اتوار، 16 جون، 2013

فادرز ڈے ، بیٹیاں وفاؤں جیسی ہوتی ہیں

33 تبصرے

آج 16جون کو دنیا بھر میں فادرز ڈے منایا جارہا ہے،صبح آنکھ کھلی تو سب سے پہلا ایس ایم ایس بیٹی کی طرف سے آیا ہوا تھا ، ہمیشہ کی طرح سب سے پہلے کی ضد میں رات بارہ بجے تک جاگتی رہی ہوگی کہ ابو کو پہلا ایس ایم ایس اس کی طرف سے ہی جائے ۔ تب کہیں پڑ ھی ایک حکائت یاد آگئی،آپ بھی پڑہیں
                                                شادی کی پہلی رات شوہر اور نئی نویلی دلہن نے فیصلہ کیا کہ صبح کوئی بھی آئے ہم دروازہ نہیں کھولیں گے۔صبح سب سے پہلے شوہر کے والدین نے دروازے پر دستک دی ،دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور معاہدہ کے مطابق کوئی بھی دروازہ کھولنے کے لئے نہیں اٹھا،  چند گھنٹے بعد ہونے والی دوسری دستک شوہر کی بہن کی تھی مگر اس نے اپنے دل پر جبر کرتے ہوئے اسے بھی نظر انداز کر دیا۔دروازے پر ہونے والی اگلی دستک دلہن کے والد نے دی۔اپنے پاب کی آواز سن کر وہ یک دم چونکی،شوہر کی  طرف دیکھا اور آبدیدہ آنکھوں سے کہنے لگی،میں اپنے پاب کے لئے ضرور دروازہ کھولوں گی اور بھاک کر دروازہ کھول دیا۔ شوہر نے اسے کچھ نہ کہا۔ اس واقعہ کو سالہا سالبیت گئے۔اللہ تعالیٰ نے انہیں چار خوبصورت بیٹوں سے نوازا،چار بھائیوں کے بعد ان کے گھر بیٹی پیدا ہوئی تو اس کے باپ نے ایک بہت بڑی پارٹی کا اہتمام کیا اور تمام رشتہ داروں کو مدعو کیا، وہاں کسی نے پوچھا بھائی اتنی بڑی پارٹی تو تم نے بیٹوں کی پیدائش پر نہیں دی ،اب کیوں؟  تب اس سالوں پہلا قصہ دہرا کر کہا کہ" اب دنیا میں وہ آئی ہے جو میرے لئے دروازہ کھولے گی"
                                    بیٹیاںرحمت خداوندی ہیں ،۔ بیٹیاں اللہ کی بڑی نعمتیں ہیں۔۔۔ باپ کے لیے سکون ، چاہت اور خوشی کا ذریعہ۔۔۔  ان  کی پہلی محبت ان کا باپ ہوتا ہے۔ ان کے لیے ان کے باپ سے اچھا دنیا میں کوئی اور ہوتا ہی نہیں۔۔۔
                      بیٹیاں وہ پھول ہیں  جوماں باپ کی شاخوں پہ جنم لیتی ہیں،پھول جب شاخ سے کٹتا ہے بکھر جاتا ہے، پتیاں سوکھتی ہیں ٹوٹ کے اڑ جاتی ہیں مگر بیٹیاں وہ پھول ہیں جوایک شاخ سے کٹتی ہیں مگر سوکھتی ہیں نہ کبھی ٹوٹتی ہیں،ایک نئی شاخ پہ کچھ اور نئے پھول کھِلا دیتی ہیں۔

جمعرات، 13 جون، 2013

میاں صاحب ، شیر بنو شیر

4 تبصرے
آنسو گیس کا ذائقہ، گولیوں کی تڑتڑاہٹ، لاٹھیوں کے زخم اور پھر مقدمات کی بھر مار اس شہر کے مزدور سے لے کر سرمایہ دار تک سب کے لئے معمول کی بات ہے مگر 11 جون 2013ء  کو لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج پر فلک نے وہ مناظر دیکھےکہ گزشتہ پانچ برسوں میں فیصل آباد شہر اور گردونواح میں نکالنے جانے والے 2ہزار سے زائد مظاہروں ، جلائو گھیرائو کے واقعات کے بعد بھی کبھی یہ نوبت نہ آئی۔ گزرے پانچ سالوں میں اس شہر میں لوڈ شیڈنگ سے تنگ لوگوں نے شہر کے گنجان علاقوں میں بھی پولیس کو ناکوں چنے چبوائے اور اتنی آنسو گیس چلی کہ دوسرے شہروں سے مزید منگوانا پڑی مگر کبھی گھروں میں گھس کر قانون کی طاقت دکھانے کی کسی کو جرات تک نہ ہوئی۔ فیسکو ریکارڈ کے مطابق ان پانچ برسوں میں 29دفاتر جلائے گئے اور 56میں توڑ پھوڑ کی گئی مگر گیارہ جون کو  شیخوپورہ روڈ پر جو ہوا، اس کی مثال نہیں ملتی۔11جون 2013کو پولیس نے لوڈ شیڈنگ کے خلاف مظاہرہ کرنے پر درجنوں گھروں پر دھاوا بول دیا۔’’سیاہ‘‘ وردیوں میں ملبوس پولیس کمانڈوز یوں دروازے توڑتے دکھائی دیئے جیسے عراق یا کشمیر میں قابض فوجی ہوں ۔کلہاڑیاں ہاتھ میں لئے پولیس اہلکار گھروں کے اندر موجود کمروں کے دروازے توڑکر فخریہ نعرے لگاتے رہے اور خواتین سمیت گھر میں موجود ہر عمر کے لوگوں کو بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ جرم صرف اتنا تھا کہ لو ڈ شیڈنگ کے خلاف جلوس کی جلدی کیا تھی! ابھی حکومت قائم ہوئے دن ہی کتنے ہوئے ہیں!! صبر کیوں نہیں کیا!!! وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف وہ نعرہ کیوں لگا جو پہلے سابق صدر پرویز مشرف اور پھر موجود ہ صدر آصف زرداری کے خلاف لگائے جاتے تھے!!!سیاسی گفتگو اور سیاسی ماحول میں صنعتی ، معاشی اور جرائم کی باتیں شاید عجیب لگیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان تمام شعبوں سے ہی فیصل آباد کی سیاست جڑی ہے۔ جلسے جلوس، احتجاجی مظاہرے، سول نافرمانی، لانگ مارچ اور بل نہ دینے کے اعلانات اس شہر سے اتنی مرتبہ بلند ہو چکے ہیں کہ عام آدمی کی یہ بات بھی سیاستدانوں کے بیانات جیسی لگتی ہے۔مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہی ہوئے ہیں، ملک بھر میں توانائی بحران کے خلاف پہلا جلوس اسی شہر سے سامنے آیا۔ یہاںسے قومی اور صوبائی اسمبلی کی تمام نشستیں مسلم لیگ (ن) نے جیتیں ۔ شہریوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو حکومت اور اس کے ادارے بھی ایسے بپھرے کہ ماضی میں ایسی مثال نہیں ملتی۔ٹھیک ایک سال پہلے، اس وقت کے اور موجودہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے  فیصل آبادکے لوگوں سے وعدہ کیا  تھاکہ اگر بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا حل نہ نکلا تو وہ خود فیصل آباد آئیں گے اور اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کی قیادت کریں گے۔ شہر کے تاجر، مزدور اور صنعتکاروں سمیت ایک ایک شہری کو یاد ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کس قدر جذباتی تھے ،انتخابی مہم کے دوران وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے بیانات اور وزیر اعظم نواز شریف کے وعدے سن اور پڑھ کر فیصل آباد کے شہریوں کو پختہ یقین تھاکہ بجلی لوڈ شیڈنگ کا حل انہی کے پاس ہے، اسی اعتماد کی بنا پر اس شہر نے سیاسی دوڑ میں’شیر‘ کی 100فیصد حمایت کی مگر انہیں جو "صلہ" ملا سب کے سامنے ہے۔

ہفتہ، 8 جون، 2013

اک "عام" سا پودا، جومجھے بہت پیارا ہے

11 تبصرے
آپ سوچ رہے ہوں کہ آخر اس عام سے گھریلو پودے میں اتنی خاص بات کونسی ہے کہ میں نے اس کو بلاگ کا موضوع بنا دیا ہے، جی ہاں میرے لئے  یہ عام سا پودا  بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ آپ حیران ہوں گے میرا اور اس کا ساتھ 25 سال پرانا ہے  اور 25 سال کوئی معمولی عرصہ نہیں ہوتا،ساری زندگی گزر جاتی ہے، 1988ء میں نئے گھر میں شفٹ ہوئے تو بچپن سے دل میں بسا  باغبانی کا شوق انگڑائیاں لینے لگاچونکہ گھر بناتے وقت صحن میں کیاریاں بنانے کی تجویز والد گرامی بری طرح رد کر چکے تھے اس لئے اس شوق کو گملوں میں لگے پودوں سے پورا کرنے کی کوشش کی اور اس کے لئے محترم دوست طارق سلطان نے بھر حوصلہ افزائی اور تعاون کیا جن کا مشہور قول ہے کہ کتاب اور پودوں کی چوری کوئی چوری نہیں ہوتی اس لئے موصوف جو مہنگا پودا خریدنے کا حوصلہ نہ رکھتے اس کو کبھی کبھی زور جوانی کے ہاتھوں چرانے سے بھی  نہیں کتراتے تھے۔ سو موصوف نے نئے گھر شفٹ ہونے پر اس پودے کی صورت میں ناچیز کو پہلا تحفہ دیا۔ تب روز بروز نئے  خوبصورت پودوں کا اضافہ ہونے لگا اور ہر نئے  پودے کی آمد پر یہ اور پچھلی صف میں چلا جاتا  اور آخر  چند سال بعد ایک دن میں نے جگہ کی تنگی کا بہانہ بنا کر اس کو باہر پھینک دیا۔ مجھے یاد ہے ابا جی مرحوم عصر کی نماز کے بعد مسجد سے واپس آئے تو ان کی نظر اس پر پڑی تو سیخ پا ہو گئے،کہنے لگا اس کو کیوں باہر پھینکا ؟ بس جلدی میں کہہ دیا بہت پرانا ہو گیا تھا۔ کہنے لگے میں بھی پرانا ہوتا جارہا ہوں تو کیا مجھ کو ایک دن باہر  پھینک دو گے ۔ میں بہت شرمندہ ہوا اور اس کو والد مرحوم نے دوبارہ نئے گملے میں لگا دیا۔سالہا سال بیت گئے ، والد مرحوم بھی جہان فانی سے رخصت ہوگئے ،شائد اتوار کا دن تھا  میں نماز عصر کے بعد مسجد سے گھر واپس آیا تو  میں نےاس کو  گھر کے باہر گرا پایا  تو مجھے کئی سال پرانا یہی وقت یاد آ گیا ۔ گھر میں داخل ہوا تو چھوٹا صاحبزادہ ہاتھ میں کھرپہ لیئے پودوں کو درست کررہا تھا ، میں نے پوچھا میاں یہ کیا کیا تم نے ؟ اس کو  اکھاڑ کے کیوں باہر پھینک دیا ، کہنے لگا ابو بہت پرانا ہو گیا ہے اور خوبصورت بھی نہیں  لگتا اب ،مجھے ابا جی کے کہے کلمات یاد آ گئے ۔ میں نے اس کو کہا بیٹا  پرانا تو میں بھی ہو رہا ہوں میرا کیا کروگے،بڑا شرمندہ ہوا کہتا اس کو   گھر کی بیرونی دیوار  کے ساتھ بنی کیاری میں لگا دیتا ہوں اور اس کو وہاں لگا دیا گیا  ،تین چارسال وہاں گزارنے کے بعد بیٹا کہنے لگا ابو جی اس نے ساری جگہ گھیر لی ہے اس کو اب ختم ہی نہ کر دیں تو پھر میں نے کہا بیٹا اس کا میرا ساتھ بہت پرانا ہو گیا ہے اب اس کو ضائع نہیں کرنا کسی گملے میں لگا کر دوبارہ صحن میں ہی رکھ دو اور اب دو سال سے یہ پھر گھر کے اندر ہے مگر اب میں نے اس کو سب پودوں سے الگ تھلگ گیٹ کے پاس رکھ دیا ہے ، میں صبح گھر سے نکلتا ہوں تو مجھے لگتا ہے یہ مجھے رخصت کرتا ہے ، واپس آتا ہوں تو مسکرا کر میرا استقبال کرتا  ہے ،مجھ سے باتیں کرتا ہے ،میرا خیال رکھتا ہے ، بسا اوقات مجھ سے باتیں کرتا ہے اور میری پریشانیوں اور میری خوشی غمی میں شریک ہوتا ہے۔گھر میں باقی پودے بھی ہیں  مگر یہ "عام" سا پودا مجھے بہت پیارا ہے۔

بدھ، 5 جون، 2013

گھریلو پودوں اور قدرتی طریقہ سے مچھر اور موذی کیڑوں سے نجات

5 تبصرے
جوں جوں ہم فطرت سے دور ہوتے جارہے ہیں ہم طرح طرح کے مسائل میں گھرتے جارہے ہیں،ہمارے بزرگوں کے زمانہ میں ہر بیماری اور مسئلہ کا حل قدرتی غذاؤں اورگھریلوٹوٹکوں کے ذریعے کیا جاتا تھا۔ کچن میں استعمال ہونے والے مصالحہ جات ،پودے اور ان کے بیج ہر بیماری کی شفا ثابت ہوتے تھے۔ آج کیمیکل کا استعمال ہماری زندگیوں میں اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اس کے مضر اثرات نے ہماری نوجوان نسل کو طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا کر رکھا ہے۔ نباتات قدرت کی طرف سے انسانی ذات کیلئے ایک بہترین تحفہ ہے۔زمانہ قدیم سے یہ حقیقت سبھی جانتے ہیں کہ قدرت نے نیم کے درخت میں بہت سے طبی، زراعتی اور ماحولیاتی فوائد رکھے ہیں اور انہی فوائد کو جدید تحقیق نے بھی ثابت کیا ہے، نیم کا درخت مچھروں کو بھگانے کا بھی ایک قدرتی ذریعہ ہے۔نیم کے درخت کے ارد گرد مچھر نہیں ہوتے اور اسی وجہ سے ڈینگی کے خاتمے کیلئے اسے انتہائی کارآمد تصور کیا جاتا ہے۔کیڑے مکوڑوں سے نجات کیلئے

استعمال ہونے والے پودوں میں پودینہ کی افادیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اس پودے کی خوشبو سے مچھر پریشان ہو کر دور بھاگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ  پودینہ کو صدیوں سے مکھی مچھر کو دور رکھنے کے لئے استعمال کیاجا تا ہے۔ اس پودے کو صحن میں لگانے یا کمرہ میں اسکا گملا رکھنے سے مچھر آپ کے قریب نہیں آئے گا۔ گیندے کا پودا یعنی میری گولڈ بھی اپنے پھول کی خوبصورتی اور کیڑے مکوڑوں کو دور رکھنے میں انتہائی معاون ثابت ہوتا ہے۔ گیندے کے پھول کی خوشبو بھی مچھروں کو پسند نہیں، اسلئے مچھروں سے چھٹکارا پانے کے لئے اسے چھوٹے کنٹینرز، گملوں، صحن یا مرکزی دروازے کے دونوں اطراف لگانے سے مچھروں کو گھر میں داخل ہونے سے روکا جاسکتا ہےصرف یہی نہیں بلکہ تلسی کا چھوٹا سا پودا اپنی مخصوص خوشبو کےباعث مکھی مچھروں کیلئے نفرت انگیز سمجھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ مچھر اس پودے کے اردگرد بھی نہیں پھٹکتے،اس کے پتوں کو ہاتھوں اور  چہرے پر مسل کر آپ باہر بیٹھ جائیں مچھر آپ کے قریب بھی نہیں پھٹکے گا ۔تلسی ہی کی طرز کا ایک عام گھروں میں پایا جانے والا پودا نیاز بو بھی اسی کام آتا ہے۔اس کے علاوہ  لیمن گراس پلانٹ گھاس کی ایک خوبصورت قسم ہے اور اسے بھی مچھروں سے بچا کیلئے انتہائی کارآمد تصور کیا جاتا ہے۔ یہ پرکشش، تروتازہ اور خوبصودار اونچی گھاس گھریلو باغیچوں میں لگانے سے بھی مچھروں سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ یہ تمام پودے گملوں میں لگائے جا سکتے  ہیں اور پھر میرا وہی ماٹو، ہیں بھی انتہائی سستے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دیہی اور شہری علاقوں میں کیڑے مکوڑوں اور خاص طور پر مچھروں سے تحفظ کیلئے اپنی مدد آپ کے تحت ان پودوں کی گھر گھر شجرکاری سے متعلق آگاہی کا پروگرام تشکیل دیا جاسکتا ہے، جس کی مدد سے ڈینگی مچھر اور وائرس سے مستقل چھٹکارا حاصل کرنا ممکن ہے۔ موسم گرما میں مچھروں کی بہتاب ہوتی ہے اور ایسے میں ان پودوں کو زمین یا گملوں میں باآسانی لگایا جاسکتا ہے۔ حکومت خاص طور پر پنجاب حکومت کیمیاوی اسپرے پر اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود ڈینگی مچھر پر قابو نہیں پا سکی، بلکہ ماہرین کا تو یہ کہنا ہے کہ کیمیاوی اسپرے کی وجہ سے مچھر دشمن اور مچھر خور دیگر حشرات بھی ختم ہورہے ہیں۔ ایسے میں حکومتی سطح پر سڑکوں کے کنارے نیم کے درخت کی شجرکاری اور دوسرے پودے لگانےسے ڈینگی مچھر اور وائرس سے مستقل چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔

(اس مضمون کی تیاری میں مختلف تحقیقاتی مضامین سے مدد لی گئی ہے)
.