skip to main |
skip to sidebar
گزشتہ شب ٹی وی پر ایک خاتون اینکر نے الیکشن
پر روڈ شو کر تے ہوئے ایک بزرگ سے پوچھا " با با جی ووٹ کس کو دینا ہے"
بابا جی نے بڑے تلخ لہجہ میں جواب دیا کسی کو بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے تئیں دانشورخاتون اینکر کہنے لگیں با با جی ووٹ تو ایک امانت ہے۔ با با جی نے
بڑے نفرت بھرے لہجہ میں جواب دیا " تو کیا اب میں اپنی امانت کسی بےامان کے
سپرد کر دوں" ۔ واقعی اس وقت ہم سب کے سامنے سب سے بڑا مسلئہ یہی ہے کہ ووٹ
آخر کس کو دی جائے۔ حالیہ انتخابات میں مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی
اور تحریک انصاف ایسی جماعتیں ہیں جنہوں نے چاروں صوبوں میں اپنے امیدوار کھڑے
کئے ہیں جبکہ ایم کیو کیو ایم ،جے یو آئی،اے این پی اپنے اپنے علاقوں تک
محدود ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ پانچ سال تک جنہیں ہم جھولیاں بھر بھر کر بد دعائیں
دیتے ہیں الیکشن کے موقع پر جھولیاں بھر بھر انہیں ووٹ دیتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی نے
اس ملک کا جو حال کیا وہ سب کے سامنے ہے ۔ اگرچہ اس بار ن لیگ کا بہت زور شور ہے
مگر نواز شریف نے امیر مقام جیسے پرویز مشرف کے مخلص ساتھی سے لے کر ق
لیگ سے آنے والے ہر اس بندے کو قبول کرلیا جودس سال تک آمر کا حصہ رہا دوسری طرف
تبدیلی اور یوتھ کا نعرہ لے کر آنے والے عمران خاں نے بھی اپنے دیرینہ ساتھیوں کو
چھوڑ کر ن لیگ اور پی پی سے آنے والوں کو ہی ترجیح دے کر اپنے مخلص ساتھیوں کو
مایوس کیا ہے۔ سوچنے کی بات ہے جو لوگ صرف اقتدار حاصل کرنے کے لئے ہر طرح کے
لوٹوں کو اپنا رہے ہیں وہ کل کس طرح ہمارے مفادات کا تحفظ کریں گے ۔ پھر آخر کیا
کریں کس کو ووٹ دیں یہ سوال بہت پریشان کرتا ہے کون اس قابل ہے میرے خیال
میں اگر ہم سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر اپنے حلقہ کے امیدواروں کے ماضی
پر نظر دوڑائیں ، دیکھیں ماضی میں کس کا کیا کردار رہا ہے کس کس نے ملکی دولت لوٹی
ہے ،کس نے کرپشن کی ہے اور کون واقعی 62 اور 63 پر پورا اترتا ہے تو ہمیں یقیناً
آسانی ہو جائے گی ۔ کہتے ہیں ایک دفعہ سمندر کی ایک بپھری ہوئی لہر ہزاروں مچھلیوں
کو ساحل پر تڑپتا چھوڑ کر واپس چلی گئی ۔ ایک نوجوان نے ان مچھلیوں کو دوبارہ
زندگی دینے کے لئے انہی دوبارہ سمندر میں پھینکنا شروع کر دیا تو قریب
سے گزرتے ہوئے ایک فلسفی نے کہا کہ نوجوان تھاری اس کوشش سے کیا ہو گا ؟ نوجوان نے
ایک مچھلی کو دم سے پکڑا اور سمندر میں پھینکتے ہوئے کہا کہ لو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کو تو
فرق پڑ گیا ناں ! اس لئے ہمیں اپنے حصہ کی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے ۔ ہم جب اپنے
رب کے حضور پیش ہوں گے تو فخر سے کہہ سکیں گے کہ ہم نے اپنی امانت اہل فرد کو دی
تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے اپنے حصہ کا کردار ادا کر دیا تھا ۔۔۔۔۔۔
بروقت رہنمائی کا شکریہ ، بے شک ضمیر کی آواز پر ووٹ دینا ہی اس پیچیدہ مسئلے کا حل ہے
جب تک تھانے اور کچہری میں عدل نہیں ہو گا ووٹ انہیں ہی پڑے گا جو قانون کو موم کی ناک کی طرح موڑنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ سو سمپل