بدھ، 14 جنوری، 2015

محسن رفیق بٹ بھی چل بسے ! آہ وہ جو محسن بھی تھے اور رفیق بھی

4 تبصرے
کل حافظ صفوان صاحب کی ایک پوسٹ سے ان کی ناگہانی رحلت کا علم ہوا ،میر ا بٹ صاحب سے فیس بک پر کافی عرصہ سے بڑا گہرا تعلق تھا اور میرے باغبانی بلاگ سے متاثر ہو کر انہوں نے کچن گارڈننگ شروع کی تھی اور چھت پر بڑے پودے لگا ئے تھے ، اکثر مجھے کہتے کہ آپ ایک دفعہ آکر دیکھیں تو سہی ان کے ساتھ پروگرام بھی بنا کہ گوجرانوالہ میں کچن گارڈننگ پر ورکشاپ کروائی جائے گی۔ بہت درد دل والے سچے ،محب وطن اور دین سے محبت رکھنے والے انسان تھے۔ فیس بک ایک ایسا فورم ہے جہاں کوگ جتنی تیزی سے آتے ہیں اتنی ہی تیزی سے چلے جاتے ہیں مگر کچھ احباب ایسے بھی جن سے بالکل ذاتی تعلق بن جاتا ہے،بٹ صاحب انہیں لوگوں میں سے تھے۔پاکستان سے محبت ان کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی،اکثر گروپس اور فورمز پر پاکستان پر ہونے والی مباحث کے دوران جذباتی ہو جاتے تھے،بڑی خواہش تھی کہ ان سے ملاقات ہو جائے مگر شائد نصیب میں نہیں تھی۔ 
"عجب آزاد مرد تھا حق مغفرت کرے "

اللہ کریم ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ( آمین)
فیس بک پر میں نے ان کی وفات کے حوالہ سے پوسٹ کی تو درجنوں احباب نے ان کے لئے دعائے مغفرت کی اور تعزیت کا اظہار کیا ،۔چند ددسرے احباب نے اپنی پوسٹوں میں انہیں خراج عقیدت پیش کیا ، میں سمجھتا ہوں یہ بھی ہمارے لئے ایک نعمت ہے کہ فیس بک کے ذریعے ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوجاتے ہیں۔
مزید فیس بک احباب کے تاثرات شیئر کر رہا ہوں۔
بڑے باغ و بہار آدمی تھے۔ تھوڑی تھوڑی خوشیوں میں بہت خوش رہنے والے۔ ہر سیاسی جماعت سے نالاں،ان کے سب سے زیادہ تحفظات صرف پی ٹی آئی سے ہیں کیونکہ یہ نان سیریس لوگوں کی جماعت ہے۔ ان کے دبنگ کومنٹس کے جواب میں بعض دوست ناراض ہوتے تو میں انھیں سمجھاتا کہ چاچو محسن رفیق کو ہماری محبت کی ضرورت ہے۔ ان سے اور ان کے تجربے سے سیکھیں اور اختلاف کو بہت دور تک نہ لے جائیں۔ اللہ کا شکر کہ بیشتر لوگوں نے میری بات مان لی۔ میں جب بھی دیکھتا کہ وہ سیریس ہو رہے ہیں، میں انھیں ہنسانے کی سوچی سمجھی کوشش کیا کرتا تھا۔
کبھی کوئی زور دار کومنٹ کرتے یا کسی کی ٹھیک ٹھاک خدمت کرتے تو فواً انباکس میں لکھتے ،
حافظ جی۔۔۔ کوئی اور خدمت ہمارے لائق؟۔ ان کی بیشتر باتیں درست نکلتیں کیونکہ وہ ایک بھرپور زندگی گزارے ہوئے تھے۔
ایک بار میں نے لکھا کہ آپ لوگوں سے لڑتے رہتے ہیں، کیا لڑنے کے لیے چاچی کافی نہیں؟ جواب دیا کہ اب تو وہ بھی نہیں لڑتی یار، میں نے پوچھا کہ چاچی کو کسی طرح مسلمان کیا؟ جواب دیا، بیمار شیمار رہ کے۔ اب تو میرا یوں خیال رکھنے لگی ہے جیسے کبھی اپنے نو مولودوں کا رکھا کرتی تھی۔۔۔ لگتا ہے ڈاکٹروں نے اسے کوئی خوشخبری سنا دی ہے میرے بارے میں۔ لمبی بات ہوئی۔ آخر میں میں نے کہا کہ اللہ آپ کو صحت دے چاچو، تاکہ چاچی ایک بار پھر ایکشن میں آجائے۔ ایسی بے شمار باتیں ان سے ہر ہفتے عشرے ہو جاتی تھیں۔
بھائی ندیم اختر اور حضرت قاری حنیف ڈار صاحب کا بہت تذکرہ کرتے تھے۔ ان سے ملاقات نہ ہونے کا غم ساتھ لے گئے۔ اکثر اصرار سے کہا کرتے تھے کہ کبھی گوجرانوالہ آؤں تو ضرور ملوں لیکن یہ موقع نہ بن سکا۔ ان کا چڑوں کا ناشتہ کرانے کا پروگرام دھرے کا دھرا رہ گیا۔ ان کے کچن گارڈن کی تصویریں بھی اب نظر نہیں آئیں گی۔
پچھلے دنوں بڑی سادگی سے بچی کی شادی کی، بے حد خوش تھے،کچھ عرصے سے فون پر گفتگو میں وقفے آنے لگے تھے۔ وجہ ان کی گرتی ہوئی صحت تھی۔ سوچ رہا تھا کہ آج کل میں فون کروں گا لیکن آنا جانا لگا رہا اس لیے یکسو نہ ہو سکا۔
ایک پربہار اور جی دار بندہ اپنے رب کے حضور پہنچا۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت میں بلند مقام عطا فرمائے۔ آمین۔



ندیم اختر :
سر جی یقین کریں کہ جب معلوم ہوا تو اسقدر دکھ ہوا کہ پوچِھیں نہ۔ جب بھی گوجرانوالہ گیا ہوں، وائف نے ہمیشہ کہا کہ اپنے دوست سے مل آئیں لیکن ہمیشہ اپنی سستی اور وقت کی کمی آڑے آئی، ہمیشہ اس سے کہا کہ چلو اگلی دفعہ مل لوں گا ، کون جانتا ہے کہ اگلی دفعہ آئے گی بھی یا نہیں۔



جب بھی گوجرانوالہ میں بارش ہوتی تھی آپ تصویروں کے ساتھ پوسٹ کیا کرتے ،انکی کچن گارڈن کی گوبھی اور گونگلو کی تصویر یاد رہے گی اور عیدپر پائے بنانابھی۔
تطہیر عزیز :
فیس بک احباب کی طرف سے مجھے یہ تیسرا بڑا دھچکہ پہنچا ہے۔ میرے احباب میں سے میرے دو اولین بزرگ محمد یاسر کلیم ، سید زیدی مجھ سے بچھڑ کر خالقِ حقیقی سے جاملے۔ ان کی شفقت و محبت ان کی یاد ہمیشہ تازہ رکھتی ہے اور آج یہ تیسرا بڑا دھچکہ مجھے انکل کی طرف سے ملا ہے۔ حمزہ نے جب میرے کسی پوسٹ پر محسن انکل کی وفات کا تذکرہ کیا تو پہلے تو میرے ایک دم سے سناٹا چھا گیا ، میں نے کمنٹ دوبارہ پڑھ ، خبر وہی ، الفاظ وہی۔۔۔۔۔ دل ماننے سے انکاری ، میں اْن کی وال پر گئی تو تعزیت سے بھری پڑی تھی۔۔
ایسا لگ رہا ہے جیسے کوئی اپنا بچھڑ گیا۔ انسان کو جن سے محبت ملتی ہے وہ بار، بار اور ہر بار اْن کی جانب لپکتا ہے۔ محسن انکل بہت اچھے اور نہایت وسیع مطالعہ انسان تھے ،نون لیگی تھے لیکن ان کے کافی سٹیٹس ایسے بھی پڑھے جن میں نون لیگ اور حکومت پر بے لاگ تبصرہ کیا گیا تھا۔ وہ پی ٹی آئی نوجوانوں کی بدتر اخلاقیات سے کافی نالاں رہتے تھے۔ کچھ عرصہ قبل کا واقعہ ہے کہ وہ ایک بھائی کی وال پر سٹیٹس پڑھ کر غصہ ہوگئے اور ان کا غصہ جائز بھی تھا کیونکہ ماں بہن کی عزت و تکریم ہم پر واجب ہے چاہے وہ مریم نواز ہو یا بختاور۔۔۔ ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ان کی عزتیں اچھالیں۔وہ کوکنگ اور باغبانی سے خاص شغف رکھتے تھے۔ ان کا خلاء میں ہمیشہ محسوس کروں گی ، اللہ پاک سے دعا ہے کہ ان کے درجات بلند فرمائے اور سوگواران کو صبر عطا کرے۔ آمین 
بے شک یہ سب کے لیے ہی ایک بہت بڑا صدمہ ہے لیکن کوشش کریں گے ایصالِ ثواب کا اہتمام کیا جائے۔
یہ لکھتے ہوئے دل اداس ہے کہ وہ ہم میں نہیں رہے ،مسلم لیگ کے لئے ہمیشہ فرنٹ فٹ پہ کھیلنے والے یہاں تک کہ فاؤل کھیلنے میں بھی عار نہیں سمجھتے تھے،میری ان سے بڑی لڑائیاں ہوئیں،پھر کوئی ان کا دوست ان باکس میں انکی بیماری کے باے میں بتاتا اور ہاتھ ہولا رکھنے کو کہتامیں کبھی چپ ہوجاتی اور کبھی دوست کو ہی مشورہ دیتی کہ چاچے کو سمجھائیں اس حد تک تکلیف دہ نہ ہوا کریں
بہرحال اللہ انکی مغفرت کرے ،موت ہم سب کی گھات میں ہے ،اپنے اپنے ضمیر کے سامنے گر ہم مطمئن ہیں تو ٹھیک ہے 
اللہ ہم سب پر رحم کرے ،چاچا خوش قسمت تھے ،اپنے لوگوں میں ،اپنے گھر میں اللہ کے پاس چلے گئے 
ہم ہر روزبے چہرہ موت کے شکارجوان اور بچے دیکھتے ہیں ،اللہ ہمارے حال پررحم فرمائے .چاچا کو اپنی رحمت سے ڈھانپ لے ،اسکی رحمت سب سے بڑا سہارا ہے ۔ آمین
خاور رانا :
آہ وہ جو محسن بھی تھے اور رفیق بھی، 
چپکے سے ساتھ چھوڑ گے 
وہ کتنے بردبار تھے، 
اکثر و بیشتر دوست احباب انہیں اپنی تنقید کے نشتر چبھوتے رہتے تھے لیکن وہ ہر تلخ و شیریں کو خندہ پیشانی سے لینے کے عادی تھے، وہ ہر قسم کی تنقید سے بے نیاز اپنی صلاحیتوں کے مطابق سوشل میڈیا کے آسمان پر اپنی اڑان بھرنے کے عادی تھے، کتنا تدبر تھا ان کی سوچ میں، وہ ہم سوشل میڈیا والوں کا مان تھے، اللہ کریم انہیں غریق رحمت فرماے اور لواحقین کو صبر جمیل عطاء فرمائے ۔ امین یا رب العالمین




.