اگست کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو ماں کی یاد شدت سے آنے لگتی ہے،حالانکہ اگست نہ تو ان کی پیدائش کا مہینہ ہے اور نہ ہی وفات کا،اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی ہم چھت پر پاکستانی پرچم اور جھنڈیاں لگانے کی تیاریوں میں مصروف ہوجاتے ۔ سارا
دن انہی تیاریوں میں گزر جاتا مگر جب بھی ماں پر نظر پڑتی وہ ان جھنڈیوں اور پرچموں کو دیکھ کر چپکے چپکے رورہی ہوتی،بڑا دکھ ہوتا کہ آخر کیا ہے جو ماں ہمیشہ انہی دنوں میں روتی ہے،ذرا ہوش سنبھالا تو ماں سے پوچھنا شروع کیا کہ آپ کیوں روتی ہو؟۔ماں کہنے لگی پتر یہ جو آپ محض جھنڈیاں لگا کر آزادی کا جشن منا لیتے ہو تمہیں پتہ ہے اس آزادی کے لئے تمہاری ماں نے کتنی قربانی دی ہے ؟ ماں بولتی چلی گئی ہم روتے رہے ،ماں کہتی بیٹا جب ہم اسی رمضان کے مبارک مہینہ میں اپنے پاک وطن کے لئے جس کی بنیاد ہر کلمہ شریف پر رکھی گئی ،ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے، لاکھوں کا سازوسامان گھروں میں چھوڑ کر مہاجر ہو گئے ۔تمہارا چند ماہ کا بھائی میری گود میں تھا، ہمارے قافلہ پر سکھوں نے حملہ کیا۔ست سری اکال کا نعرہ لگانے والے انسانیت کو بھول گئے جو سامنے آیا اسے گاجر مولی کی طرح کاٹتے چلے گئے۔ اپنے معصوم بچے کو بچانے کی پاداش میں میرے دونوں بازو ان کی تلواروں اور کرپانوں نے لہو لہان کر دیئے،میری انگلیاں میرے سامنے کٹ کر گر گئیں مگر میں پھر بھی تمہارے بھائی کو ان ظالمو سے نہ بچا سکی، پتہ نہیں کون کدھر چلا گیا سب بھاگ گئے ،میں بے ہوش ہو گئی ،آنکھ کھلی تو ارد گرد لاشوں کے ڈھیر تھے اور تمہارے معصوم بھائی کی لاش کے ٹکڑے میرے پاس بکھرے پڑے تھے۔ پتہ نہیں کس نے لاہور پہنچایا اور پھر ہسپتالوں میں ڈھونڈتے ڈھونڈتے تمہارے والد کیسے ہم تک پہنچے ، یہ ایک دردناک کہانی ہے جو کسی لمحے یادوں سے اوجھل نہیں ہوتی مگر اب صرف جھنڈیاں اور پرچم لہرا کر،موٹر سائیکلوں کے سائلنسر نکال کر سڑکوں پر ڈانس کرکے یوم آزادی منایا جارہا ہے۔ان شہیدوں کو اوران کی قربانیوں کو بھلا کر امن کی آشا لہرائی جا رہی ہے،ہماری قربانیوں کو بٹوارا کا نام دے کر ہمارے زخموں پر نمک چھڑکا جارہا ہے۔ آج ہم جو آزادی کے سانس لے رہے ہیں یہ آزادی دراصل برصغیر کے شہدا کی بے تحاشا قربانیوں کا ثمر ہے۔ یہ پیارا پاکستان ہمیں اپنے شہدا کی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔جمعرات، 1 اگست، 2013
اگست کا مہینہ اور ماں کی یاد
rdugardening.blogspot.com
جمعرات, اگست 01, 2013
28
تبصرے
اس تحریر کو
قیام پاکستان کے لئے قربانیاں ، میری ماں ، اگست کا مہینہ اور ماں کی یاد ،
کے موضوع کے تحت شائع کیا گیا ہے
28 تبصرے:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔
.
ملک صاحب، اس درد بھری تحریر کیلئے میرے دو آنسو نذرانہ قبول کیجیئے
ہماری دادی جان بھی اسی طرح داستان سنایا کرتی تھیں اللہ تعالیٰ آپ کی والدہ اور ہماری دادی جان کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین اور ہمارے پاکستان کو تاقیامت قائم رکھے آمین
آج پاکستان کا حال دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ہم نصیحتوں سے آگے جاچکے ہیں
آئیے امی جی کی کہانی امی جی کی زبانی سنتے ہیں ….
میں انڈیا کے ضلع جالندھر کے قصبہ اپرا کے گاؤں رائے پور میں رہتی تھی. قران شریف پڑھنے کے علاوہ کوئی کام ضروری نہیں ہوتا تھا. ہمارے پاس کوئی ڈگری نہیں ہوتی تھی لیکن سب بچے جوان بوڑھے قرآن پڑھے ہوئے تھے. سب علم کے خواہاں تھے پر ڈگریوں سے بے نیاز تھے . ہم سب لوگ ایک ساتھ رہتے تھے . سب کی عزت و احترام ایک دوسرے پر لازم تھی . جھوٹ بولنے کا تصور تک نہ تھا. خاندان کے خاندان ایک ساتھ رہتے تھے . ساررے رشتہ دار ایک براداری کی طرح رہتے تھے . سینا پرونا ، کھانا پکانا ، زمینداری کرنا، مٹی میں کھیلنا، مٹی میں رہنا ہی کام تھا .
کھیت کنویں سب اپنےتھے . سوائے نمک کے ہم کچھ نہیں خریدتے تھے. ہمارے سامنے ہندوؤں کی برادری رہتی تھی . وہ امیر اور سنار تھے لیکن لین دین میں ہیرے تھے کبھی کوئی لڑائی نہیں . کوئی فساد اور دنگا نہیں . سب ایک دوسرے سے راضی . سب ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی تھے .شادی بیاہ، جینے مرنے میں بھی ساتھ رہتے تھے .
جب پاکستان بنا تب بھی ہمارے گاؤں میں کچھ نہ ہوا تھا. کسی نے کسی کو نہیں لوٹا. مجھے یاد ہے کہ میرے ابا جی گھر میں آئے اور کہنے لگے کہ ارے تم لوگ ابھی بھی سو رہے ہو. گاؤں کے گاؤں جا رہے ہیں لیکن یہ پتہ نہیں تھاکہ کہاں جا رہے ہیں اور کیوں جا رہے ہیں .. . میری ماں نے دو لحاف گڈے پر رکھے .اور سب مردوں نے طے کیا کہ ہم اپنی ٹیوں کی خود حاظت کریں گے اور اگر کوئی موقع ایسا آیا تو سب لڑکیوں کو دریا میں پھینک دیں گے لیکن کسی کے ہاتھ نہیں لگنے دیں گے . اور خود لڑتے ہوئے مر جائیں گے . ابھی ہم چلے ہی تھے کہ ہمارے گاؤں کو کسی نے آگ لگا دی .. بس پھر کیاتھا ہم سب دھاڑیں مار کر رونے لگے .. لیکن چلتے گئے اورپھر اسی طرح قافلے کے قافلے ملتے گئے اور ہم سب ایک کیمپ میں پہنچ گئے.
اتنے میں ایسے ہوا کہ ایک طرف سے رونے دھاڑنے کی آوازیں آنے لگیں . لوگوں نے اپنی لڑکیوں کو اپنے ہاتھوں میں مظبوطی سے تھام لیا اور دریا کی طرف دوڑنے لگے کہ لڑکیوں کو پھینک دیں گے . لیکن کسی نے چیخیں مار کر سمجھایا کہ لوگ اپنی جگہ چھوٹنے پر رو رہے ہیں . کوئی بلوہ کرنے والا آیا گیا نہیں ہے . میری امی کی یہی دعا تھی کہ اے اللہ اگر مارنا ہے تو ہم سب کو ایک ساتھ مار دے لیکن ہمیں الگ الگ مت کرنا. ایسے میں میرا چھوٹا بھائی ہم سے بچھڑ گیا. وہ جو گھنٹے ہم نے گزارے وہ ہم ہی جانتے ہیں کہ وہ کیسے گزرے . لیکن شکر خدا کا کہ وہ مل گیا . اور پانچ میل کے فاصلے پر فلور کیمپ میں پہنچ ہی گئے . ہم لوگ چھوٹی عید کے بعد نکلے تھے اور بڑی عید تک ہی ہم لوگ کیمپ میں ہی تھے .
بارشیں برسیں . سیلاب آیا ، بھوک آئی ، سردی آئی ، کئی بچے پیدا ہوئے ، لاکھوں مر گئے ، بس نہ آیا تو آرام کا دن نہ آیا . بچوں کو اپنی گود میں سنبھالے بارشوں میں دوسرے کیمپ جانا پڑ گیا . نہ پاکی کا پتہ نا صفائی کا خیال . نہ کھانا نہ پانی … وہیں میری دادی اور تائی جی اور ان کی بیٹی کی وفات ہو گئی . کوئی جماعت ..کوئی خیر خبر لینے والا نہ تھا. . پھر ہم لوگ ساڑھے تین مہینے کیمپ میں رہے . پھر کہیں جا کر ریل گاڑی کا بندوبست ہوا اور ہم پاکستان کے لئے روانہ ہوئے. یہ ہندوؤں کا اصول تھا کہ اگر ہندؤں سے بھری گاڑی لاہورر سے آرام سے واپس آتی تو وہ لوگ مسلمانوں کی گاڑی کو سکون سے لاہور جانے دیتے تھے ورنہ امرتسر ، دریائے ستلج پر ہی بھری گاڑی تباہ کر دیتے تھے .
ایک دن ہم لوگ مال گاڑیوں میں بھر دئے گئے اور پاکستان کے لئے روانہ ہو گئے . ہم لوگوں کو بولنے کی اجازت نہیں تھی . کہ ہندو مار ہی نہ دیں . ملتان چھاؤنی پہنچ کر گاڑی روک لی گئی . اور سب سے کہا کہ یہی پر سب اتر جائیں . گاڑی سے اتر کر سب سجدہ شکر میں پاک سر زمین پر گر گئے . اب ایک نئی مشکل درپیش تھی کہ کہاں جائیں . ہم لوگ پھر فوجی چھاؤنی میں آگئے . ایک کمرے میں بہت سارے خاندان ایک ساتھ رہنے لگے .دس دن رہنے کے بعد ہم لوگ وہاں سے چلے تو دو دن خانیوال پر رکنے کے بعد میاں چنوں پہنچے//
ڈاکٹر نگہت نسیم
http://www.aalmiakhbar.com/blog/?p=5657
محترم ملک صاحب آپ کی اس تحریر سے دل بھر آیا ہے۔بس کیا کہوں ،،،یہی کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے آمین
کاش کوئی اس خون اور قربانی کی قیمت جان سکتا اور اس کے صلہ کو پہچان سکے۔
پہلے تو میں سمجھا کہ آپ میرے شہر کی کہانی ہی لکھ رہے ہیں ۔ آپ کی تحریر پڑھتے آنکھیں تو اشکبار ہونا ہی تھیں ساتھ 1947ء کے سارے مناظر میری آنکھوں کے سامنے گھوم گئے ۔ کاش اس قوم کو خدا یاد آ جائے
آپ احباب کا شکریہ ، میری تحریر ان سب کے نام ہے جوپاکستان سے بے انتہا محبت کرتے ہیں
میں بہت کچھ لکھنا چاہتا تھا مگر سب کچھ آنسوئوں میں بہہ گیا ، ہجرت ہمارے ماں پاب نے کی اور اپنا سب کچھ لٹا کر پھر پاکستان کو ہی اپنا سب کچھ بنا لیا مگر مہاجر کے نام پر سیاست کوئی کرنے لگ گئے ،مہاجر تو ہمارے ماں باپ تھے جو سب کچھ لٹا کر پیدل پاکستان پہنچے اور انہیں اس پاکستان کی قدر ہے اور جو گاڑیوں اور جہازوں میں بیٹھ کر آئے اور پاکستان کی تقدیر کے مالک بن گئے وہ پاکستان کی قدر کیا جانیں ، آج بھی کتنی مسلمان خواتین مشرقی پنجاب میں سکھوں کے بچوں کو جنم دے رہی ہیں اور رمضان اور عیدین کے موقع پر اپنے پیاروں کو یاد کر کر کے روتی ہیں مگر ہمارے حکمران بھارت کو موسٹ فیورٹ نیشن کا درجہ دینے کو تیار بیٹھے ہیں۔
جنہوں نے اس دیس کیلئے سب کچھ قربان کیا ہم اس دیس سے بھی ہجرت کرنے والے ہیں۔
ہمارے تایا ہوتے تھے اللہ جنت نصیب کرے انیس سو چھیالیس میں صوبہ بہار گئے ابھی کم سن ہی تھے۔روزگار کی تلاش میں کسی خالی مسجد کی امامت کا قصد تھا۔
جب سکھوں نے مسلمان خواتین کے پستان کاٹ کر مینار بنایا تو مولوی صاحب کو غصہ آیا اور کچھ سکھوں کو قتل کر دیا ۔
انگریز نے مولوی صاحب کے پیچھے گورکھا فوج لگا دی۔
بھاگ کر واپس صوبہ سرحد میں آگئے۔سرحد میں اس وقت سکھوں کی کافی تعداد بستی تھی۔
جہاد شروع کیا اور بتانے والے جو بزرگ حیات ہیں وہ بتاتے ہیں ۔کسی ناف پر بال والے سکھ کو نہیں چھوڑا۔ندیا ں نالے دریا سکھوں کی لاشوں اور خون سے پاٹ گئے۔
ایک بارہ تیرہ سال کی سکھ بچی نے ہاتھ جوڑ کر التجا کی مجھے نہ مارو!! مولوی صاحب نے تلوار گھمائی اور گردن اڑا دی کہ مسلمان کا خون خراب کرے گی۔اب ہمارے تایا جی کے نام پر کچھ عرصے پہلے علاقےکے لوگوں نے ایک ہائی سکول قائم کیا ہے۔
یعنی حساب دونوں طرف سے برابر رکھا گیا تھا۔
اب تو یہی دعا ہے کہ اللہ ہمارے دیس کی حفاظت کرے اور ہم سب کے مسلمان ہونے کے باوجود ،نسلی ، لسانی ،مسلکی ، غبارے سے ہوا نکال کر ہمیں سچا مسلمان اور انسان ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔
آپ کی تحریر نے مجھ بے چین کر دیا۔اللہ پاک ان پیاری ہستیوں کی قربانی رنگ لے آئے پاکستان کو ہر اعتبار سے مضبوط اور کامیاب کرے۔
اس سچی داستان نے دل کو بہت بھاری کردیا بھائی اللہ جانے یہ سوچکے آپ کی کیا حالت ہوتی ہوگی ۔ مجھے یاد ہے میں نے اس پر بنی ایک فلم دیکھی تھی جس کو دیکھ کر میں زارو قطار روئی تھی اور کئی دن تک عجیب حالت تھی ۔اللہ پاک خیر کا معاملہ کرئے ہر مسلمان کے ساتھ
اس وطن کیلئے، چاند تاروں کی اس انجمن کیلئے
ہم نے جو کچھ کیا مسلکاً فرض تھا،مسلکاً فرض تھا،
یہ دین اور یہ وطن ہمیں ہمارے بزرگوں کی بہت ساری قربانیوں کے بعد ملا جب ہم پیدا ہوئے تو یہ دین و وطن ہمیں ہوں ملا کہ جیسے نالائق ترین اولاد کو امیر ترین ، لائق فائق اور بہت محنتی پاب کے مرنے کے بعد وراثت میں بہت آسانی سے جائیداد ملتی ہے
پھر ایسی جائیداد کا کیا حال ہوتا ہے آب بخوبی جانتے ہیں
بلکل اسی طرح ہمارے وطن کے ساتھ ہو رہا ہے
ہمیں اپنے اسلاف کی بےبناہ محنت اور بے دریغ قربانیوں کا کوئی احساس نہیں تو وطن کا کیوں ہوگا
کاش ہم اور ہمارے ارباب اقتدار اس نظریے اور اس نظریے کی خاطر دی جانے والی قربانیوں کا کچھ پاس رکھ سکیں تا کہ ان شہداء کی روحوں کو کچھ سکون مل سکے جنہوں نے اس راہ میں اپنا سب کچھ وار دیا، ہمارے بہتر کل کے لیے اپنا آج قربان کر دیا تھا
ملک صاحب ھم لوگوں کو کیا پتا کہ آزادی کے لیے ھمارے بڑوں نے کتنی قربانیاں دیں کتنی ماؤں بہنوں کی عصمتیں برباد ہویں لیکن آج اس قوم نے جس مقصد کے لیے پاکستان حاصل کیا تھا اس کو بلکل نظر انداز کر دیا اور اسلام کو چھوڑ کر بربادی کو اپنا لیا ھے اللھ تعالی ھمیں ھدایت دے امین اور آپ کو خوش رکھے آمین
میرا خاندان جہاں اس جگہ بستا ہے
یہ گاؤں سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ میں اتا تھا
جو کہ بدل کر اب گوجرانوالہ ہو گیا ہے
یعنی کہ ہم وہ لوگ ہیں جن کو تقسیم کے وقت ہجرت کے مسائل جھیلنے نہیں پڑے
لیکن
سرحد کے نزدیک کی وجہ سے محاجروں کے بہت سے گھرانے ہمارے نزدیک بستے ہیں
اور بچپن سے ان کے دکھ سن سن کر کسی حد تک ہی سہی تقسم کے دکھون سے اشنا ہیں
لیکن اس بات کا بھی احساس ہے کہ
تقسیم کے دکھون پر لکھا کم گیا ہے۔
ہجرت کر کے انے والی نسل گزرتی چلی جا رہی ہے
اور پاکستا ن کے حالات اس طرح کے ہیں کہ
یہان لکھنا کوئی کام ہی نہیں سمجھا جاتا
حالنکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ
انے والی نسلوں کے لئے زادہ سے زیادہ لکھ کر رکھ دیا جاتا۔
اپ نے اپنی سی کوشش کی
اللہ اپ کو جزا دے
آہ جناب میاں صاحب
بالکل درست فرمایا ہے آپ نے کہ
یہ آزادی دراصل برصغیر کے شہدا کی بے تحاشا قربانیوں کا ثمر ہے۔ یہ پیارا پاکستان ہمیں اپنے شہدا کی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔ پاکستانن میرا پیارا پاکستان
آپ نے لکھا ہے کہ
ست سری اکال کا نعرہ لگانے والے انسانیت کو بھول گئے جو سامنے آیا اسے گاجر مولی کی طرح کاٹتے چلے گئے
اور آج؟ کیا پاکستان میں مطلوم کو انصاف، اور لاکھوں کا سازوسامان گھروں میں چھوڑ کر مہاجر بننے والوں کو تحففط
نصیب ہوچکا ہے، کیا افلاس کے ماروںن کو غربت سے نجات
مل گئ ہے، پہلے تو لوگوں کا استحصال فقط انگریز اکیلا ہی کرتا
تھا اب اس خون ریزی میں اس کا سالا بھی شامل ہو گیا ہے
بقول احمد فراز کے
جب سازِ سلاسل بجتے تھے، ہم اپنے لہو میں سجتے تھے
وہ رِ یت ابھی تک باقی ہے، یہ رسم ابھی تک جاری ہے
میاں صاحب انسان آج بھی گاجر مولی کی طرح کاٹتے جارہے
ہیں لیکن یہ الگ بات ہے کہ اب ست سری اکال کے نعرہ کی
جگہ کسی اور نعرہ نے حاصل کرلی ہے
آج بھی سینکڑوں لوگ اپنے پیاروں کے جنازے سڑکوں پر
رکھ کر احتجاج کرنے پر مجبور ہیں، لیکن انصاف تو درکنار
کوئی ان کی اشک سوئی بھی نہیں کرپاتا،
آج بھی ملک کے ہزاروں باسی اپنے ہی ملک میں محاجر ہونے
پر مجبور ہیں
ماں روتی ہے تو اس بات پر نہیں کہ اس نے یہ وطن اپنے پیاروں کی قربانی سے حاصل کیا ہے اس بات پر تو انہیں فخر
ہوگا ، رو تو وہ اس بات پر رہی ہونگی کہ روز محشر وہ اپنے
ان پیاروں کا سامنا کیونکر کر پائیں گی، کیونکہ ہم ان کی قربانی
کا ثمر پاکستان نہیں سنھبال پاے
آہ جناب میاں صاحب
بالکل درست فرمایا ہے آپ نے کہ
یہ آزادی دراصل برصغیر کے شہدا کی بے تحاشا قربانیوں کا ثمر ہے۔ یہ پیارا پاکستان ہمیں اپنے شہدا کی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔ پاکستانن میرا پیارا پاکستان
آپ نے لکھا ہے کہ
ست سری اکال کا نعرہ لگانے والے انسانیت کو بھول گئے جو سامنے آیا اسے گاجر مولی کی طرح کاٹتے چلے گئے
اور آج؟ کیا پاکستان میں مطلوم کو انصاف، اور لاکھوں کا سازوسامان گھروں میں چھوڑ کر مہاجر بننے والوں کو تحففط
نصیب ہوچکا ہے، کیا افلاس کے ماروںن کو غربت سے نجات
مل گئ ہے، پہلے تو لوگوں کا استحصال فقط انگریز اکیلا ہی کرتا
تھا اب اس خون ریزی میں اس کا سالا بھی شامل ہو گیا ہے
بقول احمد فراز کے
جب سازِ سلاسل بجتے تھے، ہم اپنے لہو میں سجتے تھے
وہ رِ یت ابھی تک باقی ہے، یہ رسم ابھی تک جاری ہے
میاں صاحب انسان آج بھی گاجر مولی کی طرح کاٹتے جارہے
ہیں لیکن یہ الگ بات ہے کہ اب ست سری اکال کے نعرہ کی
جگہ کسی اور نعرہ نے حاصل کرلی ہے
آج بھی سینکڑوں لوگ اپنے پیاروں کے جنازے سڑکوں پر
رکھ کر احتجاج کرنے پر مجبور ہیں، لیکن انصاف تو درکنار
کوئی ان کی اشک سوئی بھی نہیں کرپاتا،
آج بھی ملک کے ہزاروں باسی اپنے ہی ملک میں محاجر ہونے
پر مجبور ہیں
ماں روتی ہے تو اس بات پر نہیں کہ اس نے یہ وطن اپنے پیاروں کی قربانی سے حاصل کیا ہے اس بات پر تو انہیں فخر
ہوگا ، رو تو وہ اس بات پر رہی ہونگی کہ روز محشر وہ اپنے
ان پیاروں کا سامنا کیونکر کر پائیں گی، کیونکہ ہم ان کی قربانی
کا ثمر پاکستان نہیں سنھبال پاے
بالکل درست بات ہے۔ قیام پاکستان کے وقت مہاجرین کو جن مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہم اس کا اندازہ تک نہیں لگا سکتے محسوس کرنا تو دور کی بات ہے۔
nice
خوب بہت خوب
مصطفےٰ بیگ
اسلام آباد
برادر مکرم ! ملک غلام مصطفیٰ صاحب
السلام علیکم و رحمتہ اللہ
اللہ تعالیٰ آ پ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔وطن عزیز پاکستان جن عظیم مقاصد کے لیے حا صل کیا گیا تھا۔افسوس کہ ان مقاصد کو اب پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔اب تو نام نہاد دانشور اور مغربی ایجنڈے پر کام کرنے والے بعض لکھاری نظریہ پاکستان اور پاکستان کا مطلب کیا ؟ ۔ ۔ لا الہ الا اللہ۔ ۔سے ہی انکاری ہیں ۔اس حوالے سے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اللہ آپ کو اچھی صحت سے نوازے ۔آپ سے دعائوں کی درخواست ہے۔
والسلام
ملک محمد اعظم
راولپنڈی
دل جلنے لگتا ہے جب اپنے اسلاف کی قربانیاں دیکھیں اور آج کی آشائیں دیکھیں۔۔۔ میں نے جنگ آزادی کی بہت ساری ایسی حقیقی کہانیاں پڑھی ہیں اور میری خواہش ہے کہ ہر پاکستانی یہ حقیقی واقعات پڑھیں تاکہ اُن کو معلوم ہو کہ پاکستان کتنی قربانیوں کے بعد حاصل ہوا ہے ۔ میں مشکور ہوں جناب الطاف حسن قریشی صاحب کے کہ جن کی ادارت میں "اُردو ڈائجسٹ" کی آزادی ایڈیشن اور ماں ایڈیشن میں ایسے حقیقی واقعات سے نوجوان نسل کو روشنا کرایا۔اور ملک صاحب کا بھی شکریہ کہ اپنی والدہ کی باتیں شیئر کیں۔
خوبصورت ۔ ۔ ۔ملک صاحب ۔ ۔ ۔ضمیر کو جھنجھوڑ دینے والے ایک اندہ تحریر ۔ ۔
Bohat aalha Malik sab ..pakistan key leye humare baro nain bohat qurbani de hain kash key hum log es bat ka iashas Kare kash hum Pakistan ko bachaye kash
۔وطن عزیز پاکستان جن عظیم مقاصد کے لیے حا صل کیا گیا تھا۔افسوس کہ ان مقاصد کو اب پس پشت ڈال دیا گیا ہے
سر!!! یہ تحریر آج پڑھی، دل اشک بار ہے ،آنکھیں نم ہیں۔ مجھے اپنی نانی جان اللہ پاک ان کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطاء فرمائے، آمین ثم آمین ، مجھے ان کی یاد آ گئی،جب بھی وہ ہمیں ہجرت کی باتیں بتاتی تھیں، تو کانپنا اور رونا شروع کر دیتی تھیں۔ سات بھائیوں کی اکلوتی بہن ، اور ان کے سامنے ان کے بھائیوں کو سکھوں نے شہید کیا، کچھ کو زندہ جلا دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ پاک اس سوہنی دھرتی کو سدا قائم رکھے، ٰخوشحالی نصیب فرمائے۔ آمین
راشد ادریس رانا صاحب ، ہمارے اباؤاجداد نے اس وطن کو بنانے لئے بہت بھاری قیمت چکائی ہے مگر ہمارے حکمرانوں نے اس کوصرف لوٹا ہے ، بحر حال پاکستان قائم رہنے کے لئے بنا ہے اور انشا ء اللہ قیامت تک قائم رہے گا۔
اللہ پاک اس سوہنی دھرتی کو سدا قائم رکھے، ٰخوشحالی نصیب فرمائے۔ آمین
ایسے واقعات اور کہانیاں جب بھی اور جتنی بار پڑھیں ، دل کی کیفیت ہر بار ملول ہوجاتی ہے ۔ یہ ہماری مٹی کا المیہ ہے، ہم اس سے بھاگ نہیں سکتے، ہمارا اجتماعی ٹراما ہے، میڈیا نے بہت زور مارا کہ ایسے حقائق پہ کم بات ہو، یا یہ ذینوں سے محو کئے جاسکیں، ایسا ہوا بھی لیکن آج بھی وہ بچے جنہوں نے تقسیم کو آنکھوں سے نہیں دیکھا، وہ جب یہ سنتے ہیں تو محسوس کرتے ہیں۔
احساس موجود ہے ، اُجاگر کرنے کی کمی ہے ، اس قوم کے اندر موجود احساس کے خوف کی وجہ سے ، اس قوم کو خوابیدہ رکھنے کی تدبیریں کی جاتی ہیں
یہ بلاگی سلسلہ اس سلسلسے میں بہت خوش آئند قدم ہے ، ایک تبصرے میں 'اردو ڈائجسٹ' کی بات بھی ہوئی، وہ بھی اس ضمن میں بہت محنت سے لگے ہوئے ہیں ، ایسے اور بہت سے کاموں کی ضرورت ہے ۔۔۔
اللہ والدہ مرحومہ کو اپنی رحمت کے سائے میں جگہ دے اور آپ کو استقامت اور آسانیاں عطا کرے