پیر، 2 ستمبر، 2013

ایک باپ کا اپنی شہید بیٹی کے نام خط

6 تبصرے
 ڈاکٹر بلتا جی مصر کے ان منتخب رہنماؤں میں سے ایک ہیں جنہیں عوام کا اعتماد حاصل ہے۔مصر میں  جاری تحریک میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ڈاکٹر محمد بلتا جی کی سترہ سالہ معصوم بیٹی اور میڈیکل کی طالبہ عاصمہ ال بلتا جی بھی شہید ہو گئیں۔ اپنی بیٹی کی شہادت کے بعد ڈاکٹر محمد بلتا جی نے اسے ایک خط لکھا ہے،  جو ایک باپ کا اپنی سے محبت کا اظہار  تو ہے مگر اس عظیم  بیٹی کے باپ کا اپنی تحریک  اور مقصد سے بے پنا لگاؤ کا آئینہ دار بھی ہے۔ یہ وہ خط ہے جسے لاکھوں کے مجمع میں پڑھتے ہوئے ترکی کے صدر جناب طیب اردگان  بھی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور زارو قطار رو پڑے۔
اس خط کا اردو ترجمہ مندرجہ ذیل ہے۔ ’’
میری پیاری بیٹی عاصمہ میں تمہیں الوداع نہیں کہتا۔ میں یہ کہتا ہوں کہ کل ہم دوبارہ ملیں گے۔ تم نے ہمیشہ سر اٹھا کر زندگی بسر کی اور ظلم و جبر کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا۔ تم نے ہمیشہ آزادی سے محبت کی۔ تم نے اپنی قوم کی تعمیر نو اور دنیا میں اسے ایک منفرد مقام دلانے کے لئے فکر کے نئے افق تلاش کئے۔ تم نے مروجہ خیالات و افکار کو اپنے دل میں جگہ نہیں دی۔ حتیٰ کہ روایتی علوم بھی تمہاری خواہشات کی تکمیل کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنے۔ تم ہمیشہ اپنی جماعت میں پہلے نمبر پر فائز رہیں۔ تمہاری اس مختصر زندگی میں ، میں بھی تمہیں زیادہ وقت نہیں دے سکا۔ افسوس میرے پاس ہمیشہ وقت کی کمی رہی اور میں تمہارے قیمتی نظریات سے زیادہ مستفید نہیں ہو سکا۔ آخری مرتبہ ہم دونوں رابعہ العدویہ سکوائر پر اکٹھے بیٹھے تھے۔ تم نے مجھ سے پوچھا تھا: ’’آپ آج ہمارے ساتھ ہیں لیکن پھر بھی مصروف ہیں‘‘ ۔میں نے جواباً کہا تھا : ’’ایسا لگتا ہے اس زندگی میں باپ بیٹی کی ملاقاتیں بہت کم ہوں گی میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ جنت میں دوبارہ ہمارا ساتھ ہو۔ تمہارے قتل سے تین راتیں پہلے میں نے تمہیں خواب میں دیکھا کہ تم نے شادی کا سفید جوڑا پہن رکھا ہے اور تم حسن کا مجسمہ لگ رہی تھیں۔ مجھے لگا جیسے تم کسی ایسی چیز کی تمنا کر رہی ہو،جو بہت کم لوگوں کا مقدر بنتی ہے۔ اور پھر جب میں نے تمہاری شہادت کی خبر سنی تو میرا یقین پختہ ہو گیا کہ تمہاری تمنا نے حقیقت کا روپ دھار لیا ہے۔ اور خدا نے تمہاری روح کو شہید کے طور پر قبول کر لیا ہے۔ تم نے میرے اس اعتقاد کو راسخ کر دیا کہ ہم لوگ حق کے راستے پر گامزن
ہیں جبکہ ہمارا دشمن جھوٹا اور منافق ہے۔ یہ میرے لئے بہت درد ناک لمحہ تھا جب تمہارے سفر آخرت کے دوران میں موجود نہیں تھا۔میں تمہیں آخری بار نہیں دیکھ سکا۔کیا یہ میرے لئے کم اذیت ناک ہے؟ مجھے تمہاری نماز جنازہ پڑھوانے کا بھی اعزاز حاصل نہ ہو سکا جس سے میرے غم کی شدت میں مزید اضافہ ہوا۔ میری پیاری بیٹی میں خدا کی قسم کھا کرکہتا ہوںکہ مجھے موت کا کوئی خوف نہیں تھا اور نہ ہی اس شخص سے جو انصاف کی دھجیاں اڑا رہا ہے میں تو اس پیغام کو آگے لے کر چلنا چاہتا تھا جو تمہاری روح کے ساتھ ساتھ چلا اور جو ہم سب کا مقصد حیات بن گیا، کیونکہ انقلاب کی تکمیل ازبس ضروری ہے۔ اب تمہارے سر کے ساتھ تمہاری روح بھی ایک قابل فخر مقام حاصل کر چکی ہے، جس نے ظالموں اور جابروں کی زبردست مزاحمت کی۔ غداری کی بندوق سے نکلی ہوئی گولیاں تمہارے سینے میں پیوست ہو گئیں۔میں پراعتماد ہوں کہ تم نے دیانت داری اور خلوص سے خدا کے احکامات کی تکمیل کی اور پھر خدا نے ہم میں سے تمہیں شہادت کے مرتبے پر فائز کرنے کے لئے منتخب کیا۔میری پیاری بیٹی میں آخر میں تم سے ایک بار پھر وہی کہوں گا۔ ’’میں تمہیں الوداع نہیں کہتا میں یہ کہتا ہوں کہ ہم بہت جلد اپنے پیارے نبی صلی اللہ الیہ وسلم اور ان کے رفقاء کے ساتھ جنت میں ملیں گے جہاں ہماری ایک دوسرے سے زیادہ سے زیادہ ملاقاتوں کی خواہش کی تکمیل ہو گی۔

6 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

.