پیر، 30 دسمبر، 2013

صدرممنون حسین کی تصاویرپرقومی خزانےسے15لاکھ روپےخرچ

6 تبصرے
خبر ہے صدر ممنون حسین کی تصاویر پر قومی خزانے سے 15 لاکھ روپے خرچ کردیے گئے ، آصف زرداری کی تصاویر بھی 9لاکھ روپے میں تیار ہوئی تھیں ،ہمارے ہاں پنجابی میں کہتے ہیں "پلے نہیں دھیلا تے کر دی میلہ میلہ " اور یہی حال ان حکمرانوں کا ہے،ایک طرف قوم کا بچہ بچہ قرضوں کے بوجھ تلے دب رہا ہے تو دوسری طرف ان کے شوق دیکھیں۔ زرعی ملک ہونے کے باوجو ہم آلو پیاز کے سستے حصول کے لیے ٹھوکریں کھا رہے ہیں ۔ پاکستان غریب ملک نہیں بلکہ ہر طرح کے معدنی وسائل سے مالا مال ملک ہے لیکن حکمرانوں نے کرپشن اور وسائل کی لوٹ کھسوٹ کی بدولت پاکستان کو ایک مقروض ملک اور اس کے عوام کو ذلیل و خوار کر کے رکھ دیاہے ۔پاکستانی حکمران اگر قوم سے مخلص ہیں تو بیرون ملک سابق حکمرانوں ، بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کی اربوں ڈالر ز کی رقوم واپس لانے کا اہتمام کریں تو ملک قرضوں سے بھی نجات 
حاصل کر سکتاہے اور آئی ایم ایف کے پھندے سے بھی گلو خلاصی ہوسکتی ہے۔ حکمران پٹرولیم مصنوعات ،بجلی اور گیس کی قیمتوں اضافہ اور نئے ٹیکس لگا کر اپنے شاہانہ اخرجات پورے کررہے ہیں۔ کرپشن ختم کرنے اور مہنگائی و بے روزگاری پر قابو پانے کی بجائے اپنی ساری توانائیاں آئی ایم ایف سے قرض کے حصول پر لگا رہے ہیں اورآئی ایم ایف حکمرانوں کو عوام کے جسم سے خون کا آخری قطرہ نچوڑ لینے کے احکامات دے رہا ہے، سابقہ اور موجودہ حکمرانوں ملک کو بدترین معاشی بحران کا شکار کر دیا ہے اور حکمران بھول رہے ہیں کہ معاشی بحران سیاسی بحرانوں میں بدلتے دیر نہیں لگتی ۔جب لوگوں کی امید یں محرومیوں میں بدلتی ہیں تو ان کے تیور بھی بدل جاتے ہیں ،زندہ باد کے نعرے لگانے والے مردہ باد کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔حکمران حالات پر جلد قابو پانے میں ناکام رہے تو لوگ مرنے مارنے پر تل جائیں گے ۔ انتخابات میں عوام نے تبدیلی ، انقلاب اور نیا پاکستان کے نعروں سے متاثر ہو کر جن توقعات کا اظہار کیا تھا وہ اب تیزی سے مایوسیوں میں تبدیل ہو رہی ہیں۔خوشنما نعروں اور بلند وبانگ دعوؤں پر ووٹ دینے والے بددل اور مایوس ہوکر حکومت کا ماتم کررہے ہیں۔زرداری ٹولہ اتنی بدنامی پانچ سال میں نہیں سمیٹ سکا جتنی موجودہ حکومت نے چھ ماہ میں سمیٹ لی ہے۔ جن لوگوں نے حکمرانوں کو جھولیا ں بھر بھر کر ووٹ دیے وہ ابھی انہیں جھولیاں اٹھا اٹھا کر بدعائیں دیتے نظر آتے ہیں ۔سنا ہے جب فرانس میں انقلاب آیا تھا تو لوگوں کا ایک بڑا ہجوم بادشاہ قت کے محل کے سامنے نعرے لگا رہاتھا ،شہزادی نے پوچھا لوگ کیوں چیخ رہے ہیں تو انہیں بتایا گیا کہ لوگوں کو روٹی نہیں مل رہی ۔کہنے لگیں روٹی نہیں مل رہی تو ڈبل روٹی کھا لیں، یہی حال موجودہ حکمرانوں کا ہے۔کاش انہیں کوئی سمجھا دے اگر عوام اٹھ کھڑے ہو گئے تو ان کو بھاگنے کا بھی موقع نہیں مل سکے گا۔

جمعہ، 13 دسمبر، 2013

عبد القادر ملا ۔۔۔۔!!! ہم شرمندہ ہیں !!!!

8 تبصرے
پاکستان سے محبت کی خاطر اپنی جان قربان کرنے والا 65 سالہ بوڑھا شخص آج پاکستا نیوں کی نظر میں اجنبی ہے ،نئی نسل سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی نوجوان اس کی صورت سےآشنا نہیں ہے، حیرانی تو یہ ہے خود پاکستانی میڈیا اسے جنگی جرائم میں مرتکب قرار دے کر پھانسی دیئے جانے کی خبریں نشر کر رہا ہے۔ وہ شخص جومیرے دین کی خاطر جو میرے وطن کیلئے جو میرے لئے، پھانسی کے پھندے پر جھول گیا. لیکن افسوس کہ پاکستان میں ہی گمنام ٹہرا۔ عبدالقادر کا قصور کیا تھا ، پاکستان سے محبت ، وہ پاکستان کی تقسیم کے مخالف تھا ،اس محب وطن پاکستانی کا خیال تھا کہ بھارت سے ساز باز کر کے پاکستان کو توڑنے کی سازش کرنے والے شیخ مجیب الرحمان کی اس سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور اس باہمت نوجوان نے پاکستانی فوج کا ہراول دستہ بن کر پاکستان ، نظریہ پاکستان اور اسلام کی حفاظت کا بیڑا اٹھایا۔ ملا عبدالقادر کو سزا دینے والی بنگلہ دیشی خاتون وزیر اعظم کا باپ شیخ مجیب الرحمان اپنے مشن میں کامیاب ہوگیا ، نوے ہزار پاکستانی فوجی بھارت کی قید میں چلے گئے ،ملا عبدالقادر جیسے ہزاروں لاکھوں نوجوانوں کو پاکستانی فوج کی مدد کرنے پر چن چن کر مارا گیا ،چوکوں مں پھانسیاں دی گئیں مگر ان کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی ، پھر ایک موقع آیا کہ بھپرے ہوئے بنگلہ دیشی عوام نے شیخ مجیب کو پاکستان توڑنے کی سزا دی ، حکومت کا تختہ الٹا گیا اور شیخ مجیب کو اس کے اپنے ہی فوجیوں نے قتل کردیا تب اس کی یہ بیٹی بیرون ملک تھی ،واپس آکر سیاست میں حصہ لیا تو بنگلہ دیش کی وزیر اعظم بن کر اپنے باپ کا انتقام لینا شروع کردیا ، جن لوگوں پر آج جنگی جرائم میں مقدمات چلائے جارہے ہیں وہ تو اب دو دو دفعہ پارلیمنٹ کے ممبران بھی رہ چکے ہیں۔خود شہیدعبدالقادر ملا بنگلہ د یش کے آئین کے تحت 2 دفعہ بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہو چکے ہیں کسی کو نہیں پتہ تھا کہ یہ غدار ہے ۔
ذرا سوچئے ! اس بنگالی مولانا کے لئے یہ مشکل تھا کہ وہ اپنی قوم کے ان نسل پرستوں سے معافی مانگ کر اپنا سر بچا لیتا... یہ تو آسان تھا .. مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔۔۔ اس نے ایک نظریہ پر جان دی... اس نے تسلیم کیا کہ میں نے ایک سب سے بڑی اسلامی ریاست کو بچانے کی جدوجہد کی ،میں نے ان لوگوں کا ساتھ دیا جو رنگ میں، نسل میں، زبان میں مجھ سے مختلف تھے ... مگرمیرے ہم مذہب تھے لیکن افسوس ہے تو پاکستانی حکومت پر جس نے اپنے اس محسن کے لئے ایک آواز بھی نہیں اٹھائی۔ وہ شہید ہوکر اپنے رب کے حضور جا پہنچا مگر ہم سب کو یہ سبق دے گیا کہ سر کو کٹا یا تو کیا جاتا ہے مگر باطل کے سامنے جھکایا نہیں جاتا۔
عبد القادر ملا ! آپ نے اپنے لئے جس راستے کا انتخاب کیا، وہ دنیاپرستوں کا راستہ نہیں ہے، وہ تو ابراہیم خلیل اللہ کا راستہ ہے جو آگ میں ڈالے گئے ، جو مسیحا ابن مریم کا راستہ ہے، وہ یحییٰ ابن ذکریا کا راستہ ہے جن کے سر کو دھڑ سے الگ کردیا گیا ، وہ خبیب ابن عدی کا راستہ ہے جنہں مکہ میں سولی پر لٹکادیا گیا تھا  
عبد القادر ملا صاحب۔۔۔۔!!! ہم شرمندہ ہیں !!!! بحثیت قوم آپ سے معافی چاہتے ہیں کہ آپ نے 1971 میں پاکستان کا ساتھ دے کر ملک کی یک جہتی اور سالمیت کے لئے جدوجہد کی اور اس سلسلے میں صعوبتیں اٹھائیں۔ 
یہ ایک ناقابل تلافی جرم ہے۔۔۔ اور اس کی پاداش میں آج آپ کو پھانسی دے دی گی۔ یقین مانیں ہم پاکستانی بہت شرمندہ ہیں ہم بحثیت قوم آپ سے اظہار ہمدردی کے دو بول بھی نہ بول پائیں گے اور نہ آپ کے حق میں آواز اٹھا سکیں گے۔

اللہ پاک آپ کی شہادت قبول فرمائے ،ہمیں آپ پر فخر ہے۔

بدھ، 11 دسمبر، 2013

الوداع ۔۔۔۔۔۔ فخر پاکستان ۔ قوم تجھے ہمیشہ یاد رکھے گی

0 تبصرے
پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ کا ایک سنہری باب آج گیارہ دسمبر 2013 کو بند ہو جائے گا لیکن آنے والی نسلیں اسے ہمیشہ یاد رکھیں گی۔ گیارہ، بارہ، تیرہ وہ تاریخ ہے جو،اب سو سال بعد ہی آئے گی،چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی اسی تاریخ ساز تاریخ کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہورہے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سپریم کورٹ کا جج بننے کے بعد سے 850سےزائد فیصلے تحریر کیے اور اپنے ان دلیرانہ اور جرات مندانہ فیصلوں سے پاکستان کی عدلیہ کو اتنا با وقار اور سربلند کر دیا ہے کہ آج شاہراہ دستورپر ایستادہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی سفید عمارت پاکستان کے مجبور اور پسے ہوئے مظلوم عوام کی امید بن چکی ہے۔انہوں نے خود کوآئین اور قانون سے بالاتر سمجھنے والوں کو قانون کے نیچے لانے کے لیے متعدد اہم فیصلے کیے اور سب کو عدالت کے سامنے جواب دہ کیا۔افتخار محمد چوہدری اپنے فیصلوں کی صورت میں جہاں دلوں پر حکمرانی کرتے رہے وہاں انہوں نے بدمست بیوروکریسی کو نکیل بھی ڈالی اور بدعنوان سیاستدانوں اور بیوروکریٹس پر اپنی گرفت مضبوط کی۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تاریخی فیصلے کئے اور این آر او کو کالعدم قرار دے دیا۔ ان کو اپنے راستے سے ہٹانے کیلئے ان کیخلاف کئی اسکینڈل بھی بنائے گئے۔ جعلی ڈگری اور دوہری شہریت کے حامل ارکان پارلیمنٹ کو نااہل قرار دیا اور لاپتہ افراد کی توانا آواز بنے رہے۔ انہوں نے با رہا ایسے فیصلے دئیے جو پارلیمنٹ کیلئے قانون سازی کا باعث بنے۔ بطور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنے فیصلوں کے ذریعے ایک نئی تاریخ رقم کرنا شروع کی تو توقعات پوری نہ ہونے پرکل تک شانہ بشانہ چلنے والے وکلاءآہستہ آہستہ دور ہونے لگے۔ تا ہم انہوں نے اپنے پرائے کی تمیز کئے بنا اپنا کام خوش اسلوبی سے جاری رکھا۔جسٹس افتخار محمد چوہدری کا بطور چیف جسٹس عہد ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ،جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بطور چیف جسٹس پاکستان اپنے فیصلوں سے یہ بنیاد رکھ دی ہے کہ کوئی آئین سے بالا تر نہیں ہے اور نہ کوئی قانون سے بڑا ہے۔

جسٹس افتخار محمد چوہدری آپ کو پاکستان کے بیس کروڑ لوگوں کا لواداعی سلام۔آپ ہمیشہ دلوں پر حکمرانی کرتے رہیں گے۔اللہ پاک آپ کی حفاظت فرمائے۔


اس تحریر کی تیاری میں چیف جسٹس صاحب کی ریٹائرمنٹ پر شائع ہونے والی خبروں سے مدد لی گئی ہے

جمعہ، 6 دسمبر، 2013

مائی جھوٹ بولتی ہے

6 تبصرے
ساٹھ سالہ رشیداں بی بی تین چار سال پہلے میرے پاس آئی تھی، اس کے ساتھ اس کا بیٹا اور بہو تھے، رشیدہ بی بی ساہیوال کے قصبے یوسف والا کی رہنے والی تھی، اس کے بیٹے نے گاؤں کے با اثر گھرانے کی لڑکی سے لو میرج کر لی تھی اور وہ جان کو خطرے کی وجہ سے لاہور میں کہیں پناہ لئے ہوئے تھے، رشیداں بی بی نے بتایا کہ اس کی بہو کے ورثاء اسے اٹھا کر لے گئے تھے اور اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا،انہوں نے اس کے بوڑھے خاوند پر بھی جھوٹا مقدمہ بنا کر ساہیوال جیل میں بند کرا رکھا تھا، یوسف والا میں اسکی جواں سال بیٹی جو بی اے کی طالبہ تھی جان اور عزت بچانے کے لئے اپنے ہی گھر کے ایک کمرے میں قیدی بن کر رہ رہی تھی، اس خاندان کی مدد کو گاؤں کا کوئی شخص سامنے نہیں آیا تھا، پولیس رشیدہ بی بی سے اجتماعی زیادتی کا پرچہ کاٹنے کی بجائے اسے خوفزدہ کر رہی تھی کہ وہ اپنے بیٹے اور بہو کو پیش کردے ورنہ اس کی طالبہ بیٹی کے ساتھ بھی وہی ہوگا جو اس کے ساتھ کیا گیا۔۔۔
رشیدہ بی بی اپنے اور اپنے خاندان کے ساتھ گزرنے والی کسی قیامت کو کسی ٹی وی چینل پر چلوانا چاہتی تھی نہ کسی اخبار میں چھپوانا،،،،، وہ انصاف چاہتی تھی۔۔ لیکن کوئی عدالت کوئی تھانہ اس کے لئے نہیں بنا تھا، روزانہ وقوع پذیر ہونے والےاس طرح کے سیکڑوں،ہزاروں واقعات تو تماشہ ہوتے ہیں ۔ جنہیں ہم بڑی دلچسپی سے دیکھتے اور سنتے ہیں۔۔
میں نے ساہیوال میں دی نیوز کے نمائندے علمدار حسین شاہ کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ رشیدہ بی بی کی مدد کرے، میں نے اس خاتون کی آئی جی سے ملاقات بھی کروائی، لیکن نتیجہ کوئی نہ نکلا، رشیدہ بی بی در بدر رہی
دو تین مہینے گزر گئے، رشیدہ بیگم آئی نہ اس کی کوئی کال،پھر جب وہ آئی تو اس حالت میں کہ اسے دیکھا نہیں جا سکتا تھا، اس کے چہرے پر تیزاب ڈال دیا گیا تھا، پولیس اس کامقدمہ بھی نہیں درج کر رہی تھی، ساہیوال پولیس کا کہنا تھا کہ مائی ڈرامے کر رہی ہے،اپنے اوپر تیزاب بھی اس نے خود اپنے اوپر ڈالا ہے
رشیدہ بی بی اپنی بپتا مجھے سنا رہی تھی کہ اسی دوران پنجاب اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر راجہ ریاض میرے کمرے میں آ گئے، میں نے رشیدہ بی بی سے کہا کہ اچھا ہوا کہ آپ کی موجودگی میں راجہ صاحب آ گئے، شاید یہ آپکی کوئی مدد کر سکیں۔۔ میں نے راجہ صاحب کے کرسی پر بیٹھتے سے پہلے ہی انہیں رشیدہ بی بی کی کہانی سنادی، انہوں نے اپنے سیکرٹری سے کہا۔۔۔ ڈی پی او ساہیوال کا نمبر ملاؤ۔۔۔۔۔ راجہ  صاحب نے ڈی پی او سے رشیدہ بی بی کی بابت پوچھا اور پانچ سیکنڈ میں ہی جواب سن کر موبائل سیکرٹری کو واپس کرتے ہوئے کہا
!
!
مائی جھوٹ بولتی ہے
اور پھراس واقعہ کے چند دن بعد ہی رشیدہ بی بی کے بیٹے کی کال آئی۔۔۔۔۔


ماں مر گئی ہے جی


اس تحریر کے راوی معروف صحافی اور دانشور خاور نعیم ہاشمی ہیں جو آج کل جیو نیوز نیٹ ورک سے منسلک ہیں

منگل، 3 دسمبر، 2013

پاکستانی خواتین کا بھارت میں کبڈی میچ

4 تبصرے
ٹی وی چینلز تیزی سے تبدیل کرتے ہوئے  انگلیاں یک دم رک سی گئیں ۔۔۔۔۔ یہ کیا ہے بھائی ، واہ پاکستانی خواتین کی کبڈی ٹیم بھارت میں میچ کھیل رہی ہے، ہیں ۔۔۔۔۔ واقعی آنکھوں کو یقین نہیں آ رہا تھا ۔ واہ جی کیا بات ہے ، سٹیڈیم میں بیٹھے ہزاروں ہندو اور سکھ تماشائی اس "سستی تفریح" سے لطف اندوز ہو رہے تھے،یا خدایا کیا یہ پاکستان کی بیٹیاں ہیں ۔ پاکستان کو ترقی کی دہلیز پر تیزی سے چلتا دیکھنے والے نام نہاد دانشور اور حکمران ظاہر ہے میری اس تحریر کو آزادی نسواں کے خلاف ایک بہت بڑا حملہ تصور کریں گے۔ کبھی  خواتین کی میراتھن کروا کے یہ لوگ اپنے ذوق کی تسکین اور اپنے آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کی ناکام کوشش کرتے نظر آتے ہیں اور کہیں ملالہ جیسے کرداروں کودنیا بھر میں متعارف کروا کے اپنے آپ کو لبرل ظاہر کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں  مگر  بعض دفعہ ان کی حرکات و سکنات خود ان کو شرمندہ کروا دیتی ہیں مگر اپنے آقاؤں کی خوشنودی  کے لئے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔مجھے آج بھی یاد ہے جب پرویزا لہیٰ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تو انہوں نے لاہور میں خواتین کی میراتھن ریس  منعقد کروانے کا اعلان  کروایا تو بہت سی سماجی اور مذہبی تنظیموں نے اس کے خلاف احتجاج کیا  تو چینلز نے اس پر ٹاک شوز کروائے ۔جیو پر حامد میر کے ٹاک شو میں  ملک کےممتاز  سیاستدان اور پرویز الہی کے بھائی چوہدری شجاعت حسین بڑے پرزور الفاظ میں پورے جوش سے اس کے حق میں دلائل دے رہے تھے تو ان کے سامنے بیٹھے ہوئے جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد نے صرف اتنا ہی کہا  کہ اگر یہ اتنا ہی اچھا کام ہے تو آپ بھی اپنی بہو بیٹیوں کو اس میں شامل کریں ناں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر  گھروں میں اپنی ٹی وی سکرینوں پر بیٹھے لاکھوں لوگوں نے چوہدری شجاعت حسین کو اپنے ماتھے سے پسینہ پونجھتے دیکھا تھا، سو میری رائے میں اگر پاکستان اور بھارت کی خواتین کا کبڈی کھینا ہی  دونوں ملکوں کے درمیاں تعلقات کو بہتر بنا سکتا ہے تو ضرور  اس ٹیم کا کیپٹن محترمہ مریم نواز  کو ہونا چاہیے اور سنیئر کھلاڑیوں میں بختاور بھٹو اور آصفہ بھٹو شامل ہوں تو کیا کہنے اور اگر واقعی ان صاحبان اقتدار کو میری یہ بات ناگوار گزرے تو ضرور احساس کیجیئے ،قوم کی بیٹیوں کو بھی اس بے ہودہ کھیل سے روکیئے،
یاد رکھیں اسلام خواتین کی تفریح کے خلاف نہیں ،اسلام خواتین کو تفریح کے بھر پور مواقع فراہم کرتا ہے ، لیکن کیا یہ کھیل دین اسلام کی بنیادی تعلیمات سے انحراف نہیں کر رہا ۔ دنیا بھر میں انسانی حقوق کا ڈھونڈرا پیٹنے والے اسلامی شعائر کا مذاق اڑا رہے ہیں ، مسلمانوں کو اپنے شعائر کی حفاظت کے لئے اٹھنا ہو گا پاکستان کے نظریاتی تشخص کو تباہ کرنے کے لیے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عریانی و فحاشی اور بے حیائی کو فروغ دےاجارہا ہے جس سے بے راہ روی پھیل رہی ہے اور نوجوان نسل گمراہی کے راستے پر گامزن ہے۔ کفر کی طاقتیں مسلمانوں کی تہذیب اور اسلامی شعائرختم کرنا چاہتی ہیں۔ملک میں مغربی اور ہندو وانہ کلچر کو فروغ دے کر ا س کی اسلامی شناخت ختم کرنے کی ناپاک سازشیں کامیاب نہیں ہونے دیں گے ۔ ہمارے بزرگوں نے لاکھوں جانوں کی قربانیاں دے کر پاکستان اس لیے حاصل نہیں کیا تھاکہ یہاں االلہ اور رسول کے احکامات کا مذاق اڑایا جائے ۔ مغربی اور صہیونی لابی کے فنڈز پر پلنے والی این جی اوز کو اسلام مخالف پراپیگنڈے کی کھلی چھٹی دے دی گئی ہے جو دن رات مختلف ٹی وی چینلز پر اسلامی احکامات کی من پسند تشریحات کر کے نوجوان نسل کو گمراہی کے راستے پر چلارہی ہیں  ۔ شیطانی تہذیب کو پنپنے کا موقع دینا خود کو تاریکیوں کے سپردکرنے کے مترادف ہے ۔


خدا کے لئے سوچیئے ،دوسروں کی اندھی تقلید میں اپنے گھروں کو آگ نہ لگائیں

مزید تصاویر محترم نجیب عالم کے فیس بک اکاؤنٹ  کے اس لنک سے ملاحظہ کی جا سکتی ہیں

بدھ، 27 نومبر، 2013

وکلاء گردی

4 تبصرے
اس تصویر  میں نظر آنے والا منظرپاکستان کے تیسرے بڑے شہر  فیصل آباد کے بار ایسوسی ایشن کے واش رومز کا ہے،  وکلاء کو پاکستان کا ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ تصور کیا جاتا ہے مگر اس تصویر نے میرے جیسے لاکھوں پاکستانیوں کے  سینے میں عجیب سے آگ لگا دی ہے کچھ بھی ہوا ہو کم از کم یہ تو نہیں ہونا چاہیے تھا،کل 26نومبر کو فیصل آباد سمیت پنجاب کے  پانچ ڈویژن کے وکلاء نے  فیصل آباد سمیت پانچوں ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز پر لاہور ہائی کورٹ کا بنچ نہ قائم ہونے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان کی پر شکوہ عمارت کے سامنے دھرنا دیا، یہ وہی عمارت ہے جس کی عظمت کو بحال کرنے کے لئے پاکستان بھر کے وکلاء نے ایک طویل جدوجہد کی اور جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی میں اپنا یادگار کردار ادا کیا ،یہ احتجاج تو رنگ لے آیا مگر پاکستان بھر کے  وکلاء خاص کر نوجوان وکلاء کو ایک نیا موڑ دے گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں وکلاء گردی کی اصطلاح سامنے آئی ، نوجوان وکلاء نے جب چاہا ،جہاں چاہا اور جسے چاہا اپنے جوتے کی نوک پر رکھ لیا۔کہیں معزز عدالتوں کے جج صاحبان ان کے ہتھے چڑھے اور ان پر جوتے برسائے، کہیں عدالتوں میں پیشی پر پولیس افسران ،کہیں عدالتی اہلکار اور کہیں بد نصیب سائلین وکلاء گردی کا شکار ہوئے مگر کل انہی قانون کے رکھوالوں اور محافظوں میں پاکستان میں قانون کی سب سے بڑی علامت سپریم کورٹ آف پاکستان پر دھاوا بول کر لگتا ہے اب اپنے تابوت میں آپ  ہی آخری کیل ٹھونک لی ہے۔ سپریم کورٹ پر دھاوے کے دوران ان اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد نے جو کچھ کیا  شائد  وہ کبھی ضبط تحریر نہ لایا جا سکے۔احتجاج ہر پاکستانی کا جمہوری حق ہے اور اس پر کوئی پابندی بھی نہیں ہونی چاہیے مگر ایک عام آدمی اور ایک وکیل کے احتجاج میں کوئی تو فرق ہونا چاہیے۔فیصل آباد میں ہائی کورٹ کے بنچ کے قیام کا مطالبہ صرف وکلاء کا نہیں بلکہ یہ ڈویژن بھر کے ڈیڑھ کروڑ عوام کا مطالبہ ہے اور فیصل آباد کے سیاسی، سماجی،صحافتی حلقے ،سول سوسائٹی اور سوشل میڈیا پر ایکٹو میرے جیسے لوگ ہمیشہ اس مطالبہ کی تائید کرتے رہے ہیں اور ہر احتجاج میں وکلاء کے شانہ بشانہ شریک رہے ہیں مگر کل کے واقعات کے بعد آج فیصل آباد کے بار رومز کے واش رومز کے باہر لکھا جانے والے  ان الفاظ نے مجھ سمیت فیصل آباد کے ہر شہری کو دکھی کر دیا ہے۔ کیا یہ مہذب معاشروں کا طریقہ ہے ، معاشرے کے سب سے باشعور طبقہ کا یہ اقدام کیا کبھی کہیں بھی سراہا جائے گا ،

جمعرات، 14 نومبر، 2013

جی ہاں جماعت اسلامی واقعی غدار ہے

3 تبصرے

یہ ستر کی دہائی کے اوائل کی بات ہے ، اگر چہ اس وقت اتنا شعور نہیں تھا ، سکول کی ابتدائی جماعتوں میں زیر تعلیم تھے مگر سقوط ڈھاکہ اورانتخابات  ذہن کے نقشہ پر کسی حد تک محفوظ ہیں۔ ان انتخابات کی سب سے دلچسپ یادوں میں  پیپلز پارٹی کے قائدبھٹو کے حق میں اور  جماعت اسلامی کے امیر سید مودودی کی مخالفت میں گلیوں ،بازاروں اور تھڑوں پر ہونے والی نعرہ بازی اور  بحث و مباحث  شامل ہے۔ سب سے زیادہ زور  جماعت اسلامی کو پاکستان کے قیام کے مخالف ہونے پر لگایا جاتا تھا ۔ میں اکثر اپنے بڑوں سے پوچھتا کہ ابھی ساری قوم کہہ رہی تھی کہ مشرقی پاکستان میں جماعت اسلامی کے سینکڑوں کارکنوں نے پاک فوج کے شانہ بشانہ اپنی جانیں قربان کرکے  پاکستان کو متحد رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا  ہے تو پھر  یہ لوگ پاکستان کے قیام کے کیسے مخالف ہوگئے۔ ذرا کچھ بڑے ہوئے تو سکول میں پڑھائی جانے والی معاشرتی علوم میں قیام پاکستان سے پہلے اور بعد کے واقعات موجود ہوتے تھے مگر سب کچھ موجود ہونے کے باوجود کہیں یہ پڑھنے کو نہ ملا کہ یہ لوگ قیام پاکستان کے مخالف ہیں۔ کالج دور اور پھر مسلسل سیاسی ،سماجی اور صحافتی زندگی بہت کچھ پڑھنے اور سننے کو ملا۔ پاکستان کی تاریخ کے ہر نازک دور میں جماعت اسلامی کے کارکن  سب سے آگے نظر آئے مگر قوم ان کی کیوں مخالف ہے  مجھے سمجھ نہیں آ سکا۔ ایک بات ضرور نظر آئی جماعت اسلامی کے لوگ ہر مصیبت میں فوج کے شانہ بشانہ نظر آئے۔افغان وار اور کشمیر میں بھی ان لوگوں کا ایک منفرد کردار قوم کے سامنے آیا ۔ میرے لئے وہ حیران کن لمحہ تھا اس وقت کے امیر جماعت اسلامی  میاں طفیل محمد کا بیٹا خود افغان جنگ میں شہید ہوا۔ تاریخ کے ایک معمولی طالب علم کے طور پر جب میں جماعت اسلامی کی تاریخ پر نظر ڈالتا ہوں تو  جماعت کی فوج سے دوری کا آغاز پرویز مشرف کے دور میں شروع ہوا تو ایسا لگا کہ ہمیشہ سے فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے والی جماعت اسلامی اور فوج میں دوریاں پیدا ہو رہی ہیں جس کی وجہ جماعت اسلامی کا مضبوط موقف ہے تو احساس ہوا کہ  جماعت اسلامی کو فوج کی بی ٹیم کہنے والے اس کے کردار سے واقف نہیں ۔ جب جماعت اسلامی نے فوج کی حمائت کی اس وقت بھی پاکستان کی بقاء اولین ترجیح تھی اور جب دوریوں کا آغاز ہوا تو  اس وقت بھی جماعت کی ترجیح پاکستان کی بقا ء ہی تھی۔ابھی چند دن پہلے  جماعت اسلامی کے موجودہ امیر سید منور حسن پر  ایک ایسے بیان پر   ہر طرف سے تنقید اور تبریٰ شروع ہوئی تو مجھے  بچپن کے وہ تمام نعرے یاد آگئے جو اس وقت جماعت اسلامی اور اس کے سید پر لگائے جاتے تھے، آج پھر سید زادہ ہی ایک بار پھر ان نعروں کی زد پر آ گیا مگر میری حیرت کی انتہا نہیں رہی  جب میں نے موازنہ کیا تو یہ سارے وہی لوگ ہیں جو اس وقت تھے ،پیپلز پارٹی ،اے این پی، مخصوص طبقات کے علمائے کرام اور نام نہاد دانشور ۔اب صرف اضافہ ایم کیوایم کا ہوا ہے لیکن نظریات ان لوگوں کے جیسے ہی ہیں۔
میں ایک عام آدمی سوچنے پر مجبور ہوں کہ جماعت اسلامی  پر پابندی لگانے اور اسے ملک دشمن قرار دینے کا مطالبہ کون کررہا ہے۔ پیپلز پارٹی ۔۔۔۔۔۔۔ جس نے پاکستان میں الذوالفقار بنا کر دہشت گردی کی بنیاد رکھی اور فوج کے خلاف اشتہار تک چھپوائے، اے این پی ۔۔۔۔۔۔۔ جسے ملکی قانون کے تحت ملک دشمن قرار دے کر پابندی لگائی گئ، مخصوص علمائے کرام جن کا کام صرف ہر حکمرانوں کی تحسین ہی کر نا ہوتی ہے،ایم کیو ایم ۔۔۔۔۔۔۔ جس کے لیڈر آرمی آفیشلز کے قتل میں ملوث رہے ہیں۔ میری رائے میں تو یہ ساری  بحث اس اصل ایشو سے توجہ ہٹانے کے لئے شروع کی گئی جس کی آج قوم کو ضرورت ہے اور جس کی وجہ سے آج ہم مصائب اور مشکلات کا شکار ہیں ، پچاس ہزار بے گناہوں کی قربانی دے کر بھی ہم ہی ملزم  
مجرم ہیں ۔ وہ ہے ایک پرائی جنگ جو  ہمارے حکمرانوں نے ہمارے سر ڈال دی ہے۔

روزنامہ دنیا کی 14 نومبر 2013 کی اشاعت میں سید منور حسن کے انٹرویو  کا قتباس پڑہیے اور خود فیصلہ کیجیئے کیا جماعت اسلامی واقعی غدار ، ملک دشمن اور فوج مخالف ہے
" انہوں نے ایک سوال پرکہا کہ میرے جن الفاظ کو بنیاد بنا کر جماعت اسلامی اور مجھے ٹارگٹ کیا گیا ان الفاظ اور میری جانب سے اٹھائے جانے والے سوال کو سننے کی زحمت بھی نہیں کی گئی جس میں میں نے مفتیان اور علماء کرام سے امریکہ کا ساتھ دینے والوں کے متعلق رائے طلب کی تھی۔ البتہ اس رجحان سے ہم محظوظ ضرور ہوئے ہیں کہ جو کل تک بیرونی ایجنڈا پر ہماری مسلح افواج کو ٹارگٹ کرتے اور کوستے نہیں تھکتے تھے وہ بھی ہمارے خلاف فوج کی ہمنوائی کرتے نظر آئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کی اپنی ایک تاریخ ہے ہم نے تو کل مشرقی پاکستان میں بھی مضبوط پاکستان کیلئے اپنی فوج کا ساتھ دیا تھا اور آج بھی ہمارا عزم ہے کہ ملکی استحکام اورقومی مفادات کے تحفظ کیلئے حکومت اور قومی اداروں کے ساتھ کھڑے ہونگے لیکن وہ لوگ جنہوں نے ایک بے بنیاد بات کو جواز بنا کر ہمیں ٹارگٹ کیا آنے والے حالات اور معاملات میں وہ کب تک فوج کی مدح سرائی کریں گے اس پر نظرر کھنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاک فوج کو روگ آرمی قرار دینے ’ فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے اور اس کے کردار پر انگلیاں اٹھانے والے کیا اب راہ راست پر آگئے اب کب تک اس رائے پر قائم رہیں گے ’ یہ دیکھنا ہوگا۔"

پیر، 11 نومبر، 2013

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

2 تبصرے
یہ اڑھائی سالہ نور فاطمہ ہے جو  دس نومبر کی  صبح اپنے والد کے ہمراہ موٹر سائیکل پر ناشتہ لینے نکلی اور قاتل ڈور نے ایک  جھٹکا سے اس کی زندگی کی ڈور کاٹ دی۔ ذرا تصور کیجئے وہ کتنا کرب ناک لمحہ ہو گا جب اس کا والد اس کی تن سے جدا گردن والی لاش اٹھائے  سڑک پر کھڑا ہو گا۔ سنا ہے پرانے وقتوں میں بادشاہ اپنی تفریح کے لئے زندہ انسانوں کو  ایک بڑے میدان میں بھوکے شیروں کے سامنے ڈال دیا کرتے تھے اور شیروں کی انسانی جسموں کی چھیڑ پاڑھ اور انسانی آہ و بکاہ سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے ۔ اب یہی ڈرامہ عصر حاضر کےحکمران کر رہے ہیں، سمجھ نہیں آتا یہ کونسی تفریح  ہے جس نے لوگوں کو گلے کاٹنے کی آزادی تک فراہم کر دی  ہے۔ کسی کی جان چلی جاتی ہے اور آپ اسے تفریح قرار دیتے ہیں۔پتنگ بازی کے باعث معصوم شہریوں کی ہلاکتوں کے باعث سپریم کورٹ کے احکامات پر حکومتیں پتنگ بازی پر مکمل پابندی عائد کر چکی ہیں۔ یہ پابندی گذشتہ حکومتوں کے ادوار سے چلی آ رہی ہے ۔ ’’بسنت‘‘  کو فیسٹیول کی شکل دی جا چکی ہے ۔ ثقافت کے نام پر سارا دن انڈین گانوں کے بلند آواز میں چھتوں لاؤڈ سپیکر لگا کر لوگوں کے گلے کاٹے جا رہے ہیں اور نام نہاد دانشور اسے قومی ورثہ قرار دے رہے ہیں۔  ہر سال درجنوں جانیں  اس تفریح کی نذر ہو جاتی ہیں  مگر پھر بھی معصوم شہریوں کیساتھ ہونیوالے اندوہناک حادثات کے باوجود مکمل طور پر ختم کیا جا  رہا۔  صوبائی انتظامیہ اور پولیس کی غفلت کے باعث پتنگ بازی کا خونخوار مشغلہ لاہور سمیت پنجاب کے تمام  شہروں میں بڑی تیزی سے بڑھتا پھلتا اور پھولتا جا رہا ہے۔ آئے دن اب پھر شہریوں کی ہلاکتوں کے دل ہلا دینے والے کربناک واقعات ایک تسلسل سے سُننے کو مل رہے ہیں لیکن انتظامیہ کی عدم توجہی اور پولیس کی فرائض سے تسلسل کیساتھ غفلت نے اب پتنگ بازی کے باعث ہلاکتوں میں ایک بار پھر اضافہ کر دیا ہے۔ لیکن حکومت خاموش تماشائی بنے بیٹھی ہے۔ خدا کیلئے اس رسم بد  سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لئے موثر قانون سازی کی جائے اوراس پر سختی سے عمل درآمد بھی کرایا جائے اور خلاف ورزی کرنیوالے کیخلاف سخت تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے تاکہ  اس قاتل ڈور سے کسی اور معصوم نور فاطمہ کی گردن کٹنے سے بچ سکے۔

پیر، 4 نومبر، 2013

مٹ جائے گی مخلوق تو کیا انصاف کرو گے

15 تبصرے
یہ معصوم سی بچی زرعی یونیورسٹی فیصل آباد  میں بی ایس سی پلانٹ بریڈنگ اینڈ جنیڈر نگ انجینئر نگ میں تیسرے سال اور پانچویں سمسٹر کی طالبہ اور وزیر اعلی پنجاب کی سکیم کے تحت لیپ ٹاپ ہولڈر مریم سجاد ہے جوالائیڈ ہسپتال  فیصل آباد کے ایک سنیئر ڈاکٹر کے غلط آپریشن کی وجہ سے زندگی بھر کے لئے معذور ہو کرایک سال سے بستر پر پڑی انصاف کی منتظر ہے ، جڑانوالہ روڈ پر ڈھڈی والا کے قریب بخاری ٹان خواجہ سٹریٹ کے رہائشی انجینئر سجاد انور کی  بیٹی مریم سجاد جسے کلاس میں لائق اور یونیورسٹی کی ہونہار طالبہ اور سمسٹر میں92%نمبر ز حاصل کرنے پر وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے تحفے کے طور پر لیپ ٹاپ اور سکالر شپ سے بھی نواز ا تھا ، مریم سجاد کو گزشتہ سال کے آخر میں دائیں بازو میں درد محسوس ہوا تو ان کے والد اور والدہ 11دسمبر2012ءکو میڈیکل چیک اپ کےلئے الائیڈ ہسپتال لے گئے ، جہاں پرچی بنوانے کے دوران کی ٹرینی ڈاکٹر محمد طیب انہیں بہتر چیک اپ کے لئے اپنے ساتھ ہیڈ آف آرتھو پیڈک ڈاکٹر رسول احمد چوہدری کے پاس لے گیا جہاں ڈاکٹر رسول احمد چوہدری نے مریم کی والدہ کو ڈراتے ہوئے بتایا کہ اگر فوری طور پر آپریشن نہ کیا گیا تو اس کے ہاتھ کام کرنا چھوڑ جائیں گے اور شریانوں میں خون کی گردش رک جائے گی ، چنانچہ فوری طور پر مجھے سے آپریشن کروائےں ، یہ کہتے ہوئے موصوف ڈاکٹر نے داخلے کی پرچی اور چارٹ تک بنا دیا لیکن مریم اوران کے والدین مطمئن نہ ہوئے اور مریم کے والد انجینئر سجاد انور نے اپنے بھائی ڈاکٹر شہزاد انور سے مشورہ کرتے ہوئے باہر کسی سپشلسٹ کو دکھا نے کا کہا ، لیکن ڈاکٹر رسول چوہدری نے اصرار کیا کہ میں عرصہ30سال سے آپریشن کر رہا ہو میں سب جانتا ہوں بس آپ یہ آپریشن کروالیں ورنہ مرض بڑھ جائے گا ، جبکہ حقیقت یہ تھی کہ ڈاکٹر رسول چوہدری بنیادی طور پر آرتھو پیڈک سرجن ہیں اور ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ بھی ہیں ان کا تجربہ آرتھو پیڈک سرجری میں ہی ہے ، انہوں نے کبھی مہرے یا پنڈلی کا آپریشن کیا ہی نہیں تھا ، ڈاکٹر رسول چوہدری نے تجربہ حاصل کرنے کے لئے ایک معصوم طالبہ کو بھینٹ چڑھا نے کا عہد کر لیا اور نا تجربہ کار ہونے کے باوجود 17دسمبر 2012ءکو الائیڈ ہسپتال کے پرائیویٹ وارڈ میں مریم سجاد کا آپریشن کر دیا ، آپریشن کی بنیادی معلومات نہ ہونے کے باعث ڈاکٹر رسول چوہدری نے مریم کی اضافی بڑھی ہوئی پسلی کا آپریشن کرنے کی بجائے ریڈ ھ کی ہڈی کا آپریشن کر ڈالا اور مہروں کو اضافی پسلی سمجھتے ہوئے اندھوں کی طرح کاٹنا شروع کر دیا اور آپریشن مکمل کر تے ہوئے وارڈ میں شفٹ کر دیا ۔ اگلے روز صبح مریم سجاد کو ہوش آیا تو پتا لگا کہ مریضہ کا ہاتھ اور اوپر والا دھڑ حرکت میں ہے جبکہ پیٹ سے پاں تک نیچے کا تمام دھڑ رک گیا ہے ، جس کا مریضہ کو علم ہی نہیں ہے کہ وہ حصہ اس کے جسم کے ساتھ بھی ہے کہ نہیں ، اس بات کا علم ہسپتال انتظامیہ کو ہونے پر ہسپتال میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تو مریضہ کے والد نے اس کی MRIرپورٹ کروائی جس میں انکشاف ہوا کہ موصوف ڈاکٹر غلام رسول چوہدری نے مریم سجاد کے دونوں مہروں کو اضافی پسلی سمجھتے ہوئے ایک مہرے کا 1/3اور دوسرے مہرے کا 2/3حصہ کاٹ کر نکال دیا ہے ریڑھ کی ہڈی میں بھی کٹ لگا دیئے جس کی وجہ سے ہونہار طالبہ مریم سجاد زندگی بھر کے لئے اپاہیج ہو گئی اور ہسپتال انتظامیہ نے معاملے کو دبانے کی کوشش کرتے ہوئے انہیں ” گھر کی “ ہسپتال لاہور میں علاج کروانے کا کہہ کر اپنی جان چھڑوا لی ، لڑکی کے لواحقین بیٹی کی زندگی میں پھر خوشیاں دیکھنے کی آس لئے ” گھر کی “ ہسپتال لاہور لے گئے جہاں 17دن زیر علاج رہی دوران علاج سانس اکھڑ جانے کی وجہ سے ہسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ ICUمیں رکھا گیا اور آپریشن بھی کیا گیا جس کے بعد وہ اپنے گھر فیصل آباد منتقل ہو گئی ، دوسری طرف مریم کے والد انجینئر سجاد نے 26دسمبر کو ڈاکٹر رسول احمد چوہدری کے خلاف وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو درخواست دے دی اور پرنسل پنجاب میڈیکل کالج والائیڈ ہسپتال ڈاکٹر زاہد یٰسین ہاشمی کو درخواست دے دی ، وزیر اعلیٰ نے فوری نوٹس لیتے ہوئے انکوائری بورڈ تشکیل دے دیا جس نے وزیر اعلیٰ کو 31دسمبر 2012ءکو رپورٹ ارسال کی جس میں ملزم ڈاکٹر رسول چوہدری نے اپنے جرم کا اقرار کرتے ہوئے قبول کیا کہ اس سے غلطی سر زد ہوئی ، اس غلطی کی وجہ آپریشن کے لئے ناکافی سہولیات تھیں ، وزیر اعلیٰ پنجاب نے معاملہ پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کے سپرد کر کے غیر جانب دار انکوائری کاحکم دیا تو پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن نے 7فروری 2013ءکو ڈاکٹر رسول چوہدری اور مریضہ مریم کے والد سجاد انور کو لاہور طلب کر کے بیانات سنتے اور انکوائری رپورٹ مکمل کرنے کے لئے 3ماہ کا وقت دے دیا ، انصاف کی امید لے کر لاہور جانے والا مریضہ کا والد انجینئر سجاد انور 3ماہ کا وقت لے کر واپس آگیا لیکن پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن انتظامیہ کے ساتھ با اثر ملزم ڈاکٹر رسول چوہدری نے ساز باز کر کے معاملے کو دبانے کا پروگرام بنا یا اور 12دسمبر 2013ءکو اپنی ہونے والی ریٹائر منٹ تک معاملے کو لٹکا نے لگی منصوبہ بندی کر لی اسی بناءپر آج اس نام نہاد کیئر کمیشن کی کمیٹی کو تین ماہ کا ٹائم لیے بھی دس ماہ گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک ڈاکٹر رسول کے خلاف انکوائری رپورٹ مرتب نہ ہو سکی ہے اور اس کے ریٹائرڈ ہونے میں بھی صرف ایک ماہ کا عرصہ رہ گیا ہے جبکہ دوسری طرف ایک سال سے بستر پر پڑی ہوئی مریم سجاد جس کا تمام تعلیمی کیئر یئر تباہ ہوگیا ہے اس کی فزیو تھراپی سمیت دیگر اخراجات پر 1ہزار روپے روزانہ کے اخراجات آرہے ہیں اور اب تک تقریباً 15لاکھ سے زائد کا خرچہ اس پر آگیا ہے ، لیکن پنجاب حکومت اور ضلعی انتظامیہ کے اعلیٰ افسران کے تمام تر وعدوں کے باوجود آج تک متاثرہ گھر انے کو ایک روپیہ تک امداد نہ دی گئی ہے ، ڈاکٹر رسول احمد چوہدری کی حیوانیت کی بھینٹ چڑھنے والی متاثرہ بی ایس سی انجینئر نگ کی طالبہ مریم سجاد نے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری ، وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف، وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے مطالبہ کیا ہے کہ ملزم ڈاکٹر رسول چوہدری کے ساتھ ملی بھگت کرنے والے پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کے افسران کا کڑا احتساب کرتے ہوئے فوری طور پر واقع کی انکوائری رپورٹ بنوائی جائے ،غلط آپریشن کرنے والے ملزم ڈاکٹر رسول احمد چوہدری کو ریٹائرڈ ہونے سے پہلے اس کا ڈاکٹر یٹ کا لائسنس تا حیات منسوخ کر کے کڑی سے کڑی قرار واقعی سزا دیتے ہوئے پابند سلاسل کیا جائے تا کہ کوئی اور مریضہ اس کی بھینٹ چڑھ کر مریم سجاد بننے سے بچ سکے ، مریم سجاد نے خادم اعلی پنجاب  سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ اس کا تعلیمی کیئر یئر تباہ و برباد ہو گیا ہے زرعی یونیورسٹی انتظامیہ کے ذریعے اس کی تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کر وایا جائے اور اس کے اب تک کے علاج پر آنے والے تمام اخراجات اور آئندہ کے علاج کا تمام خرچ ادا کرتے ہوئے تعلیمی اخراجات بھی اٹھائیں ۔

جمعہ، 25 اکتوبر، 2013

عامل بابے

4 تبصرے

اگر آپ کوقومی اخبارات کے سنڈے ایڈیشن دیکھنے کا اتفاق ہو تو بعض اوقات آدھے سے زائد صفحات    خود ساختہ اور نام نہاد عاملوں اور  نجومیوں کے اشتہارات سے بھرے ہوتے ہیں جہاں انہوں نے بڑے عجیب و غریب  نام رکھے ہوتے ہیں اور اگر ان کے دعوؤں کا مطالعہ کریں تو بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ اگر سب کچھ کر نا ان کے ہی بائیں ہاتھ کا کھیل ہے تو   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  جی جناب اپنا ایمان  داؤ پر لگتا محسوس ہوتا ہے،مثلاً ایک  سو سالہ سنیاسی با با جی کہتے ہیں ، رشتوں کی بندش ، رزق کا حصول ، پرائز بانڈ کے نمبر ، شادی میں رکاوٹ  ، محبو ب آپ کے قدموں میں، بیرون ملک ملازمت، بیٹیاں ہی کیوں صرف بیٹوں کا حصول ، ساس  بہو کا جھگڑا، شوہر  قدموں میں  اور کیا کیا کچھ نہیں ۔ اب ایک نیا رواج دیکھنے میں آرہا ہے کہ عیسائی عاملوں کے اشتہارات بھی آ رہے ہیں مگر ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ اصلی عیسائی  عامل کو پہلے چیک کر لیں ، اندرون سندھ سے اب ہندو عاملین  کے بھی اشتہارات آ رہے ہیں ۔اور تو اور اب خواتین عاملین بھی سامنے آ رہی ہیں  اور ان کے بڑے بڑے اشتہاراے اخبارات میں شائع ہو رہے ہیں۔ یہ ٹھگ اور فراڈئیے اپنی روزی روٹی کے لئے لوگوں کو دین سے دور کر رہے ہیں، جو اپنی زندگی کے بارے میں نہیں جانتے وہ لوگوں کی زندگیوں کے بارے میں ضمانت دے رہے ہیں اور جو خود لوٹ مار کر کے اور جھوٹ بول کر کمائی کر رہے ہیں دوسروں کے رزق کی بندش  ختم کرنے کے دعوے کر رہے ہیں جس کا وعدہ اللہ کریم نے قرآن پاک میں نوے سے زائد جگہ کیا ہے ۔قرآن کریم میں اللہ جل شانہ ارشاد فرماتے ہیں"اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈالے تو خود اس کے سوا کوئی نہیں جو اس مصیبت کو ٹال دے، اور اگر وہ تیرے حق میں کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو پھیرنے والا بھی کوئی نہیں ہے وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے اور وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے“ (سورة یونس107)
اخبارات سے وابستہ احباب جانتے ہیں کہ ان ہفتہ وار اشتہارات کی قیمت کروڑوں روپے بنتی ہے اس کا مطلب ہے کہ ان لوگوں کی اتنی کمائی  ہے کہ یہ  لوگ اخبارات میں اشتہار دے رہے ہیں۔ حکومت کی عدم توجہی کے باعث ان عاملوں کی تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے اور یہ عامل ان پڑھ اور بے وقوف لوگوں خصوصاً خواتین کو بھاری معاوضوں کے عوض دھڑا دھڑ لوٹ رہے ہیں۔ پاکستان کے اکثر شہروں میں ان کے ٹھکانے ہیں، جنہیں آستانوں کا نام دیا جاتا ہے جو بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ کمزور ایمان رکھنے والے مردوں اور عورتوں کو لوٹ رہے ہیں۔بے شمار خواتین اپنےشوہروں کو راہِ راست پر لانے کے لیے آستانوں پر حاضری دیتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ دکھ ان نوجوان خواتین کی کم عقلی پر ہوتا ہے جو اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے نہ صرف عاملوں کو منہ بولی قیمتیں دیتی ہیں بلکہ اپنی عزتیں تک ان عامل بھیڑیوں کی ہوس کی بھینٹ چڑھا دیتی ہیں۔  پاکستان کے کسی شہر کا کوئی علاقہ نہیں جہاں ان  عاملوں کا قیام نہ ہو۔ان عاملوں اور پیروں کے پاس دینی علم تو ہوتا نہیں مگر سچ یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی علم نہیں ہوتا محض چرب زبانی کے بل بوتے پر اور کم علم لوگوں کو ڈرا دھمکا کر اپنے پیچھے لگا لیتے ہیں۔
 یہ  فراڈیئےکالے جادو اور سفلی عمل میں استعمال کرنے کے لئےگوگل،ماش کی ڈال،انڈے،سپاری،ناریل،زعفران،دھتورا، مور کے پر، کیز کے پھول، شہد،آک کا پودہ، کوے کے سیدھے بازو کا پر، گیدڑ کی آنکھ اور دم، الو کی بیٹ ، انسانی ناخن، جانوروں اور انسانوں کے جسم کی مختلف ہڈیاں، سیندور،لونگ، سوئییاں، ہینگ، کسی خوبصورت عورت کے بال جو تازہ تازہ مری ہو اور انسانی کھوپڑی وغیرہ منگواتے ہیں  جس سے آدمی پر ان کے رعب اور علم  کا دبدبہ بڑھتا ہے۔.
اب یہ لوگ اخبارات سے آگے نکل کر سوشل میڈیا پر آگئے  ہیں ، ہر کسی کا فیس بک اکاؤنٹ ہے اور لوگ دھڑا دھڑ لائک کر ہیں اور ان کی گاہکی میں اضافہ ہو رہا ہے، اگر حکومت نے اس طرف توجہ نہ کی تو  یہ لوگ پوری قوم کو لوٹ کر کھا جائیں گے۔

اتوار، 6 اکتوبر، 2013

اسلام ، برطانیہ میں تیزی سے پھیلتا ہوا مذہب

3 تبصرے


مغربی ممالک میں غیر مسلموں کے اسلام قبول کرنے میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ برطانیہ میں ایک لاکھ افراد اسلام قبول کر چکے ہیں جبکہ سالانہ 5200برطانوی حلقہ  اسلام میں داخل ہورہے ہیں۔ برطانوی جریدہ اکانومسٹ  نے کتنے افراد اسلام قبول کر چکے کے عنوان سے ایک سوال اٹھایا ہے، جریدہ لکھتا ہے کہ اسلام قبول کرنے والوں میں زیادہ تر ان لوگوں کی اکثریت ہے جو کئی برسوں سے مسلمانوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ برطانیہ میں خواتین کی دو تہائی اکثریت نے اس لئے اسلام قبول کیا کہ وہ کسی مسلمان سے شادی کرنا چاہتی تھیں دیگر لوگ اس لئے اسلام کی طرف مائل ہو رہے ہیں کہ وہ برطانوی معاشرے میں پھیلی بے راہ روی اور فحاشی سے تنگ آ چکے ہیں جبکہ بہت سے کمیونٹی کے احساس کے حصول کی بات کرتے ہیں۔ایک ریسرچ کے مطابق امریکی مسلمانوں میں سے ایک چوتھائی نو مسلم ہیں۔ کچھ عرصہ قبل برطانوی میگزین  نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ نائن الیون کے بعد2001  سے 2011   کے درمیان ایک لاکھ برطانوی شہری حلقہ اسلام میں داخل ہوئے۔ اس سے قبل ایک اور جریدے کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ نائن الیون کے بعد امریکا میں سالانہ 30ہزار افراد اسلام قبول کر رہے ہیں، جبکہ اسلام قبول کرنے والے برطانوی شہریوں میں75فیصد خواتین ہیں۔ 
( برطانوی جرائد سے اخذ کردہ ایک تحقیقاتی رپورٹ)

پیر، 2 ستمبر، 2013

ایک باپ کا اپنی شہید بیٹی کے نام خط

6 تبصرے
 ڈاکٹر بلتا جی مصر کے ان منتخب رہنماؤں میں سے ایک ہیں جنہیں عوام کا اعتماد حاصل ہے۔مصر میں  جاری تحریک میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ڈاکٹر محمد بلتا جی کی سترہ سالہ معصوم بیٹی اور میڈیکل کی طالبہ عاصمہ ال بلتا جی بھی شہید ہو گئیں۔ اپنی بیٹی کی شہادت کے بعد ڈاکٹر محمد بلتا جی نے اسے ایک خط لکھا ہے،  جو ایک باپ کا اپنی سے محبت کا اظہار  تو ہے مگر اس عظیم  بیٹی کے باپ کا اپنی تحریک  اور مقصد سے بے پنا لگاؤ کا آئینہ دار بھی ہے۔ یہ وہ خط ہے جسے لاکھوں کے مجمع میں پڑھتے ہوئے ترکی کے صدر جناب طیب اردگان  بھی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور زارو قطار رو پڑے۔
اس خط کا اردو ترجمہ مندرجہ ذیل ہے۔ ’’
میری پیاری بیٹی عاصمہ میں تمہیں الوداع نہیں کہتا۔ میں یہ کہتا ہوں کہ کل ہم دوبارہ ملیں گے۔ تم نے ہمیشہ سر اٹھا کر زندگی بسر کی اور ظلم و جبر کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا۔ تم نے ہمیشہ آزادی سے محبت کی۔ تم نے اپنی قوم کی تعمیر نو اور دنیا میں اسے ایک منفرد مقام دلانے کے لئے فکر کے نئے افق تلاش کئے۔ تم نے مروجہ خیالات و افکار کو اپنے دل میں جگہ نہیں دی۔ حتیٰ کہ روایتی علوم بھی تمہاری خواہشات کی تکمیل کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنے۔ تم ہمیشہ اپنی جماعت میں پہلے نمبر پر فائز رہیں۔ تمہاری اس مختصر زندگی میں ، میں بھی تمہیں زیادہ وقت نہیں دے سکا۔ افسوس میرے پاس ہمیشہ وقت کی کمی رہی اور میں تمہارے قیمتی نظریات سے زیادہ مستفید نہیں ہو سکا۔ آخری مرتبہ ہم دونوں رابعہ العدویہ سکوائر پر اکٹھے بیٹھے تھے۔ تم نے مجھ سے پوچھا تھا: ’’آپ آج ہمارے ساتھ ہیں لیکن پھر بھی مصروف ہیں‘‘ ۔میں نے جواباً کہا تھا : ’’ایسا لگتا ہے اس زندگی میں باپ بیٹی کی ملاقاتیں بہت کم ہوں گی میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ جنت میں دوبارہ ہمارا ساتھ ہو۔ تمہارے قتل سے تین راتیں پہلے میں نے تمہیں خواب میں دیکھا کہ تم نے شادی کا سفید جوڑا پہن رکھا ہے اور تم حسن کا مجسمہ لگ رہی تھیں۔ مجھے لگا جیسے تم کسی ایسی چیز کی تمنا کر رہی ہو،جو بہت کم لوگوں کا مقدر بنتی ہے۔ اور پھر جب میں نے تمہاری شہادت کی خبر سنی تو میرا یقین پختہ ہو گیا کہ تمہاری تمنا نے حقیقت کا روپ دھار لیا ہے۔ اور خدا نے تمہاری روح کو شہید کے طور پر قبول کر لیا ہے۔ تم نے میرے اس اعتقاد کو راسخ کر دیا کہ ہم لوگ حق کے راستے پر گامزن
ہیں جبکہ ہمارا دشمن جھوٹا اور منافق ہے۔ یہ میرے لئے بہت درد ناک لمحہ تھا جب تمہارے سفر آخرت کے دوران میں موجود نہیں تھا۔میں تمہیں آخری بار نہیں دیکھ سکا۔کیا یہ میرے لئے کم اذیت ناک ہے؟ مجھے تمہاری نماز جنازہ پڑھوانے کا بھی اعزاز حاصل نہ ہو سکا جس سے میرے غم کی شدت میں مزید اضافہ ہوا۔ میری پیاری بیٹی میں خدا کی قسم کھا کرکہتا ہوںکہ مجھے موت کا کوئی خوف نہیں تھا اور نہ ہی اس شخص سے جو انصاف کی دھجیاں اڑا رہا ہے میں تو اس پیغام کو آگے لے کر چلنا چاہتا تھا جو تمہاری روح کے ساتھ ساتھ چلا اور جو ہم سب کا مقصد حیات بن گیا، کیونکہ انقلاب کی تکمیل ازبس ضروری ہے۔ اب تمہارے سر کے ساتھ تمہاری روح بھی ایک قابل فخر مقام حاصل کر چکی ہے، جس نے ظالموں اور جابروں کی زبردست مزاحمت کی۔ غداری کی بندوق سے نکلی ہوئی گولیاں تمہارے سینے میں پیوست ہو گئیں۔میں پراعتماد ہوں کہ تم نے دیانت داری اور خلوص سے خدا کے احکامات کی تکمیل کی اور پھر خدا نے ہم میں سے تمہیں شہادت کے مرتبے پر فائز کرنے کے لئے منتخب کیا۔میری پیاری بیٹی میں آخر میں تم سے ایک بار پھر وہی کہوں گا۔ ’’میں تمہیں الوداع نہیں کہتا میں یہ کہتا ہوں کہ ہم بہت جلد اپنے پیارے نبی صلی اللہ الیہ وسلم اور ان کے رفقاء کے ساتھ جنت میں ملیں گے جہاں ہماری ایک دوسرے سے زیادہ سے زیادہ ملاقاتوں کی خواہش کی تکمیل ہو گی۔

جمعرات، 1 اگست، 2013

اگست کا مہینہ اور ماں کی یاد

28 تبصرے
اگست کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو ماں کی یاد شدت سے آنے لگتی ہے،حالانکہ اگست نہ تو ان کی پیدائش کا مہینہ ہے اور نہ ہی وفات کا،اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی ہم چھت پر پاکستانی پرچم اور جھنڈیاں لگانے کی تیاریوں میں مصروف ہوجاتے ۔ سارا
دن انہی تیاریوں میں گزر جاتا مگر جب بھی ماں پر نظر پڑتی وہ ان جھنڈیوں اور پرچموں کو دیکھ کر چپکے چپکے رورہی ہوتی،بڑا دکھ ہوتا کہ آخر کیا ہے جو ماں ہمیشہ انہی دنوں میں روتی ہے،ذرا ہوش سنبھالا تو  ماں سے پوچھنا شروع کیا کہ آپ کیوں روتی ہو؟۔ماں کہنے لگی  پتر یہ جو آپ محض جھنڈیاں لگا کر آزادی کا جشن منا لیتے ہو تمہیں پتہ ہے اس آزادی کے لئے تمہاری ماں نے کتنی قربانی دی ہے ؟ ماں بولتی چلی گئی ہم روتے رہے ،ماں کہتی بیٹا جب ہم اسی رمضان کے مبارک مہینہ میں اپنے پاک وطن کے لئے جس کی بنیاد ہر کلمہ شریف پر رکھی گئی ،ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے، لاکھوں کا سازوسامان گھروں میں چھوڑ کر مہاجر ہو گئے ۔تمہارا چند ماہ کا بھائی میری گود میں تھا، ہمارے قافلہ پر سکھوں نے حملہ کیا۔ست سری اکال کا نعرہ لگانے والے انسانیت کو بھول گئے جو سامنے آیا اسے گاجر مولی کی طرح کاٹتے چلے گئے۔ اپنے معصوم بچے کو بچانے کی پاداش میں میرے دونوں بازو ان کی تلواروں اور کرپانوں نے لہو لہان کر دیئے،میری انگلیاں میرے سامنے کٹ کر گر گئیں مگر میں پھر بھی تمہارے بھائی کو ان ظالمو سے نہ بچا سکی، پتہ نہیں کون کدھر چلا گیا سب بھاگ گئے ،میں بے ہوش ہو گئی ،آنکھ کھلی تو ارد گرد لاشوں کے ڈھیر تھے اور تمہارے معصوم بھائی کی لاش کے ٹکڑے میرے  پاس بکھرے پڑے تھے۔ پتہ نہیں کس نے لاہور پہنچایا اور پھر ہسپتالوں میں ڈھونڈتے ڈھونڈتے تمہارے والد کیسے ہم تک پہنچے  ، یہ ایک دردناک کہانی ہے جو کسی لمحے یادوں سے اوجھل نہیں ہوتی مگر اب صرف جھنڈیاں اور پرچم لہرا کر،موٹر سائیکلوں کے سائلنسر نکال کر سڑکوں پر ڈانس کرکے یوم آزادی منایا جارہا ہے۔ان شہیدوں کو اوران کی قربانیوں کو بھلا کر امن کی آشا لہرائی جا رہی ہے،ہماری قربانیوں کو بٹوارا کا نام دے کر ہمارے زخموں پر نمک چھڑکا جارہا ہے۔ آج ہم جو آزادی کے سانس لے رہے ہیں یہ آزادی دراصل برصغیر کے شہدا کی بے تحاشا قربانیوں کا ثمر ہے۔ یہ پیارا پاکستان ہمیں اپنے شہدا کی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔

اتوار، 16 جون، 2013

فادرز ڈے ، بیٹیاں وفاؤں جیسی ہوتی ہیں

33 تبصرے

آج 16جون کو دنیا بھر میں فادرز ڈے منایا جارہا ہے،صبح آنکھ کھلی تو سب سے پہلا ایس ایم ایس بیٹی کی طرف سے آیا ہوا تھا ، ہمیشہ کی طرح سب سے پہلے کی ضد میں رات بارہ بجے تک جاگتی رہی ہوگی کہ ابو کو پہلا ایس ایم ایس اس کی طرف سے ہی جائے ۔ تب کہیں پڑ ھی ایک حکائت یاد آگئی،آپ بھی پڑہیں
                                                شادی کی پہلی رات شوہر اور نئی نویلی دلہن نے فیصلہ کیا کہ صبح کوئی بھی آئے ہم دروازہ نہیں کھولیں گے۔صبح سب سے پہلے شوہر کے والدین نے دروازے پر دستک دی ،دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور معاہدہ کے مطابق کوئی بھی دروازہ کھولنے کے لئے نہیں اٹھا،  چند گھنٹے بعد ہونے والی دوسری دستک شوہر کی بہن کی تھی مگر اس نے اپنے دل پر جبر کرتے ہوئے اسے بھی نظر انداز کر دیا۔دروازے پر ہونے والی اگلی دستک دلہن کے والد نے دی۔اپنے پاب کی آواز سن کر وہ یک دم چونکی،شوہر کی  طرف دیکھا اور آبدیدہ آنکھوں سے کہنے لگی،میں اپنے پاب کے لئے ضرور دروازہ کھولوں گی اور بھاک کر دروازہ کھول دیا۔ شوہر نے اسے کچھ نہ کہا۔ اس واقعہ کو سالہا سالبیت گئے۔اللہ تعالیٰ نے انہیں چار خوبصورت بیٹوں سے نوازا،چار بھائیوں کے بعد ان کے گھر بیٹی پیدا ہوئی تو اس کے باپ نے ایک بہت بڑی پارٹی کا اہتمام کیا اور تمام رشتہ داروں کو مدعو کیا، وہاں کسی نے پوچھا بھائی اتنی بڑی پارٹی تو تم نے بیٹوں کی پیدائش پر نہیں دی ،اب کیوں؟  تب اس سالوں پہلا قصہ دہرا کر کہا کہ" اب دنیا میں وہ آئی ہے جو میرے لئے دروازہ کھولے گی"
                                    بیٹیاںرحمت خداوندی ہیں ،۔ بیٹیاں اللہ کی بڑی نعمتیں ہیں۔۔۔ باپ کے لیے سکون ، چاہت اور خوشی کا ذریعہ۔۔۔  ان  کی پہلی محبت ان کا باپ ہوتا ہے۔ ان کے لیے ان کے باپ سے اچھا دنیا میں کوئی اور ہوتا ہی نہیں۔۔۔
                      بیٹیاں وہ پھول ہیں  جوماں باپ کی شاخوں پہ جنم لیتی ہیں،پھول جب شاخ سے کٹتا ہے بکھر جاتا ہے، پتیاں سوکھتی ہیں ٹوٹ کے اڑ جاتی ہیں مگر بیٹیاں وہ پھول ہیں جوایک شاخ سے کٹتی ہیں مگر سوکھتی ہیں نہ کبھی ٹوٹتی ہیں،ایک نئی شاخ پہ کچھ اور نئے پھول کھِلا دیتی ہیں۔

جمعرات، 13 جون، 2013

میاں صاحب ، شیر بنو شیر

4 تبصرے
آنسو گیس کا ذائقہ، گولیوں کی تڑتڑاہٹ، لاٹھیوں کے زخم اور پھر مقدمات کی بھر مار اس شہر کے مزدور سے لے کر سرمایہ دار تک سب کے لئے معمول کی بات ہے مگر 11 جون 2013ء  کو لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج پر فلک نے وہ مناظر دیکھےکہ گزشتہ پانچ برسوں میں فیصل آباد شہر اور گردونواح میں نکالنے جانے والے 2ہزار سے زائد مظاہروں ، جلائو گھیرائو کے واقعات کے بعد بھی کبھی یہ نوبت نہ آئی۔ گزرے پانچ سالوں میں اس شہر میں لوڈ شیڈنگ سے تنگ لوگوں نے شہر کے گنجان علاقوں میں بھی پولیس کو ناکوں چنے چبوائے اور اتنی آنسو گیس چلی کہ دوسرے شہروں سے مزید منگوانا پڑی مگر کبھی گھروں میں گھس کر قانون کی طاقت دکھانے کی کسی کو جرات تک نہ ہوئی۔ فیسکو ریکارڈ کے مطابق ان پانچ برسوں میں 29دفاتر جلائے گئے اور 56میں توڑ پھوڑ کی گئی مگر گیارہ جون کو  شیخوپورہ روڈ پر جو ہوا، اس کی مثال نہیں ملتی۔11جون 2013کو پولیس نے لوڈ شیڈنگ کے خلاف مظاہرہ کرنے پر درجنوں گھروں پر دھاوا بول دیا۔’’سیاہ‘‘ وردیوں میں ملبوس پولیس کمانڈوز یوں دروازے توڑتے دکھائی دیئے جیسے عراق یا کشمیر میں قابض فوجی ہوں ۔کلہاڑیاں ہاتھ میں لئے پولیس اہلکار گھروں کے اندر موجود کمروں کے دروازے توڑکر فخریہ نعرے لگاتے رہے اور خواتین سمیت گھر میں موجود ہر عمر کے لوگوں کو بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ جرم صرف اتنا تھا کہ لو ڈ شیڈنگ کے خلاف جلوس کی جلدی کیا تھی! ابھی حکومت قائم ہوئے دن ہی کتنے ہوئے ہیں!! صبر کیوں نہیں کیا!!! وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف وہ نعرہ کیوں لگا جو پہلے سابق صدر پرویز مشرف اور پھر موجود ہ صدر آصف زرداری کے خلاف لگائے جاتے تھے!!!سیاسی گفتگو اور سیاسی ماحول میں صنعتی ، معاشی اور جرائم کی باتیں شاید عجیب لگیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان تمام شعبوں سے ہی فیصل آباد کی سیاست جڑی ہے۔ جلسے جلوس، احتجاجی مظاہرے، سول نافرمانی، لانگ مارچ اور بل نہ دینے کے اعلانات اس شہر سے اتنی مرتبہ بلند ہو چکے ہیں کہ عام آدمی کی یہ بات بھی سیاستدانوں کے بیانات جیسی لگتی ہے۔مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہی ہوئے ہیں، ملک بھر میں توانائی بحران کے خلاف پہلا جلوس اسی شہر سے سامنے آیا۔ یہاںسے قومی اور صوبائی اسمبلی کی تمام نشستیں مسلم لیگ (ن) نے جیتیں ۔ شہریوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو حکومت اور اس کے ادارے بھی ایسے بپھرے کہ ماضی میں ایسی مثال نہیں ملتی۔ٹھیک ایک سال پہلے، اس وقت کے اور موجودہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے  فیصل آبادکے لوگوں سے وعدہ کیا  تھاکہ اگر بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا حل نہ نکلا تو وہ خود فیصل آباد آئیں گے اور اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کی قیادت کریں گے۔ شہر کے تاجر، مزدور اور صنعتکاروں سمیت ایک ایک شہری کو یاد ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کس قدر جذباتی تھے ،انتخابی مہم کے دوران وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے بیانات اور وزیر اعظم نواز شریف کے وعدے سن اور پڑھ کر فیصل آباد کے شہریوں کو پختہ یقین تھاکہ بجلی لوڈ شیڈنگ کا حل انہی کے پاس ہے، اسی اعتماد کی بنا پر اس شہر نے سیاسی دوڑ میں’شیر‘ کی 100فیصد حمایت کی مگر انہیں جو "صلہ" ملا سب کے سامنے ہے۔

ہفتہ، 8 جون، 2013

اک "عام" سا پودا، جومجھے بہت پیارا ہے

11 تبصرے
آپ سوچ رہے ہوں کہ آخر اس عام سے گھریلو پودے میں اتنی خاص بات کونسی ہے کہ میں نے اس کو بلاگ کا موضوع بنا دیا ہے، جی ہاں میرے لئے  یہ عام سا پودا  بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ آپ حیران ہوں گے میرا اور اس کا ساتھ 25 سال پرانا ہے  اور 25 سال کوئی معمولی عرصہ نہیں ہوتا،ساری زندگی گزر جاتی ہے، 1988ء میں نئے گھر میں شفٹ ہوئے تو بچپن سے دل میں بسا  باغبانی کا شوق انگڑائیاں لینے لگاچونکہ گھر بناتے وقت صحن میں کیاریاں بنانے کی تجویز والد گرامی بری طرح رد کر چکے تھے اس لئے اس شوق کو گملوں میں لگے پودوں سے پورا کرنے کی کوشش کی اور اس کے لئے محترم دوست طارق سلطان نے بھر حوصلہ افزائی اور تعاون کیا جن کا مشہور قول ہے کہ کتاب اور پودوں کی چوری کوئی چوری نہیں ہوتی اس لئے موصوف جو مہنگا پودا خریدنے کا حوصلہ نہ رکھتے اس کو کبھی کبھی زور جوانی کے ہاتھوں چرانے سے بھی  نہیں کتراتے تھے۔ سو موصوف نے نئے گھر شفٹ ہونے پر اس پودے کی صورت میں ناچیز کو پہلا تحفہ دیا۔ تب روز بروز نئے  خوبصورت پودوں کا اضافہ ہونے لگا اور ہر نئے  پودے کی آمد پر یہ اور پچھلی صف میں چلا جاتا  اور آخر  چند سال بعد ایک دن میں نے جگہ کی تنگی کا بہانہ بنا کر اس کو باہر پھینک دیا۔ مجھے یاد ہے ابا جی مرحوم عصر کی نماز کے بعد مسجد سے واپس آئے تو ان کی نظر اس پر پڑی تو سیخ پا ہو گئے،کہنے لگا اس کو کیوں باہر پھینکا ؟ بس جلدی میں کہہ دیا بہت پرانا ہو گیا تھا۔ کہنے لگے میں بھی پرانا ہوتا جارہا ہوں تو کیا مجھ کو ایک دن باہر  پھینک دو گے ۔ میں بہت شرمندہ ہوا اور اس کو والد مرحوم نے دوبارہ نئے گملے میں لگا دیا۔سالہا سال بیت گئے ، والد مرحوم بھی جہان فانی سے رخصت ہوگئے ،شائد اتوار کا دن تھا  میں نماز عصر کے بعد مسجد سے گھر واپس آیا تو  میں نےاس کو  گھر کے باہر گرا پایا  تو مجھے کئی سال پرانا یہی وقت یاد آ گیا ۔ گھر میں داخل ہوا تو چھوٹا صاحبزادہ ہاتھ میں کھرپہ لیئے پودوں کو درست کررہا تھا ، میں نے پوچھا میاں یہ کیا کیا تم نے ؟ اس کو  اکھاڑ کے کیوں باہر پھینک دیا ، کہنے لگا ابو بہت پرانا ہو گیا ہے اور خوبصورت بھی نہیں  لگتا اب ،مجھے ابا جی کے کہے کلمات یاد آ گئے ۔ میں نے اس کو کہا بیٹا  پرانا تو میں بھی ہو رہا ہوں میرا کیا کروگے،بڑا شرمندہ ہوا کہتا اس کو   گھر کی بیرونی دیوار  کے ساتھ بنی کیاری میں لگا دیتا ہوں اور اس کو وہاں لگا دیا گیا  ،تین چارسال وہاں گزارنے کے بعد بیٹا کہنے لگا ابو جی اس نے ساری جگہ گھیر لی ہے اس کو اب ختم ہی نہ کر دیں تو پھر میں نے کہا بیٹا اس کا میرا ساتھ بہت پرانا ہو گیا ہے اب اس کو ضائع نہیں کرنا کسی گملے میں لگا کر دوبارہ صحن میں ہی رکھ دو اور اب دو سال سے یہ پھر گھر کے اندر ہے مگر اب میں نے اس کو سب پودوں سے الگ تھلگ گیٹ کے پاس رکھ دیا ہے ، میں صبح گھر سے نکلتا ہوں تو مجھے لگتا ہے یہ مجھے رخصت کرتا ہے ، واپس آتا ہوں تو مسکرا کر میرا استقبال کرتا  ہے ،مجھ سے باتیں کرتا ہے ،میرا خیال رکھتا ہے ، بسا اوقات مجھ سے باتیں کرتا ہے اور میری پریشانیوں اور میری خوشی غمی میں شریک ہوتا ہے۔گھر میں باقی پودے بھی ہیں  مگر یہ "عام" سا پودا مجھے بہت پیارا ہے۔

بدھ، 5 جون، 2013

گھریلو پودوں اور قدرتی طریقہ سے مچھر اور موذی کیڑوں سے نجات

5 تبصرے
جوں جوں ہم فطرت سے دور ہوتے جارہے ہیں ہم طرح طرح کے مسائل میں گھرتے جارہے ہیں،ہمارے بزرگوں کے زمانہ میں ہر بیماری اور مسئلہ کا حل قدرتی غذاؤں اورگھریلوٹوٹکوں کے ذریعے کیا جاتا تھا۔ کچن میں استعمال ہونے والے مصالحہ جات ،پودے اور ان کے بیج ہر بیماری کی شفا ثابت ہوتے تھے۔ آج کیمیکل کا استعمال ہماری زندگیوں میں اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اس کے مضر اثرات نے ہماری نوجوان نسل کو طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا کر رکھا ہے۔ نباتات قدرت کی طرف سے انسانی ذات کیلئے ایک بہترین تحفہ ہے۔زمانہ قدیم سے یہ حقیقت سبھی جانتے ہیں کہ قدرت نے نیم کے درخت میں بہت سے طبی، زراعتی اور ماحولیاتی فوائد رکھے ہیں اور انہی فوائد کو جدید تحقیق نے بھی ثابت کیا ہے، نیم کا درخت مچھروں کو بھگانے کا بھی ایک قدرتی ذریعہ ہے۔نیم کے درخت کے ارد گرد مچھر نہیں ہوتے اور اسی وجہ سے ڈینگی کے خاتمے کیلئے اسے انتہائی کارآمد تصور کیا جاتا ہے۔کیڑے مکوڑوں سے نجات کیلئے

استعمال ہونے والے پودوں میں پودینہ کی افادیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اس پودے کی خوشبو سے مچھر پریشان ہو کر دور بھاگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ  پودینہ کو صدیوں سے مکھی مچھر کو دور رکھنے کے لئے استعمال کیاجا تا ہے۔ اس پودے کو صحن میں لگانے یا کمرہ میں اسکا گملا رکھنے سے مچھر آپ کے قریب نہیں آئے گا۔ گیندے کا پودا یعنی میری گولڈ بھی اپنے پھول کی خوبصورتی اور کیڑے مکوڑوں کو دور رکھنے میں انتہائی معاون ثابت ہوتا ہے۔ گیندے کے پھول کی خوشبو بھی مچھروں کو پسند نہیں، اسلئے مچھروں سے چھٹکارا پانے کے لئے اسے چھوٹے کنٹینرز، گملوں، صحن یا مرکزی دروازے کے دونوں اطراف لگانے سے مچھروں کو گھر میں داخل ہونے سے روکا جاسکتا ہےصرف یہی نہیں بلکہ تلسی کا چھوٹا سا پودا اپنی مخصوص خوشبو کےباعث مکھی مچھروں کیلئے نفرت انگیز سمجھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ مچھر اس پودے کے اردگرد بھی نہیں پھٹکتے،اس کے پتوں کو ہاتھوں اور  چہرے پر مسل کر آپ باہر بیٹھ جائیں مچھر آپ کے قریب بھی نہیں پھٹکے گا ۔تلسی ہی کی طرز کا ایک عام گھروں میں پایا جانے والا پودا نیاز بو بھی اسی کام آتا ہے۔اس کے علاوہ  لیمن گراس پلانٹ گھاس کی ایک خوبصورت قسم ہے اور اسے بھی مچھروں سے بچا کیلئے انتہائی کارآمد تصور کیا جاتا ہے۔ یہ پرکشش، تروتازہ اور خوبصودار اونچی گھاس گھریلو باغیچوں میں لگانے سے بھی مچھروں سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ یہ تمام پودے گملوں میں لگائے جا سکتے  ہیں اور پھر میرا وہی ماٹو، ہیں بھی انتہائی سستے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دیہی اور شہری علاقوں میں کیڑے مکوڑوں اور خاص طور پر مچھروں سے تحفظ کیلئے اپنی مدد آپ کے تحت ان پودوں کی گھر گھر شجرکاری سے متعلق آگاہی کا پروگرام تشکیل دیا جاسکتا ہے، جس کی مدد سے ڈینگی مچھر اور وائرس سے مستقل چھٹکارا حاصل کرنا ممکن ہے۔ موسم گرما میں مچھروں کی بہتاب ہوتی ہے اور ایسے میں ان پودوں کو زمین یا گملوں میں باآسانی لگایا جاسکتا ہے۔ حکومت خاص طور پر پنجاب حکومت کیمیاوی اسپرے پر اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود ڈینگی مچھر پر قابو نہیں پا سکی، بلکہ ماہرین کا تو یہ کہنا ہے کہ کیمیاوی اسپرے کی وجہ سے مچھر دشمن اور مچھر خور دیگر حشرات بھی ختم ہورہے ہیں۔ ایسے میں حکومتی سطح پر سڑکوں کے کنارے نیم کے درخت کی شجرکاری اور دوسرے پودے لگانےسے ڈینگی مچھر اور وائرس سے مستقل چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔

(اس مضمون کی تیاری میں مختلف تحقیقاتی مضامین سے مدد لی گئی ہے)

جمعہ، 24 مئی، 2013

خوش آمدید ، وزیر اعظم چائنا لی کی چیانگ

0 تبصرے

   پاکستانی عوام چینی وزیر اعظم لی کی چیانگ کے دورہ ٔپاکستان کا خیر مقدم کرتے ہیں ۔ چین پاکستان کا مخلص دوست ہے جس نے ہمیشہ  پاکستان سے تعلقات کو اہمیت دی ہے ۔چین اور پاکستان نہ صرف اچھے ہمسائے بلکہ ایک دوسرے کے حقیقی خیر خواہ اور سٹریٹجک پارٹنر ہیں ۔ پاکستان کی صنعتی ترقی اور عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کیلئے چین بیسیوں پراجیکٹس میں پاکستان کی مدد کررہا ہے۔شاہراہ ریشم ،گوادر پورٹ،جے ایف ٹھنڈر اور سینڈک پراجیکٹ سمیت درجنوں بڑے بڑے منصوبے پاکستان کی ترقی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں جو پاک چین دوستی کی  شاندار مثال ہیں۔چین کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیشکش خطے میں امن کے قیام کیلئے چین کی مخلصانہ کوششوں کا اظہار ہے ۔ امریکہ اور نیٹو افواج کی خطے میں موجودگی ،بھارت کو خطے کا تھانیدار بنانے اور چین کے کردار کو محدود کرنے کی کوششیں خطے کے امن کو برباد کرنے کی سوچی سمجھی سازش ہے جو کسی طرح بھی پاکستان اور خود بھارت کے مفاد میں نہیں، لیکن امریکہ چاہتا ہے کہ عالمی تجارت پر اس کا کنٹرول رہے اور پاکستان اور بھارت کی تجارتی منڈیوں پر چین کی اجارہ داری قائم نہ ہونے دی جائے۔پاکستان کے لوگ جانتے ہیںکہ امریکہ اور بھارت نے گوادر پورٹ چین کے ہاتھ لگنے سے روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ، دونوں ملک پاکستان پر عالمی دبائو بڑھانے، کوئٹہ کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے ،بلوچستان میں علیحدگی کی تحریکوں کی سرپرستی کرکے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے اورچینی انجینئروں کو اغواء اور قتل کرنے جیسے واقعات میں ملوث رہے ہیں تاکہ کسی بھی صورت پاکستان اور چین کے درمیان نفرتیں پیدا کرکے ان کی دوستی میں رخنہ ڈالا جائے لیکن وہ اپنی ان مکروہ سازشوں میں کامیاب نہیں ہوسکے ۔چین سے مضبوط دوستی کی بنیادوں پر استوارخارجہ پالیسی خطے میں امریکہ کے عمل دخل کو ختم کرنے میں کردار ادا کر سکتی ہے۔ چین نے پرامن مقاصد کے لیے ایٹمی ٹیکنالوجی کی فراہمی سمیت جن بڑے ترقیاتی منصوبوں میں تعاون کرنے کی پیشکش کی ہے انہیں فوراً قبول کر کے ان منصوبوں پر عملدرآمد شروع کیا جائے۔  توقع ہے کہ پاکستان کی نو منتخب حکومت چین کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے اور امریکی غلامی سے نکلنے کی پوری کوشش کر ے گی


جمعرات، 23 مئی، 2013

کالا باغ ڈیم , توانائی کے بحران کا مستقل حل ؟

2 تبصرے


جب توانائی کے بحران کے مستقل حل کا سوچا جائے تو کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے سوا کوئی دوسرا مستقل حل قابل عمل اور کارآمد نظر نہیں آتا اس لئے جب ہمارے پاس اس بحران سے عہدہ برا ہونے کا مستقل اور پائیدار ایک ہی حل موجود ہے تو حکمران طبقہ اپنے اپنے مفادات کی بنیاد پر قومی ترقی و بقا کے اس منصوبے کو سیاست کی نذر کرنے پر کیوں تلا بیٹھا ہے اور کیوں اس منصوبے پر قومی اتفاق رائے نہیں کیا جاتا۔کالا باغ ڈیم کی تعمیر صرف توانائی کے ذرائع میں اضافہ کرنے کے لئے ہی ضروری نہیں بلکہ پاکستان کو خوراک و زرعی پیداوار میں خود کفالت کی منزل تک پہنچانے کے لئے بھی انتہائی ضروری ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق کالا باغ ڈیم کی عدم تعمیر کے باعث 26.1ملین ایکڑ فٹ بارش کا پانی ہر سال سمندر میں بہہ کر ضائع ہو جاتا ہے۔ اگر کالا باغ ڈیم تعمیر ہو جائے تو پھر بھی صرف 6.1ملین ایکڑ فٹ پانی ہی ذخیرہ کیا جا سکے گا۔ اس ڈیم کی تعمیر سے صوبہ سندھ کی8 لاکھ ایکڑ، سرحد کی 4 لاکھ 40 ہزار ایکڑ، بلوچستان کی5 لاکھ10 ہزار ایکڑ اور صوبہ پنجاب کی6 لاکھ80 ہزار ایکڑ اضافی زمین زیر کاشت آئیگی۔ اس میں کوئی ابہام باقی نہیں رہ جاتا کہ کالا باغ ڈیم جیسے فقید المثال منصوبہ سے ملک میں زرعی انقلاب آجائیگا۔ زرعی مفادات کے علاوہ اس منصوبے سے 3600میگاواٹ سستی اضافی بجلی حاصل ہوگی۔ ایک اہم بات کا تذکرہ کرنا ضروری ہے کہ تربیلا ڈیم سے اگر ایک لاکھ بیس ہزار کیوسک پانی چھوڑا جائے تو مکمل صلاحیت کے مطابق یہ ڈیم 3700میگاواٹ بجلی پیدا کر سکتا ہے جبکہ اس سے صرف 1500میگاواٹ بجلی حاصل کی جا رہی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اس بات کا ہمیشہ خدشہ موجود رہا ہے کہیں اس سے چھوڑا جانے والا اضافی پانی سمندر میں بہہ کر ضائع نہ ہو جائے۔ اگر کالا باغ ڈیم تعمیر کیا جائے تو تربیلا ڈیم اور کالا باغ ڈیم کے مشترکہ عمل سے 5800میگاواٹ سستی اضافی بجلی حاصل ہوگی جو ملک میں صنعتی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔یہ حقیقت ہے کہ توانائی کے بحران پر صرف کالا باغ ڈیم تعمیر کرکے ہی قابو پایاجاسکتا ہے۔اس حقیقت کا ہمارے شاطر دشمن بھارت کو بھی بخوبی احساس و ادراک ہے اس لئے وہ بھی کالا باغ ڈیم کے منصوبے کو سبوتاژکرانے کیلئے اپنے وسائل اور سازشی ذہن بروئے کار لا رہا ہے جس نے بالخصوص سندھ میں اپنی سازشوں کا جال بچھا رکھا ہے۔ اس ڈیم کے خلاف زہریلے پراپیگنڈے کیلئے مبینہ طور پر سندھی قوم پرستوں کی مخصوص لابی کو بھارتی ایجنسی را کی جانب سے مالی طور پر نوازا رہا ہے چنانچہ اس لابی کی جانب سے تواتر کے ساتھ یہ پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی صورت میں سندھ کے حصے کا پانی کم ہو جائے گا۔ اس کے برعکس سرحد میں ہندتا کے فلسفہ کے پرچارک سرحدی گاندھی کے پیروکاروں کی جانب سے اسی بھارتی ایجنڈہ کی بنیاد پر کالا باغ ڈیم کی مخالفت کیلئے اس دلیل کا سہارا لیا گیا کہ اس سے نوشہرہ اور سرحد کے کئی دوسرے شہر ڈوب جائیں گے۔پختون یا پٹھان، آبی ماہرین اور انجینئرز ان دونوں زہریلے پراپیگنڈوں کو جھوٹ کا پلندہ قرار دے کر مسترد کر چکے ہیں۔ نااہل حکمرانوں کو شائید اس بات کا مکمل طور پر ادراک نہیں کہ توانائی کا بحران کسی بڑے طوفان پر منتج ہو سکتا ہے۔اس وقت کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔اصولی طور پر تو قومی تعمیر و ترقی کے ضامن اس منصوبے پر شروع دن سے ہی اتفاق رائے قائم ہو جانا چاہئے تھا اور تربیلا ڈیم کی تعمیر کے بعد سندھ طاس معاہدے کی روشنی میں ہمیں کالاباغ ڈیم سمیت ہر چھوٹے بڑے ڈیم کو تعمیر کرلینا چاہئے تھا مگر ہماری حکومتیں اور سیاست دان ایک دوسرے پر محض سیاسی پوائنٹ سکور کرنے اور اپنے اپنے مفادات کے تحت کالاباغ ڈیم کے حق اور مخالفت میں آوازیں بلند کرنے میں ہی مصروف رہے کسی نے یہ نہ سوچا کہ کالاباغ ڈیم تعمیر نہیں ہو پائے گا تو ہم وقت کے تقاضوں کے مطابق بڑھتی ہوئی بجلی کی ضرورت کیسے پوری کرینگے؟ اگر قومی تعمیر و ترقی کا جذبہ سیاست دانوں کے پیش نظر ہوتا تو نہ سرحد سے اس ڈیم کو بم مار کر اڑا دینے کے زہریلے نعرے لگتے اور نہ ہی سندھی قوم پرستوں کو اس ڈیم کی مخالفت میں اپنی سیاست چمکانے کا موقع ملتا اور اب تک یہ ڈیم تعمیر ہو کر ملک میں توانائی کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہوئے قومی معیشت کی ترقی و استحکام کی بنیاد رکھ چکا ہوتا۔مگر بدقسمتی سے جن فوجی اور سول حکمرانوں کو اپنے اپنے دور حکومت میں کالاباغ ڈیم کی تعمیر کیلئے قومی اتفاق رائے کی فضا قائم کرنے کا موقع ملا انہوں نے بھی اس موقع سے فائدہ نہ اٹھایا اور اس ڈیم کو سیاست کی نذر ہونے دیا۔

(اس آرٹیکل کی تیاری میں مختلف تحقیقاتی ویب سائٹس سے مدد لی گئی ہے)

منگل، 23 اپریل، 2013

الیکشن 2013 ،آخر ووٹ کس کو دیں ؟

2 تبصرے


 گزشتہ شب ٹی وی پر ایک خاتون اینکر نے الیکشن پر روڈ شو کر تے ہوئے ایک بزرگ سے پوچھا " با با جی ووٹ کس کو دینا ہے" بابا جی نے بڑے تلخ لہجہ میں جواب دیا کسی کو بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے تئیں دانشورخاتون اینکر کہنے لگیں با با جی ووٹ تو ایک امانت ہے۔ با با جی نے بڑے نفرت بھرے لہجہ میں جواب دیا " تو کیا اب میں اپنی امانت کسی بےامان کے سپرد کر دوں" ۔ واقعی اس وقت ہم سب کے سامنے سب سے بڑا مسلئہ یہی ہے کہ ووٹ آخر کس کو دی جائے۔ حالیہ انتخابات میں مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف ایسی جماعتیں ہیں جنہوں نے چاروں صوبوں میں اپنے امیدوار کھڑے کئے  ہیں جبکہ ایم کیو کیو ایم ،جے یو آئی،اے این پی اپنے اپنے علاقوں تک محدود ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ پانچ سال تک جنہیں ہم جھولیاں بھر بھر کر بد دعائیں دیتے ہیں الیکشن کے موقع پر جھولیاں بھر بھر انہیں ووٹ دیتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی نے اس ملک کا جو حال کیا وہ سب کے سامنے ہے ۔ اگرچہ اس بار ن لیگ کا بہت زور شور ہے مگر نواز شریف نے  امیر مقام جیسے پرویز مشرف  کے مخلص ساتھی سے لے کر ق لیگ سے آنے والے ہر اس بندے کو قبول کرلیا جودس سال تک آمر کا حصہ رہا دوسری طرف تبدیلی اور یوتھ کا نعرہ لے کر آنے والے عمران خاں نے بھی اپنے دیرینہ ساتھیوں کو چھوڑ کر ن لیگ اور پی پی سے آنے والوں کو ہی ترجیح دے کر اپنے مخلص ساتھیوں کو مایوس کیا ہے۔ سوچنے کی بات ہے جو لوگ صرف اقتدار حاصل کرنے کے لئے ہر طرح کے لوٹوں کو اپنا رہے ہیں وہ کل کس طرح ہمارے مفادات کا تحفظ کریں گے ۔ پھر آخر کیا کریں کس کو ووٹ دیں یہ سوال بہت پریشان کرتا ہے کون اس قابل ہے میرے خیال میں  اگر ہم سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر اپنے حلقہ کے امیدواروں کے ماضی پر نظر دوڑائیں ، دیکھیں ماضی میں کس کا کیا کردار رہا ہے کس کس نے ملکی دولت لوٹی ہے ،کس نے کرپشن کی ہے اور کون واقعی 62 اور 63 پر پورا اترتا ہے تو ہمیں یقیناً آسانی ہو جائے گی ۔ کہتے ہیں ایک دفعہ سمندر کی ایک بپھری ہوئی لہر ہزاروں مچھلیوں کو ساحل پر تڑپتا چھوڑ کر واپس چلی گئی ۔ ایک نوجوان نے ان مچھلیوں کو دوبارہ زندگی  دینے کے لئے انہی دوبارہ سمندر میں پھینکنا شروع کر دیا  تو قریب سے گزرتے ہوئے ایک فلسفی نے کہا کہ نوجوان تھاری اس کوشش سے کیا ہو گا ؟ نوجوان نے ایک مچھلی کو دم سے پکڑا اور سمندر میں پھینکتے ہوئے کہا کہ لو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کو تو فرق پڑ گیا ناں ! اس لئے ہمیں اپنے حصہ کی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے ۔ ہم جب اپنے رب کے حضور پیش ہوں گے تو فخر سے کہہ سکیں گے کہ ہم نے اپنی امانت اہل فرد کو دی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ہم نے اپنے حصہ کا کردار ادا کر دیا تھا ۔۔۔۔۔۔  

ہفتہ، 20 اپریل، 2013

لو جی ہمارا بلاگ بھی سوہنا ہو گیا

13 تبصرے

 قلم سے کی بورڈ تک  پہنچنے میں کئی سال لگ گئے مگر اس کے باوجود  کمپیوٹر سے رشتہ صرف "ان پیج" تک ہی محدود رہا ۔ عرصہ سے  بلاکنگ کے بارے میں مضمون پڑھتے رہے مگر اس شیطانی چرخہ کمپیوٹر سے مناسب شد بدھ نہ ہونے کی وجہ دوری کا سامنا کرنا پڑا، جب بھی کبھی کسی سے بات ہوتی تو یہی پیغام ملتا " بس جی آپ کے لئے خاصا مشکل ہے" ۔ ایسے ایک دن سرچنگ کے دوران ایم بلال ایم تک رسائی ہوئی تو لگا کسی اپنی ہی دنیا میں آ گئے ہیں اس کے بلاگ پڑھ کے پھر اندر سے وہی خواہش دوبارہ ابھری کہ اب انشاء اللہ یہاں کچھ کر کے دکھائیں گے اور اس کی تحریریں پڑھ کے ایک کچا پکا بلاگ ہم نے بھی ورڈ پریس پر کھڑا کر لیا ۔اب جب لکھنے کا شوق پورا ہونے لگا تو تو دوسرے ساتھیوں کے خوبصور ت انداز میں بنے بلاگ  ہماری کمپیوٹر سے لاعلمی کا مذاق اڑاتے مگر پھر جی میں آتا کہ ایک دن ایسا بھی بن ہی جائے گا۔ چند ماہ پہلے لاہور میں ہونے والی دوروزہ عالمی اردو بلاگرز کانفرنس میں شمولیت کا اعزاز حاصل ہوا تو وہاں ملک بھر سے آئے معروف بلاگرز سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا ،ایم بلال ایم،شعیب صفدر،شاکرعزیز،نجیب پردیسی،خرم ،کاشف نصیر اور بہت سے دوسرے احباب سے ملاقات ہوئی تو اپنی اس کم علمی کا رونا رویا تو سب احباب نے "حسب توفیق"مدد کی حامی بھری۔ بحرحال شاکر عزیز نے پہلے کچھ راہنمائی کی اور ورڈ پریس کو بلاگ سپاٹ میں کنورٹ کر کے دیا پھر محترم بلال نے خاصا کام کر کے دیا اور اب آخر میں برادرم اصغر ساجد نے سونے پر سہاگہ والا کام کیا اور آج الحمداللہ ہم بھی ایک عدد خوبصورت بلاگ کے مالک بن چکے ہیں     ،دیکھئے اور تبصرہ فرمائیے۔آپ کی آراء کا منتظر رہوں گا۔

اتوار، 14 اپریل، 2013

الیکشن 2013 ، انتخابی مہم کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال

1 تبصرے

پاکستان میں آئندہ انتخابات کے حوالے سے انتخابی مہم بھرپور طریقے سے جاری ہے اور پہلی بار سیاسی جماعتیں انتخابی مہم کے لئے بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا کا استعمال کر رہی ہیں ۔ اگرچہ سوشل میڈیا پر پارٹیوں کی مقبولیت کامیابی کی ضامن تو نہیں ہے لیکن ملک کے پڑھے لکھے نوجوانوں اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کا آسان ذریعہ ہے ۔ پاکستان میں سماجی رابطے کی ویب سائیٹ فیس بک استعمال کرنے والوں کی تعداد 80 لاکھ ہے جس میں سے زیادہ تر کی عمر 36 سال سے کم ہے اسی طرح سے 20 لاکھ افراد سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویئٹر استعمال کرتے ہیں سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ کا استعمال کرنے والے افراد ی اکثریت پڑھی لکھی ہے ۔ سیاسی جماعتیں سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس کے ذریعے اپنی جماعتوں کی سرگرمیوں ، منشور ، نعروں اور لیڈروں کی تصاویر کے زریعے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہیں ۔ جس سے عوام کو ان جماعتوں کے بارے میں جاننے کا موقع ملتا ہے سیاسی جماعتوں سے ہٹ کر انتخابات 2013 ء میں حصہ لینے والے مختلف جماعتوں کے امیدواران انفرادی طور پر بھی سوشل میڈیا کا استعمال کر رہے ہیں جن میں شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والے امیدواران کی اکثریت ہے ۔ سوشل میڈیا کے ذریعے سیاسی جماعتیں لوگوں کے سوالوں کے جواب بھی دیتی ہیں اور اپنے منشور اور نعروں کے حوالے سے عوام میں آگاہی پیدا کرتی ہیں ۔ ماہرین کے مطابق سوشل میڈیا پاکستان میں ایک طاقت کے طور پر ابھرا ہے اور اس طاقت کو ملکی سطح پر سیاسی جماعتوں نے محسوس کرتے ہوئے اپنایا ہے پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے ۔ نوجوان سماجی رابطوں کی ویب سائیٹوں کے ذریعے سیاستدانوں کا موازانہ بھی کرتے ہیں اور اپنے امیدواران اور سیاستدانوں کے حق میں دلائل دے کر ایک دوسرے کو قائل کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں


.