پاکستان سے محبت کی خاطر اپنی جان قربان کرنے والا 65 سالہ بوڑھا شخص آج پاکستا نیوں کی نظر میں اجنبی ہے ،نئی نسل سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی نوجوان اس کی صورت سےآشنا نہیں ہے، حیرانی تو یہ ہے خود پاکستانی میڈیا اسے جنگی جرائم میں مرتکب قرار دے کر پھانسی دیئے جانے کی خبریں نشر کر رہا ہے۔ وہ شخص جومیرے دین کی خاطر جو میرے وطن کیلئے جو میرے لئے، پھانسی کے پھندے پر جھول گیا. لیکن افسوس کہ پاکستان میں ہی گمنام ٹہرا۔ عبدالقادر کا قصور کیا تھا ، پاکستان سے محبت ، وہ پاکستان کی تقسیم کے مخالف تھا ،اس محب وطن پاکستانی کا خیال تھا کہ بھارت سے ساز باز کر کے پاکستان کو توڑنے کی سازش کرنے والے شیخ مجیب الرحمان کی اس سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور اس باہمت نوجوان نے پاکستانی فوج کا ہراول دستہ بن کر پاکستان ، نظریہ پاکستان اور اسلام کی حفاظت کا بیڑا اٹھایا۔ ملا عبدالقادر کو سزا دینے والی بنگلہ دیشی خاتون وزیر اعظم کا باپ شیخ مجیب الرحمان اپنے مشن میں کامیاب ہوگیا ، نوے ہزار پاکستانی فوجی بھارت کی قید میں چلے گئے ،ملا عبدالقادر جیسے ہزاروں لاکھوں نوجوانوں کو پاکستانی فوج کی مدد کرنے پر چن چن کر مارا گیا ،چوکوں مں پھانسیاں دی گئیں مگر ان کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی ، پھر ایک موقع آیا کہ بھپرے ہوئے بنگلہ دیشی عوام نے شیخ مجیب کو پاکستان توڑنے کی سزا دی ، حکومت کا تختہ الٹا گیا اور شیخ مجیب کو اس کے اپنے ہی فوجیوں نے قتل کردیا تب اس کی یہ بیٹی بیرون ملک تھی ،واپس آکر سیاست میں حصہ لیا تو بنگلہ دیش کی وزیر اعظم بن کر اپنے باپ کا انتقام لینا شروع کردیا ، جن لوگوں پر آج جنگی جرائم میں مقدمات چلائے جارہے ہیں وہ تو اب دو دو دفعہ پارلیمنٹ کے ممبران بھی رہ چکے ہیں۔خود شہیدعبدالقادر ملا بنگلہ د یش کے آئین کے تحت 2 دفعہ بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہو چکے ہیں کسی کو نہیں پتہ تھا کہ یہ غدار ہے ۔
ذرا سوچئے ! اس بنگالی مولانا کے لئے یہ مشکل تھا کہ وہ اپنی قوم کے ان نسل پرستوں سے معافی مانگ کر اپنا سر بچا لیتا... یہ تو آسان تھا .. مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔۔۔ اس نے ایک نظریہ پر جان دی... اس نے تسلیم کیا کہ میں نے ایک سب سے بڑی اسلامی ریاست کو بچانے کی جدوجہد کی ،میں نے ان لوگوں کا ساتھ دیا جو رنگ میں، نسل میں، زبان میں مجھ سے مختلف تھے ... مگرمیرے ہم مذہب تھے لیکن افسوس ہے تو پاکستانی حکومت پر جس نے اپنے اس محسن کے لئے ایک آواز بھی نہیں اٹھائی۔ وہ شہید ہوکر اپنے رب کے حضور جا پہنچا مگر ہم سب کو یہ سبق دے گیا کہ سر کو کٹا یا تو کیا جاتا ہے مگر باطل کے سامنے جھکایا نہیں جاتا۔
عبد القادر ملا ! آپ نے اپنے لئے جس راستے کا انتخاب کیا، وہ دنیاپرستوں کا راستہ نہیں ہے، وہ تو ابراہیم خلیل اللہ کا راستہ ہے جو آگ میں ڈالے گئے ، جو مسیحا ابن مریم کا راستہ ہے، وہ یحییٰ ابن ذکریا کا راستہ ہے جن کے سر کو دھڑ سے الگ کردیا گیا ، وہ خبیب ابن عدی کا راستہ ہے جنہں مکہ میں سولی پر لٹکادیا گیا تھا
عبد القادر ملا صاحب۔۔۔۔!!! ہم شرمندہ ہیں !!!! بحثیت قوم آپ سے معافی چاہتے ہیں کہ آپ نے 1971 میں پاکستان کا ساتھ دے کر ملک کی یک جہتی اور سالمیت کے لئے جدوجہد کی اور اس سلسلے میں صعوبتیں اٹھائیں۔
یہ ایک ناقابل تلافی جرم ہے۔۔۔ اور اس کی پاداش میں آج آپ کو پھانسی دے دی گی۔ یقین مانیں ہم پاکستانی بہت شرمندہ ہیں ہم بحثیت قوم آپ سے اظہار ہمدردی کے دو بول بھی نہ بول پائیں گے اور نہ آپ کے حق میں آواز اٹھا سکیں گے۔
اللہ پاک آپ کی شہادت قبول فرمائے ،ہمیں آپ پر فخر ہے۔
ذرا سوچئے ! اس بنگالی مولانا کے لئے یہ مشکل تھا کہ وہ اپنی قوم کے ان نسل پرستوں سے معافی مانگ کر اپنا سر بچا لیتا... یہ تو آسان تھا .. مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔۔۔ اس نے ایک نظریہ پر جان دی... اس نے تسلیم کیا کہ میں نے ایک سب سے بڑی اسلامی ریاست کو بچانے کی جدوجہد کی ،میں نے ان لوگوں کا ساتھ دیا جو رنگ میں، نسل میں، زبان میں مجھ سے مختلف تھے ... مگرمیرے ہم مذہب تھے لیکن افسوس ہے تو پاکستانی حکومت پر جس نے اپنے اس محسن کے لئے ایک آواز بھی نہیں اٹھائی۔ وہ شہید ہوکر اپنے رب کے حضور جا پہنچا مگر ہم سب کو یہ سبق دے گیا کہ سر کو کٹا یا تو کیا جاتا ہے مگر باطل کے سامنے جھکایا نہیں جاتا۔
عبد القادر ملا ! آپ نے اپنے لئے جس راستے کا انتخاب کیا، وہ دنیاپرستوں کا راستہ نہیں ہے، وہ تو ابراہیم خلیل اللہ کا راستہ ہے جو آگ میں ڈالے گئے ، جو مسیحا ابن مریم کا راستہ ہے، وہ یحییٰ ابن ذکریا کا راستہ ہے جن کے سر کو دھڑ سے الگ کردیا گیا ، وہ خبیب ابن عدی کا راستہ ہے جنہں مکہ میں سولی پر لٹکادیا گیا تھا
عبد القادر ملا صاحب۔۔۔۔!!! ہم شرمندہ ہیں !!!! بحثیت قوم آپ سے معافی چاہتے ہیں کہ آپ نے 1971 میں پاکستان کا ساتھ دے کر ملک کی یک جہتی اور سالمیت کے لئے جدوجہد کی اور اس سلسلے میں صعوبتیں اٹھائیں۔
یہ ایک ناقابل تلافی جرم ہے۔۔۔ اور اس کی پاداش میں آج آپ کو پھانسی دے دی گی۔ یقین مانیں ہم پاکستانی بہت شرمندہ ہیں ہم بحثیت قوم آپ سے اظہار ہمدردی کے دو بول بھی نہ بول پائیں گے اور نہ آپ کے حق میں آواز اٹھا سکیں گے۔
اللہ پاک آپ کی شہادت قبول فرمائے ،ہمیں آپ پر فخر ہے۔
ماشا آللہ مصطفے بھائی بہت زبردست معیاری اور اچھی سائٹ اور بلاگ ہے ۔اسلام ،انسان اور پاکستانیت کے معیار پر پورا اترتی ہوئی صحافت کا نمونہ اور آئینہ دار ہے آپکا بلاگ آللہ پاک آپکو اور ترقی اور عزت دیں آمین آپ پاکستان کی صحافت اور صحافیوں کا فخر ہیں ۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
مرنے کے لیے جینا یہ کیسی حماقت ہے
جینے کے لیے مرنا یہ کیسی سعادت ہے
انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اللہ ان کی شہادت قبول فرمائے، آمین۔
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
فصل گل آئی پھر اک بار اسیرانِ وفا
اپنے ہی خون کے دریامیں نہانے نکلے
ملا عبدالقادر، اللہ پاک آپ کی شہادت قبول فرمائے، اور جنات الفردوس میں اعلیٰ مقام دے۔
،ہمیں آپ پر فخر ہے مگر ہم آپ سے شرمندہ بھی ہیں۔
ملک صاحب، اللہ پاک آپ کا یہ حق سچ لکھا قبول کرے اور اسے آپ کیلئے توشہ آخرت بنا دے۔ آمین
عبد القار ملا کی شہادت در اصل بنگال میں پاکستانیت کا قتل اور قومیت پرستی کی فضا میں امت کی للکار کا قتل ہے۔
اللہ آپ کے قلم و تحریر میں مزید برکت عطا فرمائے
مصطفی صاحب ایک غلطی کی نشاندہی
آپ نے لکھا کہ (جو مسیحا ابن مریم کا راستہ ہے جنہیں مصلوب کیا گیا)
حالانکہ حضرت عیسی (ع) مصلوب نہیں کئے گئے بلکہ انکو آسمانوں پر اٹھایا گیا ہے۔امید ہے تصحیح کرکے برا نہیں مانیں گے۔شکریہ
منصور بھائی ۔ نشان دہی کا شکریہ ، ابھی درستگی کر رہاہوں ، مجھے خوشی ہوئی آپ اتنی گہرائی سے مطالعہ فرماتے ہیں۔