منگل، 16 دسمبر، 2014

کس کی نظر لگ گئی اس آشیانے کو !

5 تبصرے
آج 16دسمبر ہے ، پاکستان کی تاریخ کاسیاہ ترین دن،آج سے 43سال قبل ہمارے اپنوں ہی سازشوں کے نتیجہ میں ہمارے وطن کو دو حصوں تقسیم ہونا پڑا، دوپہر اس سانحہ پر لکھنے کے لئے ابھی قلم اٹھایا ہی تھا کہ دوست کی کال آئی ،فوری ٹی وی آن کریں ،سقوط ڈھاکہ کے غم میں ڈوبے ہوئے دل کو ایک عجیب سانحہ کی خبر کا سامنا تھا ، پشاور کے سکول میں دہشت گردی کی کارروائی ، 14بچوں اور ایک ٹیچر کی شہادت کی خبر نے دل رنجیدہ کر دیا ،دیکھتے دیکھتے شہادتوں کی تعداد 123تک جا پہنچی ہے ۔ابھی تک ریسکیو آپریشن جاری ہے،سینکڑوں بچے زخمی ہیں ،ٹی وی پر سیاست دانوں کے روائتی بیانات زور شور سے جاری ہیں ،معصوم کلیاں اپنے دیس پر قربان ہو گئی ہیں ،ننھے فرشتے اس جنگ میں لقمہ اجل بن گئے ہیں جو ان کی اپنی بھی نہیں ،سمجھ نہیں آتی کہ بات کہاں سے شروع کی جائے اور کس پر ختم کی جائے ، کون ذمہ دار ہے ان معصوموں کے خون کا ، کتنے بچوں نے آج ضد کی ہوگی چھٹی کرنے کی مگر ماں نے اس لئے اجازت نہیں دی ہوگی کہ بیٹا تعلیم کا ہرج نہیں ہونے دینا ،پڑھو گے نہیں تو بڑے آدمی کیسے بنوگے،کیا کیا نہیں ارمان ہوں گے ان ماؤں گے جن کے پھول آج ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ان سے بچھڑ گئے ۔ہر دفعہ جب کوئی ایسا سانحہ ہوتا ہے تو حکومتی وزراء کہتے ہیں دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے اور یہی بیانات سنتے ساری عمر بیت گئی ،کتنے دہشت گرد گرفتار ہوئے ، کتنے بڑے بڑے گینگ پکڑنے کے حکومتی دعوے روز سامنے آتے ہیں مگر میں نے تو آج تک کسی دہشت گرد کو سر عام پھانسی لگتے نہیں دیکھا،کسی ایک کو لٹکا دیا جائے تو پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ یہ سلسلہ رک جائے گا مگر کیا کریں جس ملک کے حکمران ،سیاست دان ،اعلیٰ بیورو کریسی ،ادارے سب ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ہوں ،جہاں روز اپنوں کے ہاتھوں اپنے قتل ہوتے ہوں ،جہاں اتحاد اتفاق نام کی کوئی چیز ہی سرے سے موجود نہ ہو ، جہاں دوسرے کی رائے کا احترام کرنے کی بجائے اسے فوری قابل گردن زنی سمجھ لیاجائے ،وہاں دشمن کے لئے کیسے ہم تر نوالہ ثابت نہیں ہوں گے،دشمن ہمارے دروازوں پر دستک دے رہا ہے اور اس نے ہمیں فرقہ ورانہ سیاست میں الجھا کر ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا ہے مگر ہم دشمن کی چال کو سمجھنے کی بجائے اسی کے آلہ کار بننے کو تیار بیٹھے ہیں وہاں تو پھر ایسے سانحات جنم لیتے ہی رہیں گے ۔قومیں ہمیشہ ایسے سانحات سے سبق سیکھتی ہیں ،بعض اوقات ایسے سانحات قوم کے جذبوں کو زندہ کرنے میں اپنا کر دار ادا کرتے ہیں ،ایسی آزمائشوں سے گزر کرقومیں ایک نئے ولولے ،نئی امنگ سے اپنے سفر کا آغاز کرتی ہیں ۔اب دیکھنا ہے کہ ہمارے حکمران اور سیاست دان اس سانحہ سے کوئی سبق سیکھتے ہیں یا ایک دن کا سوگ منا کردوبارہ اسی ڈگر پر چل پڑتے ہیں ۔اگر ایسا ہوا تو سن لو میرے وطن کے حکمرانوں اور سیاست دانوں ! ایک دن ایسا آئے گا کہ لوگ تمہاری گردنوں میں پھندے ڈالے تمہیں سڑکوں پر گھسیٹیں گے اور تمہاری مدد کو وہ بھی نہیں آئیں گے تم دن رات جن کی چاپلوسی میں اپنی ہی قوم کو فراموش کر بیٹھے ہو۔روزقیامت یہ معصوم بچے تمہارا گریبان پکڑ کے پوچھیں گے آخر کس جرم میں تم نے ہمیں اس آگ میں جھونکا تھا ۔ میرے بچو! مجھے یقین ہے تم تواللہ پاک کی جنتوں میں پہنچ گئے ہوں گے مگر اللہ میاں سے عرض کرنا تمہارے غمزدہ والدین کو بھی صبر جمیل عطا فرمائے۔
میرے معصوم پھول سے بچوں کو
نجانے کس کی نظر لگ گئی ہے
گھر سے جاتے ہوئے کہا بھی کہ
انکے رخسار کے دائیں طرف
ایک کالا ٹیکہ لگا دیا کرو
سنتے آئے ہیں کہ ا س طرح
نظر بد دور ہی رہتی ہے
تم نے دیکھا تھا کہ انکے چہرے
کتنے شاداب اور شگفتہ تھے
انکے لہجوں کی معصوم آوازیں
کس قدر دل کو خوش کرتی ہیں
انکے بے داغ ، اجلے یونی فارم
انکے جسموں پے کیسے سجتے تھے
انکی آنکھوں میں کھیلتی ہنسی
کس قدر شریر ہوتی تھی
کہا تھا تم سے کہ نا اتنے غور سے دیکھو
کبھی کبھی محبت سے دیکھنے پر بھی
نظر بد لگ جای جاتی ہے
کہا تھا تم سے کہ جب یہ گھر سے نکلیں
آیت الکرسی ور درود شریف
پڑھکر کر ان پر دم کردیا کرو
کہا تھا نا کہ کچھ شیطان
یوں ہی فضاووں میں گھومتے رہتے ہیں .
وہ خوبصورتی کے دشمن ہیں
الہو کی پیاس انکو بے چین رکھتی ہے
کہا تھا میں نے کہ دیکھو احتیاط کرنا
انکو نظر بد بچانے کے لئے
انکے رخسار کی دائیں طرف
ایک کالا ٹیکہ لگادیا کرو
تم سے آج بھول ہوگئی شائد
سفید رنگت او ر نیلی آنکھیں
آج سب ہی گل رنگ ہوگیں ہیں
آج شائد بہار کا دن ہے
آج سارے پھولوں کا رنگ سرخ ہے

پیر، 8 دسمبر، 2014

8 دسمبر ، فیصل آباد کی تاریخ کا سیاہ ترین دن

4 تبصرے
تحریک انصاف کے پلان سی کے پہلا مرحلہ آج فیصل آباد سے شروع ہوا، فیصل آباد ہمیشہ سے پر امن شہر رہا ہے ،بڑی بڑی سیاسی تحریکوں نے اس شہر سے جنم لیا مگر زیادہ معاملات پر امن ہی رہے ، آج صبح گھر سے نکلتے ہی عجیب منظر دیکھنے میں آیا، چھوٹی عمر کے نوجوان ہاتھوں میں ڈنڈے لئے ٹائروں کو آگ لگا کر راستے بند کر رہے تھے، واپس آکر فیس بک پر اسٹیسس اپ ڈیٹ کیا تو احباب کے میسجز آنے شروع ہوگئے کہ بھائی گھبرائیں ناں ، کچھ نہیں ہوتا مگر پتہ نہیں کیوں چھٹی حس کسی آنے والے خطرہ سے کیوں ڈرا رہی تھی ،پہلا اپ ڈیٹ صبح دس بجے کے بعد کیا تھا ،ذرا اس کا مطالعہ کیجیئے
"پاکستان کا سب سے پر امن شہر فیصل آباد جلتے ٹائروں کے دھوائیں اور " گو نواز گو" اور" رو عمران رو " کے نعروں کی زد میں ہے

، ابھی صبح کا آغاز ہے ،ہر سڑک پر جوشیلے نوجوان ڈنڈے ہاتھوں میں تھامے لوگوں کو آگے جانے سے روک رہے ہیں ،حالات کی کشیدگی کسی بڑے ظوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے ، پی ٹی آئی اور ن لیگ کے کارکنوں کو ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کر دیا گیا ہے ،خانہ جنگی کی سی فضا قائم کی جارہی ہے ،احتجاج ہرسیاسی جماعت کا بنیادی حق ہے مگر اس کشیدگی کے نتیجہ میں اگر ماڈل ٹاؤن لاہور، قاسم باغ ملتان جیسا کوئی سانحہ رونما ہو گیا تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا"

ایک گھنٹہ بعددوسرا اپ ڈیٹ یہ تھاجس بات کا خطرہ تھا وہی ہوا 

"ایک ماں اپنے جگر گوشے سے محروم ہو گئی ہے
یا اللہ اس شہر پر امن کو اپنے حفظ و امان میں رکھ"

تھوڑی دیر بعد یہ اپ ڈیٹ کیا کہ

"ابھی گھنٹہ گھر چوک سے ہو کے آیا ہوں ، الیکٹرانک میڈیا کی گاڑیوں کے ارد گرد سو سے بھی کم افراد موجود ہیں ، اپنی ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں دو طرفہ نعرہ بازی کے ذریعے گرما گرم ماحول پیدا کیا گیا ہے ، دوسری طرف سمن ناولٹی پل پر ایک نوجوان اپنی زندگی کی بازی ہار گیا ہے ، صبح جس خدشہ کا اظہار کیا تھا , وہ درست ہوتا جا رہا ہے ، اللہ پاک میرے پر امن شہر کو نظر بد سے بچا

آمین "

دکھی دل کے ساتھ دوپہر کو یہ ٹویٹ کیئے

"وہی ہوا جس کا ڈر تھا ، ن لیگ اور تحریک انصاف کے کارکن گتھم گھتا ، ڈنڈوں کا آزادانہ استعمال ، کون ذمہ دار ہے اس خانہ جنگی کا ؟"

"بد امنی اور خانہ جنگی سے بچا جا سکتا ھے ، ن لیگ اپنے کارکنوں کو واپس بلائے ، پی ٹی آئی کے لئے میدان کھلا چھوڑ دیا جائے

میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں
میرے شہر جل رہے ہیں میرے لوگ مر رہے ہیں

#FaisalabadLockDown

اور لاسٹ اپ ڈیٹ کے نام سے یہ آخری اپ ڈیٹ لکھا ابھی ایک گھنٹہ قبل

"لاسٹ اپ ڈیٹ

#Faisalabad
ابھی چوک گھنٹہ گھر سے ہوتے ہوئے ناولٹی چوک کے قریب رانا ثناء اللہ کے ڈیرے کے باہر خان صاحب کے خطاب کے بعد گھر واپسی ہوئی ہے ، شہر پرسکون ہوچکا ہے ، چوک گھنٹہ گھر میں کھانے پینے کی دکانیں حسب معمول سجی ہوئی ہیں ، تین سو سے زائد افراد کے خلاف مقتول حق نواز کے قتل کی ایف آئی درج ہو گئی ہے ، خاں صاحب ہسپتال سے ہوئے ہوئے مقتول کے گھر بھی جائیں گے ، سب کچھ معمول پر آجائے گا مگر ماں کو اس کا بیٹا واپس نہیں ملے گا ، اگر کوئی مجھ سے تین لفظوں میں آج کے سانحہ کو سبب پوچھے تو میرے خیال میں یہ سب فیصل آباد کی نام نہاد تاجر قیادت کی مقامی ن لیگی قیادت کو ھلاشیری کا نتیجہ ہے ،احتجاج پی ٹی آئی کا حق تھا مگر ن لیگی کارکنوں کو درمیاں میں لا کر عمران خان کے ناکام شو کو کامیاب کروانے کے ساتھ ساتھ ایک انسانی جان کی بھی قربانی دے دی گئی"

میں نے تو یہی نتیجہ اخذ کیا ہے آج کے سانحہ کا

"اگر کوئی مجھ سے تین لفظوں میں آج کے سانحہ کو سبب پوچھے تو میرے خیال میں یہ سب فیصل آباد کی نام نہاد تاجر قیادت کی مقامی ن لیگی قیادت کو ھلاشیری کا نتیجہ ہے،احتجاج پی ٹی آئی کا حق تھا مگر ن لیگی کارکنوں کو درمیان میں لا کر عمران خان کے ناکام شو کو کامیاب کروانے کے ساتھ ساتھ ایک انسانی جان کی بھی قربانی دے دی گئی"
اللہ پاک میرے ملک کی حفاظت فرمائے(آمین)


.