پیر، 24 اگست، 2015

کریڈٹ کارڈ ، دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا

15 تبصرے
سر ، ایک ضروری بات کرنی ہے آپ سے  ؟
جی ، آجائیں ، اس نے  آہستہ سے کرسی  سرکائی اور میرے سامنے بیٹھ گیا ، آفس میں بطور اسسٹنٹ کام کرنے والا نوجوان  مجھے کئی دنوں سے پریشان نظر آرہا تھا ،اس سے پہلے کہ  میں اس سے پوچھتا ،شائد وہ خود ہی بتانے کے لئے آگیا ،
 سر ۔۔۔۔۔۔ کچھ پیسوں کی ضرورت پڑ گئی ہے ،گھر میں کچھ پریشانی ہے ، میں نے پوچھا ،کتنے ؟
جی بیس ہزار ،  جی آئندہ تنخواہ پر لوٹا دوں گا ، میں نے پوچھا کہ تمہاری تنخواہ  توپندرہ ہزار ہے تم بیس ہزار کیسے لوٹا دو گے؟
بس جی اگلے ماہ ایک کمیٹی نکلنی ہے ۔
مجھے آج ہی اہلیہ نے پچیس ہزار روپے دیئے تھے بیٹی کے اکاؤنٹ میں جمع کروانے کے لئے ، میں نے اس کی مشکل حل کرنے کے لئے اسے دراز سے بیس ہزار روپے نکال کر دے دیئے ۔اس نے میرے شکریہ ادا کرتے ہوئے  دوبارہ بر وقت ادا کرنے کی یقین دہانی بھی کروا دی ۔ ابھی وہ کمرے سے نکلا ہی تھا کہ  دوسرا اسسٹنٹ آ گیا ، کہنے لگا ،سر کتنے پیسے لے گیا ؟
کیا مطلب ۔۔۔۔۔۔۔ سر جی آپ تو بھولے بادشاہ او ، اس کا تو کام ہی یہی ہے ، کریڈٹ کارڈ بنوانے کا شوق تھا ، اب ادائیگیاں نہیں ہو رہی ہیں ، بنک والے پیچھے پیچھے اور یہ آگے آگے ، بس اب بھول جائیں اپنے پیسوں کو ، میں نے انہیں بتایا کہ وہ مجھ سے پیسے لینے نہیں بلکہ اپنے کارڈز کے سلسلہ میں مشورہ کرنے آیا تھا ۔
میں نے اسے اگلے دن بلالیا ، بھائی کیا بنا تمہاری پریشانی کا ؟ جی ۔۔ جی ، وہ    ۔۔۔ جی
بھائی مجھے اصل بات بتاؤ گے تو میں تمہاری کچھ مدد کر سکوں گا ۔ وہ چند لمحے خلاؤں میں گھورتا رہا ، اچانک اٹھ کر زمین پر بیٹھ گیا اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگ گیا  ،میرے لئے یہ غیر متوقع صور حال تھی ، سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کروں ، میں نے جلدی سے دروازہ اندر سے لاک کر دیا ، اسے حوصلہ دیا  ۔۔۔۔ بس وہ ایک ہی بات کئے جارہاتھا ، سر مجھے بچا لیں ، میرے بہت چھوٹے بچے ہیں ، میں خود کشی کر لوں گا ، میرے بچے رل جائیں گے سر ۔۔۔۔ میں نے کہا کہ بھائی حوصلہ کرو ، کچھ بتاؤ گے تو بات بنے گی ناں ،
سر ۔۔۔ میں نے ایک کریڈٹ کارڈ بنوا لیا تھا ، تین لاکھ کا ، پہلے چند ماہ تو بہت مزا آیا ، بیوی اور بچوں کو لے خوب گھومے ، اسی کے  لون پر موٹر سائیکل بھی لے لی ، پھربیوی کی بہن کی شادی تھی ، بیگم کے کہنے پر جی بھر کے شاپنگ بھی کر لی اور اس کی بہن کے لئے تحائف بھی لے لئے  ،  بیگم کہنے لگی ،بنک کا کیا  ہے ، قسطوں میں ہی تو واپس کرنا ہے ،ایک سال تک تنخواہ سے جیسے تیسے قسطیں دیتا رہا ہوں ، ایک سال بعد دیکھا ، وہ تین لاکھ تو وہیں کہ وہیں  اور الٹا کچھ انٹرسٹ اور اوپر  چڑھ گیا ہے ،تنخواہ ان کو دیتا ہوں  تو کھانے کے لئے کچھ نہیں بچتا ، ان کو نہیں دیتا تو بنک ریکوری افسران گھر  آکر گالی گلوچ کرتے ہیں ، پچھلے ماہ بیوی کا کچھ زیور بیچ کر شارٹ قسطیں جمع کروائیں تو پتہ چلا وہ ساری رقم لیٹ پیمنٹ اور جرمانوں کی مد میں جمع ہو گئی ، سر میں تباہ و برباد ہو گیا ہوں ، میں بس اب خود کشی کرلینی ہے ، میں نے اسے حوصلہ دیا ،اسے اٹھا کر کرسی پر بٹھایا اور کہا کہ پہلے پانی پیو پھر بات کرتے ہیں ،اس کو حوصلہ دیا اور اس کے چائے بنوائی۔
اس کی ساری رام کہانی سننے کے بعد میں نے اسے کہا کہ اب حوصلہ کرے ، رونے کی ضرورت نہیں ،نہ ہی پریشان ہونے کی ، بنک کے اہلکار آئیں تو انہیں پیسے جمع نہیں کروانے بلکہ  انہیں مجھ سے ملوانا ہے ،  کچھ عرصہ قبل کراچی میں ایک نوجوان کے ساتھ اسی طرح کا المناک واقعہ پیش آیا جب بنک کے  ریکوری نمائندوں نے اسے ڈرایا دھمکایا اور اس کے گھر جاکر گالی گلوچ کی جس کے نتیجہ میں اس نے خود کشی کرلی  جس عدالت عالیہ نے نوتس لیا جس کے بعد سٹیٹ بنک آف پاکستان نے یہ قوانین  لاگو کردیئے کہ بنک کا کوئی بھی نمائندہ بغیر اپنے کلائینٹ سے  ایڈوانس اپوئنٹمنٹ کے اس کے گھر یا دفتر نہیں جا سکتا ، اس کے علاوہ اس کے کسی عزیز سے پوچھ کچھ نہیں کر سکتا اور اگر اس سے ملاقات ہو بھی تو دن کے اوقات میں ہو گی ۔ اگلے ہی دن اس نے بتایا کہ بنک کا ایک نمائندہ آیا ہے میں نے اس کو ملاقات کے لئے بلوا لیا ، میں نے ان سے پوچھا کہ کیا تم نے اسٹیٹ بنک کے قوانین کا مطالعہ کیا ہے ، تم کس بنیاد پر اس کو اور اس کے گھر والوں ں کو ڈرا دھمکا رہے ہو ،جائیں ہم رقم ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ، آپ اپنے بنک کو بتا دیں کہ وہ بنکنگ کورٹ میں ہمارے خلاف دعویٰ کر دے ۔آپ نے ایک شریف آدمی کی ساری جمع پونجی بھی لوٹ لی ہے اور اسے ڈرا دھمکا بھی رہے ہو، ہم الٹا تمہارے خلاف کیس بنوائیں گے ، اسے بات کی سمجھ آ گئی ، اس نے اجازت لینے میں ہی عافیت جانی ،میں نے اسے کہا کہ اگر آپ نے اپنی رقم واپس لینی ہے تو کوئی پلان بنا کر لے آئیں،ہم اپنی سہولت کے مطابق آپ کو رقم واپس کردیں گے کیونکہ یہ ہمارے ذمہ ہے مگر آئندہ دھونس نہیں چلے گی ۔
"کریڈٹ کارڈ ایک شیطانی چال ہےلوگوںکوپھنسانےکی ،اس کا انجام صرف ڈیفالٹر کی شکل میں سامنے آتا ہے
اس وقت پاکستان میں ان ڈیفالٹرز کی تعداد لاکھوں میں ہوگی جو بے چارے گھر پر "نہیں ہوتے" فون پر "نہیں ہوتے" اور آفس یا کاروبار پر "نہیں ہوتے" کیونکہ ان سب کو بنک کے ہرکاروں کا ڈر ہوتا ہے جو کہلاتے تو ریکوری افسر ہیں لیکن دراصل " بھائی لوگ" یا "کن ٹٹے" ہوتے ہیں"
کریڈٹ کارڈ ایک دھوکہ کا نام ہے جس کے چکر میں ہزاروں لوگ اپنے گھر برباد کر چکے ہیں کیونکہ ایڈوانس رقم بغیر کسی محنت میں  حاصل ہوتی اس لئے اسی طرح خرچ ہو جاتی ہے ، پھر انسان  اس کی ادائیگی کرنے لے لئے اور اور کریڈٹ کارڈ بنوا لیتا ہے پھر اس کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے تو پھر دوستوں سے ادھا ، گھر کی اشیاء ، بیوی کے زیور تک بکنے کے لئے آجاتے ہیں مگر ادائیگیاں نہیں ہوتا اور انسان سود درسود کی دلدل میں دھنستا ہی چلا جاتا ہے ، پھر اگر بات عدالتوں تک چلی جائے تو وکلاء کے اخراجات ، پیشیوں پرپورے پورے دن کا ضیاع ،پھر سزا اورگرفتاری کا  خطرہ ۔
پھر اس کا حل کیا ہے ، بس اس کا حل یہی ہے کہ اپنے اخراجات کو محدود رکھیئے ، سود کو اللہ رب العزت نے اپنے سے جنگ قرار دیا ہے تو پھر کون اللہ سے جنگ جیت سکتا ہے،اس لئے سود سے بچیں لیکن اگر آپ اس چنگل میں پھنس چکے ہیں تو گھبرانے کی بجائے  ، ان کو ماہانہ ادائیگیوں کی بجائے کسی وکیل سے مشورہ کریں ، بنک والوں کے پاس آپ کو ڈارنے دھمکانے یا بلیک میل کرنے کا اختیا نہیں ، ان سے وعدہ کیجیئے ، ادائیگیوں کا پلان بنوائیں  ، یکمشت ادائیگی میں بنک تیس فیصد سے زیادہ چھوٹ دے دیتا ہے ،وہ بھی اصل زر میں سے ، سود سارا معاف ہو جاتا ہے ،تین یا چار قسطوں میں بھی بنک مان جاتا ہے اور چھوٹ بھی دے دیتا ہے،اگر بنک عدالت میں بھی چلا جائے تو عدالتیں حسب معمول پانچ پانچ سال لگا دیتی ہیں فیصلے کرنے میں ،ایسے میں کہیں نہ کہیں سے ، کوئی چھوٹی موٹی کمیٹی دال کر رقم کا بندوبست کریں اور جس موڑ پر چاہیں بنک کو کچھ لے دے کر اپنی چان چھڑوالیں کیونکہ سود بہت بری چیز ہے سب کچھ کھا جاتی ہے ،بس یاد رکھیں ڈرنا نہیں ،ایک غلطی کر لی  اب دوسری غلطی نہ کریں ،بنک سے براہ راست بات کریں لیکن  پہلے ہی چھوٹی چھوٹی قسطوں میں انہیں ادائیگی نہ کریں 

پیر، 17 اگست، 2015

17 اگست 1988 ء کی خون آشام شام

5 تبصرے
سترہ  اگست 1988ءکی شام آٹھ بجے تھے ، میں اپنے دوست کے ہمراہ لاہور سے واپس آرہاتھا ، تب لاہور فیصل آباد کا سفر بھی تین گھنٹہ سے زیادہ طویل ہوتا تھا اس لئے کوچز شیخوپور ہ گزرنے کے بعد مانانوالہ کے قریب ایک چھپڑ ہوٹل پر ضرور رکتی تھیں اور مسافر چائے وغیرہ پی لیتے تھے ۔ کوچ کے رکتے ہی چائے والے کی پہلی آواز جو کانوں میں پڑی وہ یہ تھی "ضیاء الحق کا طیارہ تباہ"مسافروں کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا ،اک عجیب سی خاموشی پھیل گئی ، خبر ہی ایسی تھی کہ کسی کو یقین ہی نہیں آرہا تھا ۔دراصل ہم نے ایسے ماحول میں آنکھ کھولی جہاں جمہوریت تھی ہی نہیں ،1977ء کے عام انتخابات کے بعد اس وقت کی حکومت کے خلافانتخابات میں دھاندلیکروانے پر تحریک کا آغاز ہوا جو بعد میں مشہور زمانہ تحریک نظام مصطفیٰ   کا روپ اختیار کرگئی ،اس وقت ہم ساتویں یا آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے،جلسے جلوسوں کا شوق تھا ، روز انہ کی بنیاد پر جلوس نکلتا تھا ، پھر ایک دن گولی بھی چلی ، دو افراد اپنی جان سے بھی گئے ۔جنازے پر بھی پولیس نے ہوائی فائرنگ  کی ، بھٹو صاحب جو ان دنوں وزیر اعظم تھے  ، انہیں ایک انتہائی ظالم اور جابر انسان بنا کر پیش کیا جاتا تھا اس لئے سب لوگوں کی  ہمدردیاں تحریک کے ساتھ تھیں ، ایسے میں جب تحریک کے راہنماؤں اور بھٹو صاحب کے درمیان مزاکرات عروج پر پہنچے تو  ضیاالحق صاحب قوم کے نجات دہندہ بن کر آ گئے ، بھولی  بھالی قوم کو لگا جیسا طوفان رک گیا ،ملک میں امن و امان ہو گیا ، ویسے بھی ہم نے بڑوں سے سنا تھا کہ فوج کے آنے پر ہی اب امن ہو سکتا ہے ۔پھر ضیا صاحب ہی اس کے ملک مرد آہن بنگئے، اسلامائزیشن کا عمل شروع ہوگیا ،ملک کے سرکاری ٹی وی اور ریڈیو پر سارا دن کے گن گائے جاتے اور بھولی بھالی قومسب بھول کر ان کے گن گانے لگی ۔ہم لڑکپن سے جوانی کا فسر بھی شروع کر چکے مگر ان کا اقتدار تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لینا  چاہتا تھا ، سارا دن مرد مومن مرد حق کی صدائیں ہی آتی رہتیں ۔ان کےاقتدار کی طوالت پر تو فیصل آبادی جگت بازوں نے بڑے بڑے لطیفے بنا رکھے تھے ،ضیا صاحب ہر دو تین ماہ بعد سرکاری یڈیو ٹی وی  پرقوم سے خطاب کیا کرتے تھے ، کسی نے ایک فیصل آبادی سے پوچھا " بھائی صدر صاحب کا اقتدار کب ختم ہو گا ، اس نے جواب دیا ،آپ کو پتہ ہے وہ ہر دو تین ماہ بعد قوم سے خطاب کرتے ہیں اور اس چند آئتیں بھی پڑھتے ہیں ، اب حساب لگا لو پورا قرآن کتنے وقت میں ختم ہو گا"۔ کسی کا اتنا طویل اقتدار اور بھی آمر کا ، اس لئے جب ان کے طیارہ تباہ ہونے کی خبر سنی تو عجیب سا دھجکا لگا ،شائد کسی اتنے بڑے آدمی کی اس موت پہلی دفعہ سنی تھی ، اب تو دہشت گردی کی اس لہر نے بڑے بڑے نام نگل لئے ہیں ۔پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ قوم کی ان سے محبتکی نشانی تھی کیونکہ انہوں نے کچھ کام ایسے ضرور کئے جنہیں بھلایا نہیں جا سکتا ۔وہ ایک سچے عاشق رسول تھے ، روس کو اس کی سرزمین پر شکست اور پاکستان میں اسلامائزیشن کا عمل ان کے ایسے کارنامے ہیں جن پر فخر کیا جا سکتا ہے ۔ ان کے زمانہ میں تو صرف سرکاری ٹی وی تھا ، آج جب تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو صحافیوں ، ٹریڈیونین اور  طلبا تنظیموں کے نمائندوں پر حکومتی جبرو تشدد ، کوڑوں کی سزائیںایک ایسی کالک ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ان کی رحلت کے دو تین برس بعد اسلام آباد میں ان کی قبر پر جانے کا اتفاق ہوا ،میرے لئے اپنی زندگی میں ایک تجربہ تھا ، میں اپنے احساسات کو بیان نہیں کر سکتا کیونکہ جس شخص کو ہم نے اپنے بچپن سے جوانی تک اپنے پورے جلال میں دیکھا ،اس کی قبر پر جا کر جو احساس ہوا اس کو بیان کرناہی میرے لئے مشکل ہے ، وہ اب دنیا میں نہیں ہیں دعا ہے کہ اللہ کریم ان کو مغفرت کرے ۔

اتوار، 9 اگست، 2015

کپل آف فیصل آباد

8 تبصرے
 منفرد رہنے کی خواہش بعض اوقات انسان کو بہت دور تک لے جاتی ہے اور کچھ لوگ اس کے لئے کچھ ایسا بھی کر جاتے ہیں جو عام زندگی میں ممکن نہیں ہوتا ، بعض لوگ پہاڑیوں کی چوٹیوں سے چھلانگ لگا دیتے ہیں اور بعض اپنی شادی کی تقریبات گہرے پانیوں میں منعقد کروا کے اپنے آ پ کو دنیا سے منفرداور ممتاز  نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایسے ہی لوگوں میں ایک جوڑا فیصل آباد میں بھی رہائش پزیر ہے جو سماجی تقریبات میں ایک جیسا لباس پہن کر شرکت کرتے ہیں اور اپنی انفرادیت کو برقرار رکھنے کے لئے اس کو مزید بہتر سے بنانے کے لئے کو شاں رہتے ہیں ۔ان کی اس انفرادیت کو دیکھتے ہوئے زندہ دلان فیصل  آباد نے انہیں "کپل آف فیصل آباد" کے  خطاب سے نواز رکھا ہے۔مسٹر اینڈ مسز ناصر حسین فیصل آباد کے رہائشی ہیں ، ناصر حسین کی جناح کالونی میں پلاسٹک کی کرسیوں اور دیگر سامان کی شاپ ہے ، اس سے قبل وہ الیکٹرنکس کا کامبھی کرتے تھے ۔ساٹھ سالہ ناصر حسین  اور شگفتہ ناصرتین جوان بیٹوں کے  والدین ہیں ۔ناصر حسین کا کہنا ہے کہ وہ اکثر فیصل آباد آرٹس کونسل کے زیر اہتمام ہونے والی سماجی تقریبات میں شرکت کرتے رہتے تھے ،ہماری ہر تقریب میں اکھٹے شرکت  پر ہمیشہ ہماری حوصلہ افزائی کی جاتی جس پر انہوں نے سوچا کہ کچھ ایسا کیا جائے جس پر ہماری انفرادیت قائم ہو ۔
میں نے اور میری اہلیہ نے فیصلہ کیا کہ ان سماجی تقریبات میں ایک جیسا لباس پہن کر شرکت کی جائے  تو پھر ہم نے ایک رنگ ،کڑھائی اور ڈیزائن کے لباس کا استعمال شروع کر دیا ۔شروع شروع میں ہمیں مذاق کا نشانہ بھی بنایا گیا مگر ہم اپنے اس عزم پر قائم رہے اور آہستہ آہستہ  ہماری یہ انفرادیت ہی ہماری اور ہمارے شہر کی پہچان بن گئی  پھر 2005ء میں ہونے والی ایک تقریب میں فیصل آباد کے شہریوں نے اپنی محبتوں سے نوازتے ہوئے ہمیں "کپل آف فیصل آباد" کے اعزاز دے دیا جو ہمارے لئے باعث فخر ہے ۔اسی اعزاز کی بنیاد پر پھر ہم نے  مختلف ٹی وی پروگراموں اور بیرون ملک اپنے شہر کی نمائندگی کی ۔انہیں اس پر بے حد خوشی ہے کہ وہ جہاں بھی جاتے ہیں لوگ انہیں  ان کے شہر کے نام سے پہچانتے ہیں ، لوگ ان کے ساتھ تصاویر کھنچواتے ہیں ،آٹو گراف لیتے ہیں  ۔

منگل، 4 اگست، 2015

لہو لہو اگست ، لہو لہو آزادی

2 تبصرے
ہم اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو پاکستان معرض وجود آنے کے ابتدائی بیس سالوں میں پیدا ہوئے ، ہوش سنبھالا تو قیام پاکستان کو کم و پیش پچیس سال گزر چکے ہوں گے ، بیس پچیس سال اتنا عرصہ نہیں ہوتا کہ انسان اپنے اوپر گزرے دکھ کو بھول جائے پھر وہ زمانہ ایسا تھا کہ کوئی اور ایسی دلچسپی نہیں تھی کہ جس کے ذریعے دکھ کم ہو سکے ۔ ٹی وی ،موبائل ، ویڈیو گیمز ،سوشل میڈیا کا تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا ،صرف شہروں میں بجلی تھی،دیہات اس سے بھی محروم تھے ،تفریح کا واحد ذریعہ ریڈیو تھا جو بھی ہر کسی کو آسانی سے دستیاب نہیں تھا۔جب کچھ اور دلچسپی نہ ہو تو پھر سوائے مل بیٹھ کر پرانی یادوں اور بیتے دنوں کو یاد کرنا ایک ذریعہ رہ جاتا ہے ۔ہوش سنبھالنے پر سب سے پہلا احساس اپنی ماں کی کٹی ہوئی انگلیوں اور چہرے پر ایک بہت بڑے زخم کے نشان کو دیکھ کر ہوا کہ آخر یہ کیا ہے، کیسے اتنے بڑے زخم آئے ، جس چیزکاذکر بار بار اپنی ماں سے

منگل، 28 جولائی، 2015

بچپن کی عید

6 تبصرے
محترم  بلاگر ڈاکٹر اسلم فہیم صاحب نے  بچپن کی عید کی یاد تازہ کرنے کے لئے فیس بک پر باقاعدہ ایونٹ رکھ دیا ، احباب کو بھی دعوت دی کہ اس موضوع پر لکھیں ، روائتی سستی کے باعث کئی دفعہ لکھنے کی کوشش کی مگر مصروفیات نے وقت ہی نہ دیا ۔ آج فیس بک پر ہمارے ہر دلعزیز دوست  اور دیار نبی ﷺ کی مستقل رہائشی محترم محمد اقبال مغل نے اپنی بچپن کی عید کی یادیں شیئر کیں تو واقعی یادوں کا دریچہ کھل گیا   ۔ یہی سب کچھ ہمارے بچپن میں ہوتا تھا ۔ آج کل کے بچوں کے پاس تو  بہت سی عیدی اور بہت سی سہولیات ہیں ،  آئیے لطف اندوز ہوتے ہیں بھائی اقبال مغل کی بچپن کی عید کی یادوں سے   

جمعہ، 3 جولائی، 2015

بچپن کا رمضان

13 تبصرے
محترم شعیب صفدر گھمن نے ایک نئی روائت کا آغاز کیا اور پھر احباب کو بھی حکم نامہ صادر فرمایا کہ اپنے پہلے روزے کے متعلق لکھا جائے اور پھر ان کے حکم پر ڈاکٹر اسلم فہیم،نعیم خان اورمحترمہ کوثر بیگ اور کچھ دوسرے احباب نے بھی لکھا اور ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی ترغیب دی ، شعیب صاحب کی طرح محترم نعیم خان اور داکٹر اسلم فہیم نے تو باقاعدہ حکم نامہ جاری فرمایا کہ ہرصورت لکھا جائے ۔کئی دنوں سے کوشش میں تھا کہ کچھ لکھ سکوں ،سوچنے بیٹھتا تو یادوں کا سلسلہ ایک ایسی شخصیت تک چلا جاتا کہ کہ گھنٹوں گزر جاتے اور اور کچھ بھی نہیں لکھا جاتا ۔ بچپن کہ بارے میں سوچتے ہی اولین یاد ماں ہوتی ہے اور ماں کی یاد آجائے تو باقی ساری یادیں بھول جاتی ہیں ،سلسلہ کہیں سے شروع ہوتا ہے اور چلا کہیں اور جاتا ہے ،ایسے ہی ہوا اور کچھ لکھا نہیں جا سکا ۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب کچھ کچھ ہوش سنبھالی تو ان دنوں شدید سردیوں میں روزے تھے،تب نہ تو گھر اتنے بڑے تھے اور نہ اتنی سہولتیں تھیں ۔کچھ یاد آتا ہے کہ ایک سال شدید ضد کی یہ میں نے بھی روزہ رکھنا ہے مگر ماں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ بچوں کا تو چڑی روزہ ہوتا ہے،اللہ تعالیٰ بچوں سے بہت پیا ر کرتے ہیں اس لئے بچے اگر ایک دن میں دو دفعہ بھی رکھ لیں تو اللہ میاں ناراض نہیں ہوتے مگر دل کہتا کہ یہ سبھی بہلاوے کی باتیں ہیں اگر ایک دن میں دو رکھے جا سکتے تو یہ سب کیوں دو نہیں رکھتے۔وہ سال گزر گیا تو آئندہ سال شب برات کی آمد پر ہی ہم نے ضد شروع کر دی کہ اس سال روزہ ضرور رکھنا ہے،تب شب برات کی آمد اس امر کا اعلان سمجھا جاتا تھا کہ روزوں کی تیاری کر لیں اور میری ماں اس دن کا روزہ رکھتی تھی اور شام کو حلوہ پوری کے ساتھ کھولا جاتا تھا ۔رمضان شروع ہوا تھا تو ہماری ضد بھی عروج پر پہنچ گئی ،ماں نے ہماری ضد کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔بس اتنا یاد ہے کہ ماں نے سحری کے وقت گردن سے پکڑ کر اٹھایا اور وہیں کلی کرنے کے لئے پانی فراہم کردیا ،رضائی سے نکلنے کی اجازت نہیں ملی ۔وہیں ہمیں پراٹھا اور دہی فراہم کر دیا گیا اور ماں نے اپنے ہاتھوں سے ہمیں نوالے بنا کر دیئے ،ساتھ چائے کی پیالی منہ کو لگا دی اور حکم دیا کہ سو جاؤ ۔صبح سو کر اٹھے تو حسب عادت ناشتہ طلب فرمایا تو ہمیں یاد کروایا گیا کہ ہمارا روزہ ہے اور اب بھول کر بھی کوئی چیز نہیں کھانی ، شدید سردیاں تھیں ماں نے سارا دن گھر سے بھی باہر نہیں نکلنے دیالیکن بھوک تو بھوک ہوتی ہے ،کچھ لگی بھی روئے بھی اور ماں سے جھڑکیاں بھی وصول کیں،ماں نے سارے محلہ کو بتایا کہ آج میرے بیٹے نے روزہ رکھا ہے اور شام کو سارا محلہ اکھٹا ہوا مبارک باد دینے کے لئے اور والد محترم میرے لئے میری پسندیدہ مٹھائی گرما گرم جلیبیاں لے کر آئے جس سے میں نے افطاری کی لیکن اگلے رمضان تک روزے رکھنے کی اجازت نہ ملی ،پھر نہیں یاد پڑتا کہ کبھی روزہ چھوڑا ہو کیوں کہ جن بچوں کے روزوں کی ابتدا سردیوں میں ہوتی ہے ان کی روزے رکھنے کی عادت پختہ ہو جاتی ہے ، گرمیوں میں بچوں کو روزے رکھنے نہیں دیئے جاتے جس پر انہیں آئندہ زندگی میں مشکل ہی لگتے ہیں ۔اللہ کریم ہم سب کو رمضان المبارک کی سعادتیں سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے ، اللہ کریم میری ماں کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے جن کی تربیت سے میں روزے رکھنے کے قابل ہوا ۔

منگل، 2 جون، 2015

جدوجہد آزادی کشمیر کے قافلہ سالار سید صلاح الدین سے ایک ملاقات

1 تبصرے
سید صلاح الدین جدوجہد آزادی کشمیر کے قافلہ سالار ہیں ،ساری جوانی اسی دشت کی صحرائی میں گزار دی،ان کی زندگی کا ایک ہی مشن ہے کہ کشمیر آزاد ہوکر پاکستان کا حصہ بن جائے ،سری نگر کے رہنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ سید صلاح الدین نے دنیا کے ہر فورم پر کشمیریوں کا مقدمہ لڑا اور اس جدوجہد میں قید وبند کی صعوتیں بھی برداشت کیں ،گزشتہ 21سال سے پاکستان میں جلاوطنی زندگی گزار رہے ہیں ،جدوجہد آزدی کشمیر کی مرکزی تنظیم متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ بھی ہیں ۔گزشتہ دنوں فیصل آباد تشریف لائے تو ایک نشست میں ان سے گفتگو کا موقع ملا ۔ان کی پاکستان سے بے پناہ محبت کا یہ عالم ہے کہ اپنی بات کو پاکستان سے شروع کرتے ہیں اور پاکستان پر آکر ہی ختم کرتے ہیں۔پاکستان کے بگڑتے ہوئے اندرونی حالات پر بے حد پریشان تھے مگر حالیہ دنوں میں مقبوضہ کشمیر کی گلیوں سبز ہلالی پرچم لہرائے جانے کی اطلاعات پر انتہائی خوش نظر آئے ۔انہوں نے کہا کہ مستحکم پاکستان مقبوضہ کشمیر کے عوام کی آرزو ہے،ہر روز سری نگر کی گلیوں میں پاکستانی پرچم لہرا کر مقبوضہ کشمیر کے عوام ایک نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں ، کشمیر یوں نے سری نگر کی گلیوں بازاروں میں پاکستانی پرچم لہرا کر عوام نے عالمی اداروں کو پاکستان سے اپنی بے پنا ہ محبت اور وابستگی کا پیغام دیا ہے، آج بھی کشمیری ہر خوشی کے موقع پر پاکستان کا پرچم پورے کشمیر میں لہرا کر مناتے ہیں،16مئی کو پورے مقبوضہ کشمیر میں عوام نے ترنگا کی بجائے سبز ہلالی پرچم لہراکر بھارت کے چہرے پر کالک ملی ہے۔ پاکستان کی بقاء کشمیر کی آزدی سے وابستہ ہے،بھارت 68برس میں بھی فوجی طاقت اور کشمیریوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھا کر ان کی آواز کو نہیں دبا سکا۔ بھارت نے پاکستان کے وجود کو ابھی تک تسلیم نہیں کیا وہ اکھنڈ بھارت کے نعرے لگاتاہے ۔ بھارت ہمارا ازلی و ابدی دشمن ہے جس نے اب تک پاکستان پر تین جنگیں مسلط کی ہیں اور 71 ء میں اس نے پاکستان کو دولخت کیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی اداروں نے بھارت کے مقبوضہ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ ، کشمیریوں کے قتل عام اور وہاں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور کشمیریوں کو اقوا م متحدہ کی قرار دادوں کی منظوری کے بعد بھی ان کو حق خود ارادیت کے حق سے محروم رکھ کر یہ عالمی ادارے و عالمی طاقتیں برابر کی مجر م ہیں۔پاکستان کی موجودہ عسکری اور سیاسی قیادت کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی خوش آئند ہے کہ کشمیر کے معاملہ میں پوری قیادت اور قوم یکسو ہے ،اب اقوام متحدہ بھی اپنی قراردودوں پر عمل در آمد کرواتے ہوئے کشمیریوں کو بھارت سے حق خود ارادیت لے کر دے،متحدہ جہاد کونسل کو دہشت گرد قرار ددلوانے کے لئے یو این او جانا مودی سرکارکی ناکامی کا اعتراف ہے ہم مذاکرات کے مخالف نہیں مگر بھارت مذاکرات کے نام پرجہاد کشمیر کوسبوتاژ کرنا چاہتا ہے ۔۔انہوں نے کہا کہ بھارت سے تجارت اور غیر مشروط دوستی کا دم بھرنے والے شہداء کشمیر کے مجرم ہیں۔آج بھی کشمیری نوجوان’’ کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کا نعرہ لگا کر سینے پر گولیاں کھا رہے ہیں،کشمیر میں 6ہزار اجتماعی قبریں ساڑھے پانچ لاکھ افرد شہید،ہزاروں خواتین کی عصمت دری اور اب تک کشمیریوں کی اربوں روپے کی املاک بھارتی قابض فوج کے ہاتھوں تباہ ہو چکی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ قائد اعظم کے فرمان کے مطابق کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے جبکہ بھارت پاکستان کی شہہ رگ سے خون چوس رہا ہے۔بھارت کشمیر میں بیٹھ کر پاکستان کی طرف بہنے والے دریاوں کا رخ اپنی جانب موڑ کر پاکستان کر بنجر کردینے کے منصوبے کی تکمیل کے قریب پہنچ چکا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ورکنگ باؤنڈری پر دیوار برلن کی طرز پر 145کلو میٹر طویل دیوار برہمن کی تعمیر بھارتی پاکستانی حکومت کے دوستی کے خواب کو چکنا چوراور بین الاقوامی و بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کر رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ بھارت کے مقبوضہ کشمیر پر ناجائز تسلط کے خلاف یک آواز ہو کر جس جدوجہد کو وہ لے کر چل رہے ہیں ، انشاء اللہ ایک دن ان کی یہ کوششیں رنگ لائیں گی اور انہیں جلد آزادی نصیب ہو گی۔انہوں نے کہا کہ بھارت مذاکرات کے نام پر عالمی قوتوں کو دھوکہ دے رہاہے ،مسئلہ کشمیر کا واحد حل اقوام متحدہ کی قرادادوں پر عمل درآمد کرتے ہوئے مظلوم کشمیریوں کا حق خود ارادیت دینا ہے ،پاکستان سے محبت کشمیریوں کے خون کا حصہ ہے ، پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کا مسئلہ کشمیر پر ٹھوس موقف سے کشمیریوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں ،وہ دن دور نہیں جب کشمیر آزاد ہو کرپاکستان کا حصہ بنے گا ۔سید صلاح الدین نے کہا کہ بھارت ،اسرائیل اور امریکہ عالم اسلام کے سب سے بڑے دشمن ہیں اور امت مسلمہ کو پارہ پارہ کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں ، پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرکے اس کے ایٹمی وسائل پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں لیکن مجاہدین کشمیر ایسی کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے ۔انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کاخون اتنا سستا نہیں کہ آلو، پیاز اور ٹماٹر کی تجارت کے لیے اس کو فراموش کر دیا جائے ۔
تصویر بشکریہ : شاہدمحمود

بدھ، 14 جنوری، 2015

محسن رفیق بٹ بھی چل بسے ! آہ وہ جو محسن بھی تھے اور رفیق بھی

4 تبصرے
کل حافظ صفوان صاحب کی ایک پوسٹ سے ان کی ناگہانی رحلت کا علم ہوا ،میر ا بٹ صاحب سے فیس بک پر کافی عرصہ سے بڑا گہرا تعلق تھا اور میرے باغبانی بلاگ سے متاثر ہو کر انہوں نے کچن گارڈننگ شروع کی تھی اور چھت پر بڑے پودے لگا ئے تھے ، اکثر مجھے کہتے کہ آپ ایک دفعہ آکر دیکھیں تو سہی ان کے ساتھ پروگرام بھی بنا کہ گوجرانوالہ میں کچن گارڈننگ پر ورکشاپ کروائی جائے گی۔ بہت درد دل والے سچے ،محب وطن اور دین سے محبت رکھنے والے انسان تھے۔ فیس بک ایک ایسا فورم ہے جہاں کوگ جتنی تیزی سے آتے ہیں اتنی ہی تیزی سے چلے جاتے ہیں مگر کچھ احباب ایسے بھی جن سے بالکل ذاتی تعلق بن جاتا ہے،بٹ صاحب انہیں لوگوں میں سے تھے۔پاکستان سے محبت ان کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی،اکثر گروپس اور فورمز پر پاکستان پر ہونے والی مباحث کے دوران جذباتی ہو جاتے تھے،بڑی خواہش تھی کہ ان سے ملاقات ہو جائے مگر شائد نصیب میں نہیں تھی۔ 
"عجب آزاد مرد تھا حق مغفرت کرے "

اللہ کریم ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ( آمین)
فیس بک پر میں نے ان کی وفات کے حوالہ سے پوسٹ کی تو درجنوں احباب نے ان کے لئے دعائے مغفرت کی اور تعزیت کا اظہار کیا ،۔چند ددسرے احباب نے اپنی پوسٹوں میں انہیں خراج عقیدت پیش کیا ، میں سمجھتا ہوں یہ بھی ہمارے لئے ایک نعمت ہے کہ فیس بک کے ذریعے ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوجاتے ہیں۔
مزید فیس بک احباب کے تاثرات شیئر کر رہا ہوں۔
بڑے باغ و بہار آدمی تھے۔ تھوڑی تھوڑی خوشیوں میں بہت خوش رہنے والے۔ ہر سیاسی جماعت سے نالاں،ان کے سب سے زیادہ تحفظات صرف پی ٹی آئی سے ہیں کیونکہ یہ نان سیریس لوگوں کی جماعت ہے۔ ان کے دبنگ کومنٹس کے جواب میں بعض دوست ناراض ہوتے تو میں انھیں سمجھاتا کہ چاچو محسن رفیق کو ہماری محبت کی ضرورت ہے۔ ان سے اور ان کے تجربے سے سیکھیں اور اختلاف کو بہت دور تک نہ لے جائیں۔ اللہ کا شکر کہ بیشتر لوگوں نے میری بات مان لی۔ میں جب بھی دیکھتا کہ وہ سیریس ہو رہے ہیں، میں انھیں ہنسانے کی سوچی سمجھی کوشش کیا کرتا تھا۔
کبھی کوئی زور دار کومنٹ کرتے یا کسی کی ٹھیک ٹھاک خدمت کرتے تو فواً انباکس میں لکھتے ،
حافظ جی۔۔۔ کوئی اور خدمت ہمارے لائق؟۔ ان کی بیشتر باتیں درست نکلتیں کیونکہ وہ ایک بھرپور زندگی گزارے ہوئے تھے۔
ایک بار میں نے لکھا کہ آپ لوگوں سے لڑتے رہتے ہیں، کیا لڑنے کے لیے چاچی کافی نہیں؟ جواب دیا کہ اب تو وہ بھی نہیں لڑتی یار، میں نے پوچھا کہ چاچی کو کسی طرح مسلمان کیا؟ جواب دیا، بیمار شیمار رہ کے۔ اب تو میرا یوں خیال رکھنے لگی ہے جیسے کبھی اپنے نو مولودوں کا رکھا کرتی تھی۔۔۔ لگتا ہے ڈاکٹروں نے اسے کوئی خوشخبری سنا دی ہے میرے بارے میں۔ لمبی بات ہوئی۔ آخر میں میں نے کہا کہ اللہ آپ کو صحت دے چاچو، تاکہ چاچی ایک بار پھر ایکشن میں آجائے۔ ایسی بے شمار باتیں ان سے ہر ہفتے عشرے ہو جاتی تھیں۔
بھائی ندیم اختر اور حضرت قاری حنیف ڈار صاحب کا بہت تذکرہ کرتے تھے۔ ان سے ملاقات نہ ہونے کا غم ساتھ لے گئے۔ اکثر اصرار سے کہا کرتے تھے کہ کبھی گوجرانوالہ آؤں تو ضرور ملوں لیکن یہ موقع نہ بن سکا۔ ان کا چڑوں کا ناشتہ کرانے کا پروگرام دھرے کا دھرا رہ گیا۔ ان کے کچن گارڈن کی تصویریں بھی اب نظر نہیں آئیں گی۔
پچھلے دنوں بڑی سادگی سے بچی کی شادی کی، بے حد خوش تھے،کچھ عرصے سے فون پر گفتگو میں وقفے آنے لگے تھے۔ وجہ ان کی گرتی ہوئی صحت تھی۔ سوچ رہا تھا کہ آج کل میں فون کروں گا لیکن آنا جانا لگا رہا اس لیے یکسو نہ ہو سکا۔
ایک پربہار اور جی دار بندہ اپنے رب کے حضور پہنچا۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت میں بلند مقام عطا فرمائے۔ آمین۔



ندیم اختر :
سر جی یقین کریں کہ جب معلوم ہوا تو اسقدر دکھ ہوا کہ پوچِھیں نہ۔ جب بھی گوجرانوالہ گیا ہوں، وائف نے ہمیشہ کہا کہ اپنے دوست سے مل آئیں لیکن ہمیشہ اپنی سستی اور وقت کی کمی آڑے آئی، ہمیشہ اس سے کہا کہ چلو اگلی دفعہ مل لوں گا ، کون جانتا ہے کہ اگلی دفعہ آئے گی بھی یا نہیں۔



جب بھی گوجرانوالہ میں بارش ہوتی تھی آپ تصویروں کے ساتھ پوسٹ کیا کرتے ،انکی کچن گارڈن کی گوبھی اور گونگلو کی تصویر یاد رہے گی اور عیدپر پائے بنانابھی۔
تطہیر عزیز :
فیس بک احباب کی طرف سے مجھے یہ تیسرا بڑا دھچکہ پہنچا ہے۔ میرے احباب میں سے میرے دو اولین بزرگ محمد یاسر کلیم ، سید زیدی مجھ سے بچھڑ کر خالقِ حقیقی سے جاملے۔ ان کی شفقت و محبت ان کی یاد ہمیشہ تازہ رکھتی ہے اور آج یہ تیسرا بڑا دھچکہ مجھے انکل کی طرف سے ملا ہے۔ حمزہ نے جب میرے کسی پوسٹ پر محسن انکل کی وفات کا تذکرہ کیا تو پہلے تو میرے ایک دم سے سناٹا چھا گیا ، میں نے کمنٹ دوبارہ پڑھ ، خبر وہی ، الفاظ وہی۔۔۔۔۔ دل ماننے سے انکاری ، میں اْن کی وال پر گئی تو تعزیت سے بھری پڑی تھی۔۔
ایسا لگ رہا ہے جیسے کوئی اپنا بچھڑ گیا۔ انسان کو جن سے محبت ملتی ہے وہ بار، بار اور ہر بار اْن کی جانب لپکتا ہے۔ محسن انکل بہت اچھے اور نہایت وسیع مطالعہ انسان تھے ،نون لیگی تھے لیکن ان کے کافی سٹیٹس ایسے بھی پڑھے جن میں نون لیگ اور حکومت پر بے لاگ تبصرہ کیا گیا تھا۔ وہ پی ٹی آئی نوجوانوں کی بدتر اخلاقیات سے کافی نالاں رہتے تھے۔ کچھ عرصہ قبل کا واقعہ ہے کہ وہ ایک بھائی کی وال پر سٹیٹس پڑھ کر غصہ ہوگئے اور ان کا غصہ جائز بھی تھا کیونکہ ماں بہن کی عزت و تکریم ہم پر واجب ہے چاہے وہ مریم نواز ہو یا بختاور۔۔۔ ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ان کی عزتیں اچھالیں۔وہ کوکنگ اور باغبانی سے خاص شغف رکھتے تھے۔ ان کا خلاء میں ہمیشہ محسوس کروں گی ، اللہ پاک سے دعا ہے کہ ان کے درجات بلند فرمائے اور سوگواران کو صبر عطا کرے۔ آمین 
بے شک یہ سب کے لیے ہی ایک بہت بڑا صدمہ ہے لیکن کوشش کریں گے ایصالِ ثواب کا اہتمام کیا جائے۔
یہ لکھتے ہوئے دل اداس ہے کہ وہ ہم میں نہیں رہے ،مسلم لیگ کے لئے ہمیشہ فرنٹ فٹ پہ کھیلنے والے یہاں تک کہ فاؤل کھیلنے میں بھی عار نہیں سمجھتے تھے،میری ان سے بڑی لڑائیاں ہوئیں،پھر کوئی ان کا دوست ان باکس میں انکی بیماری کے باے میں بتاتا اور ہاتھ ہولا رکھنے کو کہتامیں کبھی چپ ہوجاتی اور کبھی دوست کو ہی مشورہ دیتی کہ چاچے کو سمجھائیں اس حد تک تکلیف دہ نہ ہوا کریں
بہرحال اللہ انکی مغفرت کرے ،موت ہم سب کی گھات میں ہے ،اپنے اپنے ضمیر کے سامنے گر ہم مطمئن ہیں تو ٹھیک ہے 
اللہ ہم سب پر رحم کرے ،چاچا خوش قسمت تھے ،اپنے لوگوں میں ،اپنے گھر میں اللہ کے پاس چلے گئے 
ہم ہر روزبے چہرہ موت کے شکارجوان اور بچے دیکھتے ہیں ،اللہ ہمارے حال پررحم فرمائے .چاچا کو اپنی رحمت سے ڈھانپ لے ،اسکی رحمت سب سے بڑا سہارا ہے ۔ آمین
خاور رانا :
آہ وہ جو محسن بھی تھے اور رفیق بھی، 
چپکے سے ساتھ چھوڑ گے 
وہ کتنے بردبار تھے، 
اکثر و بیشتر دوست احباب انہیں اپنی تنقید کے نشتر چبھوتے رہتے تھے لیکن وہ ہر تلخ و شیریں کو خندہ پیشانی سے لینے کے عادی تھے، وہ ہر قسم کی تنقید سے بے نیاز اپنی صلاحیتوں کے مطابق سوشل میڈیا کے آسمان پر اپنی اڑان بھرنے کے عادی تھے، کتنا تدبر تھا ان کی سوچ میں، وہ ہم سوشل میڈیا والوں کا مان تھے، اللہ کریم انہیں غریق رحمت فرماے اور لواحقین کو صبر جمیل عطاء فرمائے ۔ امین یا رب العالمین




.