اتوار، 27 مئی، 2012

سچ یہی ہے کہ موجودہ حکمران خود ہمارے اپنے منتخب کردہ ہیں

0 تبصرے

-ایک شوہر نے اپنی پھوہڑ اور بدمزاج بیوی سے کہا " بیگم اب اِس گھر کو تم ہی جنّت بنا سکتی ہو " ۔ بیوی خوش ہو کر بولی " وہ کس طرح " ؟شوہر ٹھنڈی سانس لے کر بولا " میکے جاکر " ۔ موجودہ حکمرانوں نے پچھلے ساڑھے چار برسوں سے اِس ملک کو غریب عوام کیلیے جس طرح جہنّم بنایا ہوا ہے ، اب عوام کی بھی دِلی خواہش اُس مظلوم شوہر سے قطعی مختلف نہیں کہ موجودہ حکمران بھی جلد سے جلد ایوانِ اقتدار سے رُخصت ہو کر اپنے گھر چلے جائیں تو شائد اُن کی زندگیاں بھی آسان ہوجائیں اور وہ سُکھ کا سانس لے سکیں ۔ لیکن حکمرانوں نے بھی عوام کو بلیک میل کرنے کا عجیب و غریب طریقہ اپنایا ہوا ہے کہ اگر ہمیں گھر بھیجنے کی کوشش کی گئی تو موجودہ جمہوری سسٹم سے عوام ہاتھ دھو بیٹھیں گے اور عوام آسمان کی طرف دیکھ کر پھر خدا سے شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ " اے اللہ اِس " جمہوریت " کو چومنے چاٹنے کے عوض تو ہمیں کتنی رکعتوں کا ثواب عطا فرمائیے گا " ؟ ایک شکوہ مع جوابِ شکوہ تو حکیم الامت رقم فرما گئے ۔ اب ایک اور مظلوم شوہر کا شکوہ بھی لگے ہاتھوں سُن لیں " اے اللہ تو نے بچپن دیا ، چھین لیا ، جوانی دی چھین لی ، پیسہ دیا واپس لے لیا ، ایک بیوی بھی دے رکھی ہے ۔ بھول گیا کیا " ؟ عوام کوئی راستہ نہ پاکر آخرکار خدا سے ہی شکوہ کر کے کہتے ہیں " اے خدا موجودہ حکمرانوں کی صورت میں ہم پر جو عذاب تو نے مُسلّط کیا ہوا ہے ، وہ ختم آخر کیوں نہیں ہوجاتا ؟ نعوذ باللہ ! یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کچھ بھول جائے ، لہذا اِس سے قبل کہ اِس ناچیز پر کوئی کفر کا فتویٰ لگادے جلدی سے جوابِ شکوہ بھی سُن لیں قدرت اِس ملک کے " بھولے بھالے " عوام کا شکوہ سُن کر مُسکراتی ہے اور نہایت رسان سے کہتی ہے " جیسے عوام ، ویسے حکمران " کیا تمہیں میرا وعدہ یاد نہیں کہ " اُس قوم کی حالت میں اُس وقت تک نہ بدلوں گا ، جب تک اُس قوم کو خود اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ آئے " ۔ کیا اِن حکمرانوں کو میں نے آسمان سے اُتارا ہے ؟ تم نے خود ہی تو اِنہیں منتخب کر کے اپنے اوپر مُسلّط کیا ہے ۔ پھر شکوہ کیسا " ؟ یں

جمعرات، 10 مئی، 2012

قابل رحم ہے وہ قوم جس کا حکمران سزا یافتہ مجرم ہو

4 تبصرے

 اٹارنی جنرل نے فرمایا کہ ’’ شعرو شاعری سے سزا نہیں دی جا سکتی‘‘ لیکن انہیں شاید یہ نہیں معلوم کہ جس شعرو شاعری کا وہ حوالہ دے ہیں اس کا تعلق سزا کے فیصلے سے نہیں ہے بلکہ فیصلے سے ہٹ کر جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ کا اضافی نوٹ ہے اور اس کا تعلق بھی اخلاقیات سے ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جسٹس کھوسہ نے لبنان کے عیسائی شاعر اور فلسفی خلیل جبران کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے وہ فیصلے کا حصہ نہ ہوتے ہوئے بھی فیصلے کی جان ہے۔ اس سب کا تعلق بھی ا خلاقیات سے ہے لیکن اس میں غلط کیا ہے؟ یہ بات کس کو ناگوار گزری کہ’’ قابل رحم ہے وہ قوم جس کے رہنما قانون کی نافرمانی کرکے شہادت کے متلاشی ہیں‘ قابل رحم ہے وہ قوم جس کے حکمران قانون کا مذاق اڑاتے ہیں اور قابل رحم ہے وہ قوم جو اپنے کمزوروں کو سزا دیتی ہے مگر طاقت وروں کو کٹہرے میں لانے سے کتراتی ہے ۔ ترس آتاہے ایسی قوم پر جو مخصوص افراد کے لیے من پسند انصاف چاہتی ہے‘‘۔ اگر پاکستان میں صورتحال ایسی ہی ہے تو اس کے ذمہ داران کو شرم کرنی چاہیے اور اگر وہ سمھجتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے تو چراغ پا ہونے کی ضرورت نہیں۔ مگر اس کا کیا کیاجائے کہ یہ قوم واقعی قابل رحم ہے۔ سید یوسف رضا گیلانی فی الوقت تو مجرم ہو گئے لیکن وہ نجانے کس حد تک جانے کی بات کرتے ہیں اور وکیل استغاثہ مجرم کی پشت پر کھڑا اعلان کررہاہے کہ فیصلہ تسلیم نہ کیاجائے۔ کیا اس لیے کہ مخصوص فرد کو من پسند ’’انصاف ‘‘ نہیں ملا۔ گیلانی صاحب خط لکھ دینے سے آپ کے صدر کا کچھ نہ بگڑتا مگر آپ نے خود بات بگاڑدی۔ قابل رحم ہے وہ قوم جس کا حکمران سزا یافتہ مجرم ہو۔

قابل رحم ہے وہ قوم جس کا حکمران سزا یافتہ مجرم ہو

0 تبصرے

پیر، 7 مئی، 2012

پھر وکلاء گردی ، پھر ایک وکیل نے معزز جج صاحب کو جوتا دے مارا

6 تبصرے

۔ ہم کدھر جارہے ہیں،اوپر سے نیچے تک قانون دانوں نے ہی قانون کو مذاق بنا کر رکھ دیاہے۔بھری عدالت میں مرضی کا فیصلہ نہ آنے پر ایک وکیل نے جج صاحب کو جوتا دے مارا،یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ جب سے عدلیہ آزاد ہوئی ہے وکیل منہ زور ہو گئے ہیں جو لوگ عدالتوں میں جاتے ہیں ان کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ جج صاحبان اب ان وکلاء حضرات سے کیسے ڈرتے ہیں،کہاں کا انساف اور کہا ں کی انصاف پسندی،جس قوم کے لیڈر ،پڑھے لکھا معزز طبقہ اس طرح کی حرکتیں کرنا شروع کر دے اس کا اللہ ہی حافظ ہوگا،اگر اس روش کو نہ روگا گیا تو وطن عزیز ایک نئے المیہ سے دوچا ر ہوجائے،بدمعاشی اور مرضی سے انصاف لینے والوں کے سامنے جج اور قوم کو سرنگوں ہونا پڑے گا،پہلے کہاں عالم اقوام میں ہماری عزت کے ڈھول بج رہے ہیں جو اس طبقہ نے دنیا کو جگ ہنسائی کا موقع فراہم کردیا ہے۔پوری قوم نے کیا اس لئے محترم چیف جسٹس صاحب کی بحالی کی تحریک چلائی تھی کہ قوم کو نئی مصیبت کا سامنا کرنا پڑے

جمعرات، 3 مئی، 2012

یوم آزادی صحافت، دنیا بھر میں صحافیوں کے قتل میں 16 فیصد اضافہ، پاکستان سرفہرست

0 تبصرے

 آج پوری دنیا میں آزادیٴ صحافت کا عالمی دن تحت منایا جارہا ہے جس کا مقصد حق اور سچ کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ شہریوں میں سماجی شعور کی آگاہی بھی فراہم کرنا ہے۔ دنیا بھر میں صحافیوں کے قتل میں 16فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ پاکستان سرفہرست ہے۔ صحافت کی آزادی اب صرف کانفرنسوں تک محدود ہوکر رہ گئی اور حقیقت میں سچ کو فروغ دینے والے ہر صحافی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کئی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے زندگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ پاکستان میں صحافت کی آزادی کا تصور ختم ہوکررہ گیا ہے کبھی حکومتیں اپنی بات منوانے کیلئے ہرممکن دباؤ ڈالتی ہیں تو کبھی پریشر گروپس صحافت کی آزادی پر اثر انداز ہوتے ہوئے سچائی کو کچلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ملک میں حقائق کوپیش کرنے والے صحافیوں کیلئے کسی قسم کا تحفظ نہیں جس کا اندازہ اس امر سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان بدستور دوسرے سال بھی عالمی سطح پر صحافیوں کے قتل کے حوالے سے سرفہرست ہے۔ ولی بابر اور سلیم شہزاد سمیت پورے سال کے دوران 10صحافی پیشہ ورانہ خدمات سرانجام دیتے ہوئے قتل کردیئے گئے۔ آزادی صحافت کے عالمی دن کے حوالے سے  مختلف ذرائع سے جو اعدادوشمار حاصل کئے ہیں اس کے مطابق عالمی سطح پر 2011ء صحافیوں کیلئے برا ثابت ہوا اور صحافیوں کے قتل کے واقعات میں 16فیصد، غیر قانونی تحویل میں رکھے جانے والے صحافیوں کی تعداد میں 20فیصد، مختلف اوقات میں حراست میں لئے گئے صحافیوں کی تعداد میں 95فیصد، صحافیوں پر حملے اور تشدد کے واقعات میں 43فیصد اور اغوا کے واقعات میں 39فیصد اضافہ ہوا۔ رپورٹرز ود آؤٹ باڈرز کے اعداد وشمار کے مطابق دنیا بھر میں 2011ء کے دوران 28/ممالک میں 66صحافی اپنے فرائض منصبی ادا کرتے ہوئے قتل کردیئے گئے جبکہ 2010ء کے دوران ایسے صحافیوں کی تعداد 57تھی۔ سال بھر کے دوران 10صحافیوں کے قتل کے ساتھ پاکستان سرفہرست رہا جبکہ 7کے ساتھ عراق دوسرے اور 5,5 کے ساتھ لیبیا اور میکسیکو تیسرے نمبر پر رہے۔ بھارت اور ایران میں 2,2 صحافی قتل کئے گئے۔ صحافیوں کے قتل کے حوالے سے مشرق وسطیٰ کاخطہ بدترین رہا جہاں 20صحافی قتل ہوئےجبکہ18صحافیوں کی ہلاکتوں کے ساتھ امریکا دوسرے اور 17کیساتھ ایشیا تیسرے نمبر پر رہا۔


(بشکریہ روزنامہ جنگ)

 

.