منگل، 28 جولائی، 2015

بچپن کی عید

6 تبصرے
محترم  بلاگر ڈاکٹر اسلم فہیم صاحب نے  بچپن کی عید کی یاد تازہ کرنے کے لئے فیس بک پر باقاعدہ ایونٹ رکھ دیا ، احباب کو بھی دعوت دی کہ اس موضوع پر لکھیں ، روائتی سستی کے باعث کئی دفعہ لکھنے کی کوشش کی مگر مصروفیات نے وقت ہی نہ دیا ۔ آج فیس بک پر ہمارے ہر دلعزیز دوست  اور دیار نبی ﷺ کی مستقل رہائشی محترم محمد اقبال مغل نے اپنی بچپن کی عید کی یادیں شیئر کیں تو واقعی یادوں کا دریچہ کھل گیا   ۔ یہی سب کچھ ہمارے بچپن میں ہوتا تھا ۔ آج کل کے بچوں کے پاس تو  بہت سی عیدی اور بہت سی سہولیات ہیں ،  آئیے لطف اندوز ہوتے ہیں بھائی اقبال مغل کی بچپن کی عید کی یادوں سے   

جمعہ، 3 جولائی، 2015

بچپن کا رمضان

13 تبصرے
محترم شعیب صفدر گھمن نے ایک نئی روائت کا آغاز کیا اور پھر احباب کو بھی حکم نامہ صادر فرمایا کہ اپنے پہلے روزے کے متعلق لکھا جائے اور پھر ان کے حکم پر ڈاکٹر اسلم فہیم،نعیم خان اورمحترمہ کوثر بیگ اور کچھ دوسرے احباب نے بھی لکھا اور ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی ترغیب دی ، شعیب صاحب کی طرح محترم نعیم خان اور داکٹر اسلم فہیم نے تو باقاعدہ حکم نامہ جاری فرمایا کہ ہرصورت لکھا جائے ۔کئی دنوں سے کوشش میں تھا کہ کچھ لکھ سکوں ،سوچنے بیٹھتا تو یادوں کا سلسلہ ایک ایسی شخصیت تک چلا جاتا کہ کہ گھنٹوں گزر جاتے اور اور کچھ بھی نہیں لکھا جاتا ۔ بچپن کہ بارے میں سوچتے ہی اولین یاد ماں ہوتی ہے اور ماں کی یاد آجائے تو باقی ساری یادیں بھول جاتی ہیں ،سلسلہ کہیں سے شروع ہوتا ہے اور چلا کہیں اور جاتا ہے ،ایسے ہی ہوا اور کچھ لکھا نہیں جا سکا ۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب کچھ کچھ ہوش سنبھالی تو ان دنوں شدید سردیوں میں روزے تھے،تب نہ تو گھر اتنے بڑے تھے اور نہ اتنی سہولتیں تھیں ۔کچھ یاد آتا ہے کہ ایک سال شدید ضد کی یہ میں نے بھی روزہ رکھنا ہے مگر ماں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ بچوں کا تو چڑی روزہ ہوتا ہے،اللہ تعالیٰ بچوں سے بہت پیا ر کرتے ہیں اس لئے بچے اگر ایک دن میں دو دفعہ بھی رکھ لیں تو اللہ میاں ناراض نہیں ہوتے مگر دل کہتا کہ یہ سبھی بہلاوے کی باتیں ہیں اگر ایک دن میں دو رکھے جا سکتے تو یہ سب کیوں دو نہیں رکھتے۔وہ سال گزر گیا تو آئندہ سال شب برات کی آمد پر ہی ہم نے ضد شروع کر دی کہ اس سال روزہ ضرور رکھنا ہے،تب شب برات کی آمد اس امر کا اعلان سمجھا جاتا تھا کہ روزوں کی تیاری کر لیں اور میری ماں اس دن کا روزہ رکھتی تھی اور شام کو حلوہ پوری کے ساتھ کھولا جاتا تھا ۔رمضان شروع ہوا تھا تو ہماری ضد بھی عروج پر پہنچ گئی ،ماں نے ہماری ضد کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔بس اتنا یاد ہے کہ ماں نے سحری کے وقت گردن سے پکڑ کر اٹھایا اور وہیں کلی کرنے کے لئے پانی فراہم کردیا ،رضائی سے نکلنے کی اجازت نہیں ملی ۔وہیں ہمیں پراٹھا اور دہی فراہم کر دیا گیا اور ماں نے اپنے ہاتھوں سے ہمیں نوالے بنا کر دیئے ،ساتھ چائے کی پیالی منہ کو لگا دی اور حکم دیا کہ سو جاؤ ۔صبح سو کر اٹھے تو حسب عادت ناشتہ طلب فرمایا تو ہمیں یاد کروایا گیا کہ ہمارا روزہ ہے اور اب بھول کر بھی کوئی چیز نہیں کھانی ، شدید سردیاں تھیں ماں نے سارا دن گھر سے بھی باہر نہیں نکلنے دیالیکن بھوک تو بھوک ہوتی ہے ،کچھ لگی بھی روئے بھی اور ماں سے جھڑکیاں بھی وصول کیں،ماں نے سارے محلہ کو بتایا کہ آج میرے بیٹے نے روزہ رکھا ہے اور شام کو سارا محلہ اکھٹا ہوا مبارک باد دینے کے لئے اور والد محترم میرے لئے میری پسندیدہ مٹھائی گرما گرم جلیبیاں لے کر آئے جس سے میں نے افطاری کی لیکن اگلے رمضان تک روزے رکھنے کی اجازت نہ ملی ،پھر نہیں یاد پڑتا کہ کبھی روزہ چھوڑا ہو کیوں کہ جن بچوں کے روزوں کی ابتدا سردیوں میں ہوتی ہے ان کی روزے رکھنے کی عادت پختہ ہو جاتی ہے ، گرمیوں میں بچوں کو روزے رکھنے نہیں دیئے جاتے جس پر انہیں آئندہ زندگی میں مشکل ہی لگتے ہیں ۔اللہ کریم ہم سب کو رمضان المبارک کی سعادتیں سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے ، اللہ کریم میری ماں کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے جن کی تربیت سے میں روزے رکھنے کے قابل ہوا ۔

.