اتوار، 26 جنوری، 2014

مریم سجاد کو انصاف مل گیا ، شکریہ سوشل میڈیا

2 تبصرے

ایک سال پہلے فیصل آباد کے ایک درندہ صفت ڈاکٹر پروفیسر رسول چوہدری نے غلط آپریشن کر کے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں بی ایس سی پلانٹ بریڈنگ اینڈ جنیڈر نگ انجینئر نگ میں تیسرے سال اور پانچویں سمسٹر کی طالبہ اور وزیر اعلی پنجاب کی سکیم کے تحت لیپ ٹاپ ہولڈر مریم سجاد کو عمر بھر کے لئے معذور کر دیا ، میں نے بھی اس پر بلاگ لکھا اور سوشل میڈیا پر مہم بھی چلائی ، فیصل آباد کے پریس نے  اس معصوم بچی کا بھر پور ساتھ دیا ، ہم لوگ اگر چہ اس کو  اس کا صحت مند جسم واپس تو نہ دلا سکے مگر اس ڈاکٹر کو کیفر کردار تک پہنچانے میں ان کی ضرور مدد کی جس کے نتیجہ میں  پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن نے ڈاکٹر پروفیسر رسول چوہدری کی پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کی ممبر منسوخ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی تاحیات مراعات ، پنشن وغیرہ ضبط کر کے  متاثرہ بچی کو دینے کا حکم دیا ہے جبکہ  الائیڈ ہسپتال کی انتظامیہ کو بھی غفلت کا مرتکب پائے جانے پر ایک لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ پاک اس معصوم بچی کو صحت کاملہ عطا فرمائے ، میں فیصل آباد کی صحافی برادری کا بھی مشکور ہوں جنہوں نے اس کیس کو ہائی لائٹ کیا اور سوشل میڈیا پر موجود ان  ہزاروں احباب کا بھی مشکور ہوں جنہوں نے میرے بلاگ کو فیس بک ، ٹویٹر  پر شیئر کیا ، وہ احباب جنہوں نے اسے میرے بلاگ سے کاپی کر کے اپنے اخبارات میں چھاپا اور اس معصوم بچی کو انصاف کا حصول ممکن ہوا،اگر چہ  یہ  سب کچھ مریم کا وہ سب نہیں  لوٹا سکتے جو اس نے کھو دیا لیکن  توقع کی جا سکتی ہے شائد  ان سزاؤں پر عمل درآمد سے ان انسان کے لبادے میں چھپے ہوئے بھیڑیوں میں کچھ کمی آ سکے۔

جمعرات، 23 جنوری، 2014

ذرا سوچئے ! کب ہمارے حالات بدلیں گے

3 تبصرے
یہ تحریر 2013کی جنوری میں  اپنے سابقہ بلاگ پرلکھی تھی،تب بھی موسم اتنا ہی سرد تھا ، یہی خون کو جمادینے والی سردی اور یہی حادثہ ، اسی طرح لوگ میتوں کو لئے بیٹھے تھے ، آج ایک سال گزر گیا ، ایک حکومت آئی چلی گئی،دوسرے بھی سات ماہ گزار چکے ہیں ، نہ بدلے تو ان غریبوں کے حالات نہ بدلے، ان کی زندگیاں محفوظ نہ ہو سکیں۔آج پھر یہ اپنے پیاروں کی لاشیں لئے لئے بیٹھے ہیں۔ ذرا سابق تحریر کو پڑھیئے ، سوچئے ! کب ہمارے حالات بدلیں گے



یا میرے مولا کیا تیرے ہاں بھی ان حکمرانوں کے لئے استشنا ء ہے ؟
By Mustafa Malik on جنوری 13, 2013
کوئٹہ میں رگوں میں اتر جانے والی سردی ہے، درجہ حرارت منفی آٹھ سے بھی بڑھ چکا ہے. معصوم بچے اور باپردہ خواتین گزشتہ تین دن سے اپنے بیاسی بے گناہ پیاروں کی لاشیں لئے بیٹھے ہیں۔ایسا احتجاج تو شائد معلوم تاریخ میں کہیں نہ ہوا ہو۔اس نے ملک کے کونے کونے میں موجود ہر انسان کو ہلا کر رکھ دیا

پاکستان کی تاریخ کا دردناک احتجاج ہے بےحس حکمران خاموش تماشا ئی بنے ہوئے ہیں ۔ کب ان کی غیرت جاگے گی کب تک ہم یونہی بے گناہوں کے جنازے اٹھاتے رہیں گے۔ سینکڑوں لوگ لاشوں کو لے کر دھرنا دیے بیٹھے ہیں اور وہ پکار پکار کر پوری قوم کو اپنی بے بسی سے آگاہ کررہے ہیں ان کی آواز میں آواز ملانا پوری قوم کا فرض ہے ۔ آج وہ جس اذیت سے دوچار ہیں اگر ان کا ساتھ نہ دیا گیا تو کل دوسرے صوبے میں بھی لوگ میتیں اٹھانے پر مجبور ہوں گے ۔ پوری قوم شہدا کے خاندانوں سے مکمل یکجہتی اور دلی تعزیت کا اظہار کرتی ہے ۔ وفاقی حکومت کو ان کے مطالبات پر عمل کرتے ہوئے فوری طور پر ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جن سے عوام کے اعتماد کو بحال کیا جاسکے

یا میرے مولا کیا تیرے ہاں بھی ان حکمرانوں کے لئے استشنا ء ہے ؟





پیر، 6 جنوری، 2014

میرا قاضی بابا

1 تبصرے
رات کا آخری پہر تھا ، سیل فون کی گھنٹی سے میں نیم غنودگی کی حالت میں یک دم چونک کر اٹھا ، بیٹی کی کال تھی ۔۔ یا اللہ خیر اس وقت آنے والی کال کبھی خیر کی خبر نہیں لاتی۔ میں نے آن کیا ہی تھا میرے سلام سے پہلے اس کی آواز آئی ۔ابو جی !!!!!! کیا ہوا بیٹا ، ابو جی! ٹی وی پرقاضی بابا کے انتقال کی خبر چل رہی ہے۔ میں نے کہا بیٹا یہاں تو لائٹ آف ہے ،آپ دوبارہ غور سے پڑ ھو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تو کافی دیر سے دیکھ رہی ہوں ۔۔۔۔۔ اچھا میں پتہ کرتا ہوں۔ میں نے فون بندکردیا ، مجھے ایسے لگا یہ لوڈ شیڈنگ کا اندھیرا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ واقعی دور کہیں اندھیرا چھا گیا ہے۔ بیٹی کی بات پر یقین نہیں آرہا تھا ، بجلی تھی کہ آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی،کس سے تصدیق کروں۔۔ کچھ دیر بعد احباب کی ایس ایم ایس آنا شروع ہوگئے،بابا واقعی چلا گیا۔ قاضی صاحب پاکستان کی سیاست کا ایک ایسا روشن ستارہ تھے جو آنے والوں کے لئے مینارہ نور ثابت ہوں گے۔اقتدار کے ایوانوں سے افغانستان کے سنگلاک پہاڑوں تک ہر جگہ اپنی دیانت داری ، شرافت، بردباری اور اخلاق کی ایسی مثالیں چھوڑ گئے ہیں جنہیں لوگ رہتی دنیا تک بطور مثال پیش کیا کریں گے۔ میں اپنی زندگی میں ن لوگوں سے بے حد متاثر ہوا ان میں قاضی بابا کا نام سر فہرست ہے بلکہ قاضی صاحب کی طلسماتی شخصیت ہی تھی جو مجھے جماعت کے قریب لے کر آئی۔میری والدہ کے انتقال پر میرے گھر خود تشریف لائے ، لوگ انہیں دیکھ کر حیران رہ گئے ،اتنی بڑی شخصیت اور اتنی سادگی۔2008 میں جماعت اسلامی کے مینار پاکستان پر کل پاکستان اجتماع عام کے موقع پر ان کی اختتامی تقریر ہو رہی تھی ۔میں پریس انکلوژر میں موجود تھا،مغرب کا وقت قریب تھا کہ اچانک انہوں نے کہا کہ میرے عزیزو! اب انشا ء اللہ جنت میں ملاقات ہوگی۔ میں نے پاس کھڑے دوست سے کہا یار، بابا جی تو بہت بڑی بات کہہ گئے ہیں۔پتہ نہیں کسی کو سمجھ بھی لگی کہ نہیں،قاضی کا اپنے ان لاکھوں بیٹوں سے بچھڑنے کا وقت آ گیا ہے، پھر جب انہوں نے اگلے امیر جماعت بننے سے معذرت کی تو لگا کہ ولی اللہ کو اپنے جانے کا وقت معلوم ہو گیا ہے۔قاضی صاحب جیسے لوگ روز روز پیدا نہیں ہوتے ۔ بنی اکرم ﷺ اور امت مسلمہ سے محبت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی،انہوں نے اپنی زندگی امت مسلمہ کے اتحاد کے لئے وقف کر رکھی تھی۔ان کی المناک رحلت سے قوم ایک محب وطن اور امت مسلمہ کا درد دل رکھنے والے مدبر اورزیرک سیاست دان سے محروم ہو گئی ۔ پاکستان کی سیا ست میں ان کا لازوال کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور ملکی سیاست پر ان شخصیت کے انمٹ نقوش ہمیشہ موجود رہیں گے۔ پاکستان میں امانت،دیانت اور شجاعت کی سیاست کا ایک باب بند ہوگیا ہے،ملک میں قیامِ امن،اور اتحاد امت کے لیے ان کے کردار کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی اللہ کے دین کی سربلندی کی کوششوں میں گزاری۔وہ اتحاد امت کے داعی تھے۔وہ ملک میں یکجہتی اور بھائی چارے کے فروغ کیلئے کوشاں رہے۔اختلافات رکھنے والے مختلف مکاتب فکر کے افراد کو انہوں نے ایک لڑی میں پرویا۔ان کی زندگی سادگی ،قناعت اور محنت سے عبارت تھی۔وہ اتحاد و اخوت کے علمبردار رہے۔ پاکستان میں امن،سیاسی استحکام اور اسلامی نظام کا نفاذ ان کی شدید خواہش تھی۔ اللہ پاک ان پر اپنی کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔

قاضی حسین احمد کی پہلی برسی پر
.