر
قدم قدم پر جو ساتھ دے گی
اگر گرے تو سنبھال دے گی
میرے وطن کے اُداس لوگو
اُٹھو چلو اور وطن سنبھالو
بیٹیاں ، رحمت خداوندی
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک مسکین عورت اپنی دو بیٹیاں اٹھائے ہوئے میرے پاس آئی تو میں نے تین کھجوریں اسے کھانے کیلئے دیں۔ اس نے ان دونوں کو ایک ایک کھجور دے دی اور باقی ایک کھجور اپنے منہ کی طرف اٹھائی تاکہ اسے کھائے لیکن وہ بھی اس کی دونوں بیٹیوں نے کھانے کیلئے مانگ لی۔ پس اس نے اس کھجور کے، جسے وہ کھانا چاہتی تھی، دو ٹکڑے کیے اور ان دونوں بیٹوں کو دے دیے۔ مجھے اس کی یہ بات بہت اچھی لگی، پس اس نے جو کیا تھا میں نے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ نے فرمایا: ''یقیناً اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کی وجہ سے اس کے لیے جنت واجب کردی یا (فرمایا) اسے جہنم کی آگ سے آزاد فرما دیا ہے۔''
کوئی ان سے پوچھے اسے جانے کس نے دیا تھا ؟
سینیٹ میں پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرانے کی قرار داد منظور کرلی گئی‘ انہیں وطن واپسی پر گرفتا رکرلیا جائے گا‘ قرار داد رضا ربانی نے تمام جماعتوں کی جانب سے پیش کی۔ قرار داد کے مطابق پرویز مشرف نے 2 مرتبہ آئین کو معطل کیا اور بے نظیر بھٹو اور اکبر بگٹی کے قتل میں معاونت کی۔قرار داد میں کہا گیا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف نے بلوچستان کے عوام کے خلاف ریاستی قوت کا استعمال کیا‘ مشرف نے غیر ممالک سے تحریری معاہدے کرکے قومی سلامتی کو نقصان بھی پہنچایا۔ پرویز مشرف نے وفاق کو بھی نقصان پہنچایا جس سے مختلف مافیا کو فروغ ملا۔این ایف سی کے تحت صوبوں کو ملنے والے حصوں میں کٹوتی کی گئی۔قرار داد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت آرٹیکل6کے تحت مقدمہ درج کرائے۔سینیٹ میں کسی رکن نے قرار داد کی مخالفت نہیں کی ۔
کوئی ان سے پوچھے اسے جانے کس نے دیا تھا ؟ پتہ نہیں یہ کب تک اٹھارہ کروڑ عوام کو بیوقوف بناتے رہیں گے ؟
پیر، 23 جنوری، 2012
آيئے ھم سب مل کر اپنے ناراض رب کو راضی کریں
حضرت موسی کلیم اللہ نے مالک عرش و فرش سے عرض کی
اے کائنات کے مالک و خالق
آپ آسمانوں پر رھتے ھیں اور ھم زمین پر
کیسے پتہ چلے گا کہ آپ ھم سے راضی ھیں یا ناراض ھیں ؟
اللہ تعالی نے فرمایا،
اے موسٌى ،جب تمھارے اوپر اچھے لوگ حاکم بن جايئں
مال دار سخی بن جايئں
موسم کے مطابق بارشیں ھوں
تو سمجہ لینا کہ تمھارا رب تم سے راضی ھے
اور
جب بدترین لوگ تمھارے حاکم بن جايئں
مالدار بخیل بن جايئں
اور موسم کی بارشیں رک جايئں
تو سمجہ لینا اللہ تعالی ناراض ھے زمین والوں سے
تواب جب هم اپنے پاکستان کے
بدترین حاکم کو دیکھہ کر
مالدار بخیلوں کو دیکھہ کر
بے موسموں کی بارش اور دلول کی سختیاں دیکھہ کر ھر ایک محسوس کرتا ھے کہ
ھمارا رب ھم سے راضی نہیں ھے ۔
اللہ تعالی کی عظمت محبت اور خشیت سے لبریز دل مائل گریئہ ھیں
اور اللہ کو راضی کرنے کے جتن کرتے ھیں
آيئے ھم سب مل کر اپنے ناراض رب کو راضی کریں
اتوار، 22 جنوری، 2012
ایک طرف ریمنڈ ڈیوس دوسری جانب ڈاکٹر عافیہ
جنوری میں عبادالرحمن، فیضان اور فہیم کی شہادت کو ایک سال ہوگیا۔ امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس نے مزنگ میں پاکستان کے دل لاہور کی بارونق سڑک پر فیضان اور فہیم کو دن دہاڑے قتل کردیا تھا، اور عباد کو گاڑی تلے کچل ڈالا تھا۔ ان شہدا میں سے ایک کا بچہ ابھی دنیا میں نہیں آیا تھا۔ فہیم کی بیوہ نے خود کشی کرلی تھی، فیضان کی بیوہ کس حال میں ہے اور دیگر شہدا کے والدین کے دن رات کیسے گزر رہے ہیں، عوام میں بہت کم ایسے ہوں گے جو اس سے واقف ہوں۔ جنوری یہ واقعہ ہوا اور مارچ میں ریمنڈ ڈیوس مکمل پروٹوکول کے ساتھ لاہور سے افغانستان اور وہاں سے امریکا پہنچادیا گیا۔ سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ملک کی سلامتی اور خودمختاری کے تحفظ کے نعرے بھی لگاتی ہیں اور دعوے بھی کرتی ہیں۔ ایک جانب ریمنڈ ڈیوس تھا اور دوسری جانب ڈاکٹر عافیہ
کس قوم کا پلڑا بھاری ہے، فیصلہ خود کرلیں
قوم کو حکمرانوں پر پورا اعتماد ھو تو
اگر حکمرانوں کو قوم پر اور قوم کو حکمرانوں پر پورا اعتماد ھو اور قوم ایمانداری کے ساتھ یہ سمجھے کہ اس کے سربراہ درحقیقت اس کی فلاح کے لیے کام کر رھے ھیں تو ایک قوم کو باھر سے سود پر قرض مانگنے کی صورت پیش نہیں آ سکتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ملک کے اندر جو ٹیکس لگائے جائیں گے وہ سو فیصدی وصول ھوں گے اور سو فیصدی ھی وہ قوم کی ترقی پر خرچ ھوں گے ۔۔ وصولیابی اور خرچ میں بےایمانی نہیں ھو گی ۔ میرا اندازہ ھے کہ پاکستان میں اگر اسلامی اصولوں کا تجربہ کیا جائے تو شاید بہت جلدی پاکستان دوسروں سے قرض لینے کے بجائے دوسروں کو قرض دینے کے لیے تیار ھو جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( سیّد ابوالاعلٰی مودودی رح ، رسائل مسائل 4 )
جمعرات، 19 جنوری، 2012
ساری رات روندے رہے تے مریا کوئی نہیں
کچھ لوگوںکاخیال ہے کہ آج 19جنوری کادن پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھاجائے گا،مگرمیں سوچتاہوں کہ بھلا کیوں رکھاجائے گا لوگ کہتے ہیں کہ آج وزیراعظم عدالت میں پیش ہوئے لیکن زراسوچیےکہ فائدہ کس کوہوااورنقصان کس کوسب سے بڑافائدہ توجناب اعتزازاحسن کوہواجنہیں کروڑوںروپیہ حکومت پاکستان کی طرف سے وکالت کی فیس مل گی یاپھروزیراعظم پاکستان کوجوکہتے ہیں کہ میرانام تاریخ میں زندہ رہے گاکہ میں عدالت میں پیش ہوگیااورنقصان کس کاہوامیرے جیسے اٹھارہ کروڑعوام کاجو سوچتے ہی رہے کہ ہمارے خرچے پرکوئی تو تاریخ میں زندہ ہوگیااورکسی کوکروڑوںروپے فیس مل گی اورہم سوچتے ہی رہے کہ
پیر، 16 جنوری، 2012
سنو ارفع کریم
سنو ارفع کریم
تمھاری المناک موت پر یہ بے غیرت حکمران اور سیاست دان تو ایک لفظ نہ بول سکے
مگر اس آسمان کو آج جی بھر کے رونا آیا ۔ ارفع میری بچی تیری جدائی پر سارے پاکستان کے ساتھ ساتھ آسمان بھی رویا ۔ پورے پاکستان میں موسم کی پہلی بارش تیری موت پر نوحہ خواں رہی ۔ واقعی آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرتا ر ھا ۔
پاکستان کی آنے والی نسلیں تجھ پر فخر کرتی رہیں گی ۔
اتوار، 15 جنوری، 2012
ارفع ھم سب تم سے شرمندہ ھیں
سر درد کا علاج بھی امریکہ اور یورپ میں کروانے والے ھمارے حکمرانوں تم ارفع کریم کے قاتل ھو ۔ ۔ اربوں روپے ایک ایک جلسہ پر خرچ کرنے والے نواز شریف ، زرداری ،عمران خا ں اور الطاف حسین تم سب ارفع کریم کے قاتل ھو ، تم نے پاکستا ن کے ہیرے کو ما ردیا ۔ ارفع ھم سب تم سے شرمندہ ھیں میری بچی مگر ہم مجبور ہیں ان بے غیرتوں کے ہاتھوں
بیٹیاں تو تعبیر مانگتی دعاؤں جیسی ہوتی ہیں
تپتی زمیں پر آنسوؤں کے پیار کی صورت ہوتی ہیں
چاہتوں کی صورت ہوتی ہیں
بیٹیاں خوبصورت ہوتی ہیں
دل کے زخم مٹانے کو
آنگن میں اتری بوندوں کی طرح ہوتی ہیں
بیٹیاں پھولوں کی طرح ہوتی ہیں
نامہرباں دھوپ میں سایہ دیتی
نرم ہتھیلیوں کی طرح ہوتی ہیں
بیٹیاں تتلیوں کی طرح ہوتی ہیں
چڑیوں کی طرح ہوتی ہیں
تنہا اداس سفر میں رنگ بھرتی
رداؤں جیسی ہوتی ہیں
بیٹیاں چھاؤں جیسی ہوتی ہیں
بیٹیاں اَن کہی صداؤں جیسی ہوتی ہیں
کبھی جھکا سکیں، کبھی مٹا سکیں
بیٹیاں اناؤں جیسی ہوتی ہیں
کبھی ہنسا سکیں، کبھی رلا سکیں
کبھی سنوار سکیں، کبھی اجاڑ سکیں
بیٹیاں تو تعبیر مانگتی دعاؤں جیسی ہوتی ہیں
حد سے مہرباں، بیان سے اچھی
بیٹیاں وفاؤں جیسی ہوتی ہیں
آ ئو کامیابی کی طرف
ہفتہ، 14 جنوری، 2012
امریکہ نے کہا طالبان دہشت گرد ہیں
امریکہ نے کہا ، طالبان ، دہشت گرد ہیں
تو ہمارے سب دانشوروں اور سیاست دانوں نے ایک زبان ہوکر طالبان پر لعنت ملامت شروع کر دی
آپ کو یاد ہوگا ، کسی زمانے میں ، طالبان سے مزاکرات کی بحث شروع ہوئی تو
اس بات پر شدید تنقید ہوئی تھی کہ قاتلوں ، دشت گردوں سے صرف طا قت سے نمٹا جاۓ
مگر آج جب امریکا نے کہا
طالبان سے مذاکرات کریں گے
تو سب دانشوروں اور راہ نماؤں کو طالبان سے مذاکرات میں ہی نجات نظر آرہی ہے
ا
جمعہ، 13 جنوری، 2012
آخر کب تک ؟
شمالی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل میں نیو اڈا کے مقام پر ڈرون طیارے نے گاڑی پر 2 میزائل داغے جس کے نتیجے میں 8 افراد موقع پر ہلاک ہوگئے جب کہ متعدد زخمی ہوگئےہیں۔