منگل، 23 اپریل، 2013

الیکشن 2013 ،آخر ووٹ کس کو دیں ؟

2 تبصرے


 گزشتہ شب ٹی وی پر ایک خاتون اینکر نے الیکشن پر روڈ شو کر تے ہوئے ایک بزرگ سے پوچھا " با با جی ووٹ کس کو دینا ہے" بابا جی نے بڑے تلخ لہجہ میں جواب دیا کسی کو بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے تئیں دانشورخاتون اینکر کہنے لگیں با با جی ووٹ تو ایک امانت ہے۔ با با جی نے بڑے نفرت بھرے لہجہ میں جواب دیا " تو کیا اب میں اپنی امانت کسی بےامان کے سپرد کر دوں" ۔ واقعی اس وقت ہم سب کے سامنے سب سے بڑا مسلئہ یہی ہے کہ ووٹ آخر کس کو دی جائے۔ حالیہ انتخابات میں مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف ایسی جماعتیں ہیں جنہوں نے چاروں صوبوں میں اپنے امیدوار کھڑے کئے  ہیں جبکہ ایم کیو کیو ایم ،جے یو آئی،اے این پی اپنے اپنے علاقوں تک محدود ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ پانچ سال تک جنہیں ہم جھولیاں بھر بھر کر بد دعائیں دیتے ہیں الیکشن کے موقع پر جھولیاں بھر بھر انہیں ووٹ دیتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی نے اس ملک کا جو حال کیا وہ سب کے سامنے ہے ۔ اگرچہ اس بار ن لیگ کا بہت زور شور ہے مگر نواز شریف نے  امیر مقام جیسے پرویز مشرف  کے مخلص ساتھی سے لے کر ق لیگ سے آنے والے ہر اس بندے کو قبول کرلیا جودس سال تک آمر کا حصہ رہا دوسری طرف تبدیلی اور یوتھ کا نعرہ لے کر آنے والے عمران خاں نے بھی اپنے دیرینہ ساتھیوں کو چھوڑ کر ن لیگ اور پی پی سے آنے والوں کو ہی ترجیح دے کر اپنے مخلص ساتھیوں کو مایوس کیا ہے۔ سوچنے کی بات ہے جو لوگ صرف اقتدار حاصل کرنے کے لئے ہر طرح کے لوٹوں کو اپنا رہے ہیں وہ کل کس طرح ہمارے مفادات کا تحفظ کریں گے ۔ پھر آخر کیا کریں کس کو ووٹ دیں یہ سوال بہت پریشان کرتا ہے کون اس قابل ہے میرے خیال میں  اگر ہم سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر اپنے حلقہ کے امیدواروں کے ماضی پر نظر دوڑائیں ، دیکھیں ماضی میں کس کا کیا کردار رہا ہے کس کس نے ملکی دولت لوٹی ہے ،کس نے کرپشن کی ہے اور کون واقعی 62 اور 63 پر پورا اترتا ہے تو ہمیں یقیناً آسانی ہو جائے گی ۔ کہتے ہیں ایک دفعہ سمندر کی ایک بپھری ہوئی لہر ہزاروں مچھلیوں کو ساحل پر تڑپتا چھوڑ کر واپس چلی گئی ۔ ایک نوجوان نے ان مچھلیوں کو دوبارہ زندگی  دینے کے لئے انہی دوبارہ سمندر میں پھینکنا شروع کر دیا  تو قریب سے گزرتے ہوئے ایک فلسفی نے کہا کہ نوجوان تھاری اس کوشش سے کیا ہو گا ؟ نوجوان نے ایک مچھلی کو دم سے پکڑا اور سمندر میں پھینکتے ہوئے کہا کہ لو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کو تو فرق پڑ گیا ناں ! اس لئے ہمیں اپنے حصہ کی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے ۔ ہم جب اپنے رب کے حضور پیش ہوں گے تو فخر سے کہہ سکیں گے کہ ہم نے اپنی امانت اہل فرد کو دی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ہم نے اپنے حصہ کا کردار ادا کر دیا تھا ۔۔۔۔۔۔  

ہفتہ، 20 اپریل، 2013

لو جی ہمارا بلاگ بھی سوہنا ہو گیا

13 تبصرے

 قلم سے کی بورڈ تک  پہنچنے میں کئی سال لگ گئے مگر اس کے باوجود  کمپیوٹر سے رشتہ صرف "ان پیج" تک ہی محدود رہا ۔ عرصہ سے  بلاکنگ کے بارے میں مضمون پڑھتے رہے مگر اس شیطانی چرخہ کمپیوٹر سے مناسب شد بدھ نہ ہونے کی وجہ دوری کا سامنا کرنا پڑا، جب بھی کبھی کسی سے بات ہوتی تو یہی پیغام ملتا " بس جی آپ کے لئے خاصا مشکل ہے" ۔ ایسے ایک دن سرچنگ کے دوران ایم بلال ایم تک رسائی ہوئی تو لگا کسی اپنی ہی دنیا میں آ گئے ہیں اس کے بلاگ پڑھ کے پھر اندر سے وہی خواہش دوبارہ ابھری کہ اب انشاء اللہ یہاں کچھ کر کے دکھائیں گے اور اس کی تحریریں پڑھ کے ایک کچا پکا بلاگ ہم نے بھی ورڈ پریس پر کھڑا کر لیا ۔اب جب لکھنے کا شوق پورا ہونے لگا تو تو دوسرے ساتھیوں کے خوبصور ت انداز میں بنے بلاگ  ہماری کمپیوٹر سے لاعلمی کا مذاق اڑاتے مگر پھر جی میں آتا کہ ایک دن ایسا بھی بن ہی جائے گا۔ چند ماہ پہلے لاہور میں ہونے والی دوروزہ عالمی اردو بلاگرز کانفرنس میں شمولیت کا اعزاز حاصل ہوا تو وہاں ملک بھر سے آئے معروف بلاگرز سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا ،ایم بلال ایم،شعیب صفدر،شاکرعزیز،نجیب پردیسی،خرم ،کاشف نصیر اور بہت سے دوسرے احباب سے ملاقات ہوئی تو اپنی اس کم علمی کا رونا رویا تو سب احباب نے "حسب توفیق"مدد کی حامی بھری۔ بحرحال شاکر عزیز نے پہلے کچھ راہنمائی کی اور ورڈ پریس کو بلاگ سپاٹ میں کنورٹ کر کے دیا پھر محترم بلال نے خاصا کام کر کے دیا اور اب آخر میں برادرم اصغر ساجد نے سونے پر سہاگہ والا کام کیا اور آج الحمداللہ ہم بھی ایک عدد خوبصورت بلاگ کے مالک بن چکے ہیں     ،دیکھئے اور تبصرہ فرمائیے۔آپ کی آراء کا منتظر رہوں گا۔

اتوار، 14 اپریل، 2013

الیکشن 2013 ، انتخابی مہم کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال

1 تبصرے

پاکستان میں آئندہ انتخابات کے حوالے سے انتخابی مہم بھرپور طریقے سے جاری ہے اور پہلی بار سیاسی جماعتیں انتخابی مہم کے لئے بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا کا استعمال کر رہی ہیں ۔ اگرچہ سوشل میڈیا پر پارٹیوں کی مقبولیت کامیابی کی ضامن تو نہیں ہے لیکن ملک کے پڑھے لکھے نوجوانوں اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کا آسان ذریعہ ہے ۔ پاکستان میں سماجی رابطے کی ویب سائیٹ فیس بک استعمال کرنے والوں کی تعداد 80 لاکھ ہے جس میں سے زیادہ تر کی عمر 36 سال سے کم ہے اسی طرح سے 20 لاکھ افراد سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویئٹر استعمال کرتے ہیں سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ کا استعمال کرنے والے افراد ی اکثریت پڑھی لکھی ہے ۔ سیاسی جماعتیں سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس کے ذریعے اپنی جماعتوں کی سرگرمیوں ، منشور ، نعروں اور لیڈروں کی تصاویر کے زریعے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہیں ۔ جس سے عوام کو ان جماعتوں کے بارے میں جاننے کا موقع ملتا ہے سیاسی جماعتوں سے ہٹ کر انتخابات 2013 ء میں حصہ لینے والے مختلف جماعتوں کے امیدواران انفرادی طور پر بھی سوشل میڈیا کا استعمال کر رہے ہیں جن میں شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والے امیدواران کی اکثریت ہے ۔ سوشل میڈیا کے ذریعے سیاسی جماعتیں لوگوں کے سوالوں کے جواب بھی دیتی ہیں اور اپنے منشور اور نعروں کے حوالے سے عوام میں آگاہی پیدا کرتی ہیں ۔ ماہرین کے مطابق سوشل میڈیا پاکستان میں ایک طاقت کے طور پر ابھرا ہے اور اس طاقت کو ملکی سطح پر سیاسی جماعتوں نے محسوس کرتے ہوئے اپنایا ہے پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے ۔ نوجوان سماجی رابطوں کی ویب سائیٹوں کے ذریعے سیاستدانوں کا موازانہ بھی کرتے ہیں اور اپنے امیدواران اور سیاستدانوں کے حق میں دلائل دے کر ایک دوسرے کو قائل کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں


جمعہ، 12 اپریل، 2013

ٹکٹ دینے کا نام نہاد جمہوری تماشہ

1 تبصرے
 تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے مرکزی دفاتر میں امیدواروں میں
ٹکٹ دینے کا نام نہاد جمہوری تماشا لگا رکھا ہے جو پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی کا باعث بن رہا ہے۔ سب سے پہلے تو درخواست کے نام پر ان سیاسی جماعتوں نے کروڑوں روپیہ اکٹھا کر لیا ہے اور رزق حلال کھانے والے ایک عام آدمی پر الیکشن کی درخواست دینے کا دروازہ ہی بند کر دیا ہے۔ ٹکٹوں کی بندر بانٹ کے اس انداز سے تو ملک پر چند سو سرمایہ دار جاگیردار خاندانی الیکشن باز ہی مسلط رہیں گے۔ یورپی جمہوری ممالک میں ہر سیاسی جماعت کے ٹکٹ کا فیصلہ ہر حلقہ کے پارٹی کارکن کثرت رائے سے کرتے ہیں، بے شک وہ کوئی عام آدمی ہو۔ لیکن پاکستان میں ہر بڑی سیاسی جماعت پر ایک ہی سیاسی خاندان کا آمرانہ قبضہ ہے۔ ان سیاسی آمروں نے ہر حلقہ پر ایک موروثی سیاسی الیکشن باز خاندان کا قبضہ کروایا ہوا ہے۔ ان کے علاوہ کسی عام کارکن کو ٹکٹ مل ہی نہیں سکتا۔ یہ کہاں کی جمہوریت ہے؟

بدھ، 3 اپریل، 2013

سیکولر بھارت کا مکروہ چہرہ ، غیرملکی سیاح خواتین سے جنسی زیادتی کے واقعات

0 تبصرے
بھارت میں خواتین کے ساتھ پیش آنے والے جنسی زیادتی کےمسلسل واقعات نے ملک کی بڑی سیاحتی صنعت کو شدید متاثر کیا ہے۔ اس حوالے سے وہاں کاروباری حلقوں میں شدید تشویش پائی جا رہی ہے۔ گزشتہ تین ماہ سے بھارت میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات مسلسل بین الاقومی ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیاں بن رہے ہیں جس کی وجہ سے بھارت میں خواتین سیاحوں کی آمد میں 35 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ بھارتی ایوان صنعت و تجارت کی جانب سے جاری کیے گیے اعدادوشمار کے مطابق بھارت میں سیاحتی سرگرمیوں میں مجموعی طور پر 25 فیصد کمی آئی ہے۔ تعطیلات کیلئے بھارت آنے والے غیر ملکی سیاح اب دیگر ایشیائی ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں پچھلے سال کے متعلقہ عرصے کی نسبت ہندوستان کا سفر کرنے والے سیاحوں کی تعداد میں پچیس فی صد کمی ہوئی ہے۔ یہ اطلاع برطانوی اخبار “دی گارڈین” نے ہندوستان کے متحدہ ایوان برائے تجارت و صنعت کی طرف سے کرائی گئی اس رائے شماری کے حوالے سے دی ہے جس میں بارہ سو ہندوستانی ٹریول کمپنیوں نے حصہ لیا۔ ہندوستان کا سفر کرنے والے خواتین سیاحوں کی تعداد میں پینتیس فی صد کمی ریکارڈ کی گئی ہے جس کی وجہ جنسی حملے کا خوف ہے۔ گزشتہ سال ماہ دسمبر میں پیش آنے والے اجمتاعی آبروریزی کے واقعہ کے بعد بہت زیادہ سیاحوں نے ہندوستان جانے سے انکار کر دیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد کم ازکم چھہ
غیرملکی خواتین نے پولیس میں جنسی زیادتی کی رپورٹ کی ہے۔
.