پیر، 11 نومبر، 2013

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

2 تبصرے
یہ اڑھائی سالہ نور فاطمہ ہے جو  دس نومبر کی  صبح اپنے والد کے ہمراہ موٹر سائیکل پر ناشتہ لینے نکلی اور قاتل ڈور نے ایک  جھٹکا سے اس کی زندگی کی ڈور کاٹ دی۔ ذرا تصور کیجئے وہ کتنا کرب ناک لمحہ ہو گا جب اس کا والد اس کی تن سے جدا گردن والی لاش اٹھائے  سڑک پر کھڑا ہو گا۔ سنا ہے پرانے وقتوں میں بادشاہ اپنی تفریح کے لئے زندہ انسانوں کو  ایک بڑے میدان میں بھوکے شیروں کے سامنے ڈال دیا کرتے تھے اور شیروں کی انسانی جسموں کی چھیڑ پاڑھ اور انسانی آہ و بکاہ سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے ۔ اب یہی ڈرامہ عصر حاضر کےحکمران کر رہے ہیں، سمجھ نہیں آتا یہ کونسی تفریح  ہے جس نے لوگوں کو گلے کاٹنے کی آزادی تک فراہم کر دی  ہے۔ کسی کی جان چلی جاتی ہے اور آپ اسے تفریح قرار دیتے ہیں۔پتنگ بازی کے باعث معصوم شہریوں کی ہلاکتوں کے باعث سپریم کورٹ کے احکامات پر حکومتیں پتنگ بازی پر مکمل پابندی عائد کر چکی ہیں۔ یہ پابندی گذشتہ حکومتوں کے ادوار سے چلی آ رہی ہے ۔ ’’بسنت‘‘  کو فیسٹیول کی شکل دی جا چکی ہے ۔ ثقافت کے نام پر سارا دن انڈین گانوں کے بلند آواز میں چھتوں لاؤڈ سپیکر لگا کر لوگوں کے گلے کاٹے جا رہے ہیں اور نام نہاد دانشور اسے قومی ورثہ قرار دے رہے ہیں۔  ہر سال درجنوں جانیں  اس تفریح کی نذر ہو جاتی ہیں  مگر پھر بھی معصوم شہریوں کیساتھ ہونیوالے اندوہناک حادثات کے باوجود مکمل طور پر ختم کیا جا  رہا۔  صوبائی انتظامیہ اور پولیس کی غفلت کے باعث پتنگ بازی کا خونخوار مشغلہ لاہور سمیت پنجاب کے تمام  شہروں میں بڑی تیزی سے بڑھتا پھلتا اور پھولتا جا رہا ہے۔ آئے دن اب پھر شہریوں کی ہلاکتوں کے دل ہلا دینے والے کربناک واقعات ایک تسلسل سے سُننے کو مل رہے ہیں لیکن انتظامیہ کی عدم توجہی اور پولیس کی فرائض سے تسلسل کیساتھ غفلت نے اب پتنگ بازی کے باعث ہلاکتوں میں ایک بار پھر اضافہ کر دیا ہے۔ لیکن حکومت خاموش تماشائی بنے بیٹھی ہے۔ خدا کیلئے اس رسم بد  سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لئے موثر قانون سازی کی جائے اوراس پر سختی سے عمل درآمد بھی کرایا جائے اور خلاف ورزی کرنیوالے کیخلاف سخت تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے تاکہ  اس قاتل ڈور سے کسی اور معصوم نور فاطمہ کی گردن کٹنے سے بچ سکے۔

2 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

.