یہ معصوم سی بچی زرعی
یونیورسٹی فیصل آباد میں بی ایس سی پلانٹ بریڈنگ اینڈ جنیڈر نگ انجینئر نگ میں تیسرے سال اور
پانچویں سمسٹر کی طالبہ اور وزیر اعلی پنجاب کی سکیم کے تحت لیپ ٹاپ ہولڈر مریم سجاد ہے جوالائیڈ
ہسپتال فیصل آباد کے ایک سنیئر ڈاکٹر کے
غلط آپریشن کی وجہ سے زندگی بھر کے لئے
معذور ہو کرایک سال سے بستر پر پڑی انصاف کی منتظر ہے ، جڑانوالہ روڈ پر ڈھڈی والا
کے قریب بخاری ٹاﺅن
خواجہ سٹریٹ کے رہائشی انجینئر سجاد انور کی بیٹی مریم سجاد جسے کلاس میں
لائق اور یونیورسٹی کی ہونہار طالبہ اور سمسٹر میں92%نمبر ز حاصل کرنے پر وزیر
اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے تحفے کے طور پر لیپ ٹاپ اور سکالر شپ سے بھی نواز
ا تھا ، مریم سجاد کو گزشتہ سال کے آخر میں دائیں بازو میں درد محسوس ہوا تو ان کے
والد اور والدہ 11دسمبر2012ءکو میڈیکل چیک اپ کےلئے الائیڈ ہسپتال لے گئے ، جہاں
پرچی بنوانے کے دوران کی ٹرینی ڈاکٹر محمد طیب انہیں بہتر چیک اپ کے لئے اپنے ساتھ
ہیڈ آف آرتھو پیڈک ڈاکٹر رسول احمد چوہدری کے پاس لے گیا جہاں ڈاکٹر رسول احمد
چوہدری نے مریم کی والدہ کو ڈراتے ہوئے بتایا کہ اگر فوری طور پر آپریشن نہ کیا
گیا تو اس کے ہاتھ کام کرنا چھوڑ جائیں گے اور شریانوں میں خون کی گردش رک جائے گی
، چنانچہ فوری طور پر مجھے سے آپریشن کروائےں ، یہ کہتے ہوئے موصوف ڈاکٹر نے داخلے
کی پرچی اور چارٹ تک بنا دیا لیکن مریم اوران کے والدین مطمئن نہ ہوئے اور مریم کے
والد انجینئر سجاد انور نے اپنے بھائی ڈاکٹر شہزاد انور سے مشورہ کرتے ہوئے باہر
کسی سپشلسٹ کو دکھا نے کا کہا ، لیکن ڈاکٹر رسول چوہدری نے اصرار کیا کہ میں
عرصہ30سال سے آپریشن کر رہا ہو میں سب جانتا ہوں بس آپ یہ آپریشن کروالیں ورنہ مرض
بڑھ جائے گا ، جبکہ حقیقت یہ تھی کہ ڈاکٹر رسول چوہدری بنیادی طور پر آرتھو پیڈک
سرجن ہیں اور ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ بھی ہیں ان کا تجربہ آرتھو پیڈک سرجری میں ہی ہے ،
انہوں نے کبھی مہرے یا پنڈلی کا آپریشن کیا ہی نہیں تھا ، ڈاکٹر رسول چوہدری نے
تجربہ حاصل کرنے کے لئے ایک معصوم طالبہ کو بھینٹ چڑھا نے کا عہد کر لیا اور نا تجربہ
کار ہونے کے باوجود 17دسمبر 2012ءکو الائیڈ ہسپتال کے پرائیویٹ وارڈ میں مریم سجاد
کا آپریشن کر دیا ، آپریشن کی بنیادی معلومات نہ ہونے کے باعث ڈاکٹر رسول چوہدری
نے مریم کی اضافی بڑھی ہوئی پسلی کا آپریشن کرنے کی بجائے ریڈ ھ کی ہڈی کا آپریشن
کر ڈالا اور مہروں کو اضافی پسلی سمجھتے ہوئے اندھوں کی طرح کاٹنا شروع کر دیا اور
آپریشن مکمل کر تے ہوئے وارڈ میں شفٹ کر دیا ۔ اگلے روز صبح مریم سجاد کو ہوش آیا
تو پتا لگا کہ مریضہ کا ہاتھ اور اوپر والا دھڑ حرکت میں ہے جبکہ پیٹ سے پاﺅں
تک نیچے کا تمام دھڑ رک گیا ہے ، جس کا مریضہ کو علم ہی نہیں ہے کہ وہ حصہ اس کے
جسم کے ساتھ بھی ہے کہ نہیں ، اس بات کا علم ہسپتال انتظامیہ کو ہونے پر ہسپتال
میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تو مریضہ کے والد نے اس کی MRIرپورٹ کروائی جس میں انکشاف ہوا کہ
موصوف ڈاکٹر غلام رسول چوہدری نے مریم سجاد کے دونوں مہروں کو اضافی پسلی سمجھتے
ہوئے ایک مہرے کا 1/3اور دوسرے مہرے کا 2/3حصہ کاٹ کر نکال دیا ہے ریڑھ کی ہڈی میں
بھی کٹ لگا دیئے جس کی وجہ سے ہونہار طالبہ مریم سجاد زندگی بھر کے لئے اپاہیج ہو
گئی اور ہسپتال انتظامیہ نے معاملے کو دبانے کی کوشش کرتے ہوئے انہیں ” گھر کی “
ہسپتال لاہور میں علاج کروانے کا کہہ کر اپنی جان چھڑوا لی ، لڑکی کے لواحقین بیٹی
کی زندگی میں پھر خوشیاں دیکھنے کی آس لئے ” گھر کی “ ہسپتال لاہور لے گئے جہاں
17دن زیر علاج رہی دوران علاج سانس اکھڑ جانے کی وجہ سے ہسپتال کے انتہائی نگہداشت
وارڈ ICUمیں رکھا گیا اور آپریشن بھی کیا گیا جس کے بعد وہ اپنے گھر فیصل آباد
منتقل ہو گئی ، دوسری طرف مریم کے والد انجینئر سجاد نے 26دسمبر کو ڈاکٹر رسول
احمد چوہدری کے خلاف وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو درخواست دے دی اور پرنسل
پنجاب میڈیکل کالج والائیڈ ہسپتال ڈاکٹر زاہد یٰسین ہاشمی کو درخواست دے دی ، وزیر
اعلیٰ نے فوری نوٹس لیتے ہوئے انکوائری بورڈ تشکیل دے دیا جس نے وزیر اعلیٰ کو
31دسمبر 2012ءکو رپورٹ ارسال کی جس میں ملزم ڈاکٹر رسول چوہدری نے اپنے جرم کا
اقرار کرتے ہوئے قبول کیا کہ اس سے غلطی سر زد ہوئی ، اس غلطی کی وجہ آپریشن کے
لئے ناکافی سہولیات تھیں ، وزیر اعلیٰ پنجاب نے معاملہ پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کے
سپرد کر کے غیر جانب دار انکوائری کاحکم دیا تو پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن نے 7فروری
2013ءکو ڈاکٹر رسول چوہدری اور مریضہ مریم کے والد سجاد انور کو لاہور طلب کر کے بیانات
سنتے اور انکوائری رپورٹ مکمل کرنے کے لئے 3ماہ کا وقت دے دیا ، انصاف کی امید لے
کر لاہور جانے والا مریضہ کا والد انجینئر سجاد انور 3ماہ کا وقت لے کر واپس آگیا
لیکن پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن انتظامیہ کے ساتھ با اثر ملزم ڈاکٹر رسول چوہدری نے
ساز باز کر کے معاملے کو دبانے کا پروگرام بنا یا اور 12دسمبر 2013ءکو اپنی ہونے
والی ریٹائر منٹ تک معاملے کو لٹکا نے لگی منصوبہ بندی کر لی اسی بناءپر آج اس نام
نہاد کیئر کمیشن کی کمیٹی کو تین ماہ کا ٹائم لیے بھی دس ماہ گزر چکے ہیں لیکن
ابھی تک ڈاکٹر رسول کے خلاف انکوائری رپورٹ مرتب نہ ہو سکی ہے اور اس کے ریٹائرڈ
ہونے میں بھی صرف ایک ماہ کا عرصہ رہ گیا ہے جبکہ دوسری طرف ایک سال سے بستر پر
پڑی ہوئی مریم سجاد جس کا تمام تعلیمی کیئر یئر تباہ ہوگیا ہے اس کی فزیو تھراپی
سمیت دیگر اخراجات پر 1ہزار روپے روزانہ کے اخراجات آرہے ہیں اور اب تک تقریباً
15لاکھ سے زائد کا خرچہ اس پر آگیا ہے ، لیکن پنجاب حکومت اور ضلعی انتظامیہ کے
اعلیٰ افسران کے تمام تر وعدوں کے باوجود آج تک متاثرہ گھر انے کو ایک روپیہ تک
امداد نہ دی گئی ہے ، ڈاکٹر رسول احمد چوہدری کی حیوانیت کی بھینٹ چڑھنے والی
متاثرہ بی ایس سی انجینئر نگ کی طالبہ مریم سجاد نے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار
محمد چوہدری ، وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف، وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز
شریف سے مطالبہ کیا ہے کہ ملزم ڈاکٹر رسول چوہدری کے ساتھ ملی بھگت کرنے والے
پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کے افسران کا کڑا احتساب کرتے ہوئے فوری طور پر واقع کی
انکوائری رپورٹ بنوائی جائے ،غلط آپریشن کرنے والے ملزم ڈاکٹر رسول احمد چوہدری کو
ریٹائرڈ ہونے سے پہلے اس کا ڈاکٹر یٹ کا لائسنس تا حیات منسوخ کر کے کڑی سے کڑی
قرار واقعی سزا دیتے ہوئے پابند سلاسل کیا جائے تا کہ کوئی اور مریضہ اس کی بھینٹ
چڑھ کر مریم سجاد بننے سے بچ سکے ، مریم سجاد نے خادم اعلی پنجاب سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ اس کا تعلیمی کیئر یئر
تباہ و برباد ہو گیا ہے زرعی یونیورسٹی انتظامیہ کے ذریعے اس کی تعلیم کا سلسلہ
دوبارہ شروع کر وایا جائے اور اس کے اب تک کے علاج پر آنے والے تمام اخراجات اور
آئندہ کے علاج کا تمام خرچ ادا کرتے ہوئے تعلیمی اخراجات بھی اٹھائیں ۔
پیر، 4 نومبر، 2013
مٹ جائے گی مخلوق تو کیا انصاف کرو گے
rdugardening.blogspot.com
پیر, نومبر 04, 2013
15
تبصرے


اس تحریر کو
مریم سجاد ، ڈاکٹر رسول چوہدری ، چیف جسٹس آف پاکستان ، مصطفےٰ ملک کا بلاگ ، انصاف ،
کے موضوع کے تحت شائع کیا گیا ہے
15 تبصرے:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔
.
بڑی ہی افسوسناک بات ہے، ڈاکٹر صرف اپنی کمائی کے چکر میں معصوم انسانوں کی زندگیاں خراب کر دیتے ہیں۔
میرا ذاتی تجربہ ہے کہ پرائیوٹ ڈاکٹر کے کہنے پر کبھی آپریشن نہیں کروانا چاہیئے، حالات جتنے مرضی خراب ہوں کسی اور غیر جانبدار ڈاکٹر کو لازمی دکھانا چاہیئے۔
اللہ بچی کو صحت اور تندرستی عطا فرمائے، آمین۔
بہت افسوسناک خبر ہے۔۔۔ اللہ بچی کو اچھی صحت عطا فرمائے۔۔۔ اور مجرموں کو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچائے۔۔۔ آمین۔۔۔
بہت افسو ناک خبر ہے۔ اللہ انہیں شفاء دے۔۔۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ طب کے اس مقدس پیشے کو ڈاکٹرز نے پیسے کمانے کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ کا شکار میرا چھوٹا بھائی تھا۔۔ جسکا آپریشن کرنے کے بعد آرتھوپیٹک ڈاکٹر نے ہمیں بتایا کہ اس آپریشن کے کامیابی کے امکانات بلکل نہیں۔ آپریشن سے پہلے وہ چل سکتا تھا لیکن بعد میں عمر بھر کے لئے معذور ہوگیا ۔۔۔ بد قسمتی سے پاکستان میں ایسے ظالم سفاک ڈاکٹرز کو روکنے کے لئے کسی قسم کا قانون موجود نہیں اور یہ ڈاکٹرز انسانی زندگیوں سے بغیر کسی خوف کے کھیلتے رہتے ہیں۔
آگہی فراہم کرنے کا بُہت بُہت شُکریہ : یہ آگہی یقیناَ فائدہ مند ہے ۔۔"ہمیشہ رب کی مہر بانیاں رہیں''۔۔
Ye doctor nai gsai hay
ڈاکٹرز کا معزز پیشہ بھی آج صرف کمائی کا ذریعہ بن چکا ہے اور اس عظیم پیشے کی آڑ میں لوگوں نے مذموم قسم کے مکروہ دھندے شروع کررکھے ہیں، کوئی مریض انکے چنگل میں ایک مرتبہ پھنس جائے تو پھر اسکی کھال تک اتارنا انکا فرض بن جاتا ہے، ایک کی بجائے تین تین لیبارٹریوں سے ٹیسٹ کروائے جاتے ہیں کیونکہ لیبارٹریوں میں ان کے کمیشن طے ہوتے ہیں، یہاں تک کہ مجھے شوکت خانم سے ہیپاٹائٹس کے ٹیسٹ کروانے کا اتفاق ہوا تو انہوں نے بہ طور خاص ڈاکٹر کا نام معلوم کرکے میرے پرسنل ڈیٹا میں لکھ لیا،،، میرا سوال یہ ہے کہ میری بلڈ رپورٹس کا ڈاکٹر کے ساتھ کیا تعلق بنتا ہے؟
صرف اور صرف کمیشن ،،،،،،،،،،،،،،،،
ترقی یافتہ ممالک میں اگر مریض کو ڈسپرین بھی دینی ہو تو ڈاکٹروں کا ایک بورڈ اسکا فیصلہ کرتا ہے جبکہ ہمارے ہاں خاص طور پر اینٹی بایوٹک ادویات آلو چھولوں کی طرح استعمال کروائی جاتی ہیں اور ایک مریض کو ایک وقت میں کوئی پاؤ بھر گولیاں اور کیپسول پھانکنا پڑتے ہیں۔ انجیکشن اور ڈرپس اسکے علاوہ ہیں،،، دو تین دن کے اندر مریض اور اسکے لواحقین کا بھرکس نکل جاتا ہے اور وہ بیچارے مقروض تک ہوجاتے ہیں،،،، اللہ ایسے شیاطان کے چیلے ڈاکٹروں سے بچائے،،، آمین
پاکستان پورے کا پورا صرف ظلم اور ناانصافی پر چل رہا ہے. بس
اللل ان لوگوں کو غارت کرے
اللہ ان لوگوں کو غارت کرے ، عارف سعید بخاری،راولپڈیArif saeed bukhari Rawalpindi
اللہ ڈاکٹروں کے شر سے بچائے ،آمین۔
اسی پوسٹ سے متاثر ہو کر میری لکھی گئی ایک تحریر
http://mansoorurdu.blogspot.com/2013/11/blog-post.html
kindly provideme the students contact number , i can help her to fight mental traumas and problems through REIKI www.facebook.com/reikiway plz
Its really a matter of shocked and its countless unconsciousness of the stupid and butcher doctors who slaughtered the innocent patient. May Allah save us from these rascals and black sheep's of the society.
اس معصوم دوشیزہ کو کے بارے پڑھ کے بہت دکھ ہوا!لیکن مجھے اس بات کا یقین ہے کہ اس ملک میں ایسے کیسز کا کچھ نہیں ہوتا۔ہمارا محکمہ صحت ڈاکٹر بھرتی کر کے انہیں کھلی چھوٹ دے دیتا ہے اس کی متعدد مثالیں زبان زد عام ہیں ۔خاص کر کے گورنمنٹ کے ٹیچنگ ہسپتالوں میں تو انسانوں کے ساتھ غیر انسانی رویہ اور ٹریٹ کیا جاتا ہے۔بعد پروفیسر حضرات کسی خاص بیماری یا کسی خاص آپریشن کی طالب علموں کو تربیت دینے کے لئے ایسے مریض کا انتظار نہیں کرتے جن کو وہ ہی بیماری لاحق ہو بلکہ کسی بھی مریض کو بطور سبجیکٹ استعمال کر لیا جاتا ہے ۔اس بارے میں فیصل آباد کا الائیڈ ہسپتال مشہور ہے جہاں پنجاب میڈیکل کالج کے طالب علموں کے کورس مکمل کرانے کی غرض سے اسپتال میں زیر علاج مریضوں کو غیر قانونی طور پر سبجیکٹ بنا لیا جاتا ہے اور اس بات کا علم ادارہ کی انتظامیہ اور محکمہ صحت کو بخوبی ہے۔
اللہ ان لوگوں کو غارت کرے
کوئی بتا سکتا ہے کہ اس معاملے میں کیا پیش رفت ہوئی اور مریم سجاد کی اب کیا صورت حال ہے؟؟