منگل، 29 اپریل، 2014

میاں صاحب ، خدا کے لئے بچ جاؤ ان مظلوموں کی بددعاؤں سے !

7 تبصرے

میری اس یہ پہلی ملاقات تھی ، لاپتہ افراد کے لئے ایک احتجاج کے سلسلہ میں وہ فیصل آ باد کے ضلع کونسل چوک میں موجود تھی،مجھے اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی اداسی نظر آئی جس نے خود مجھے رنجیدہ کردیا مگر جب اس نے میرے ساتھ گفتگو شروع کی تو بلا کااعتماد، سنجیدگی اورمتانت اس کے چہرے پر عیاں تھی،اپنی زندگی کے سب سے بڑے کرب سے گزرنے کے باوجود وہ اوروں کی بات کر رہی تھی ، وہ دوسروں کا انصاف فراہم کروانے کے لئے پر عزم تھی ، وہ ایک ایک کا نام جانتی تھی،ایک ایک بیوہ ماں اور بوڑھے باپ کا نام لے کر بتا رہی تھی کہ کس کس کے جوان بیٹے کو لاپتہ ہوئے کتنی کتنی دیر ہو چکی ہے، وہ جس ہمت سے میرے سامنے کھڑی تھی مجھے نہیں حوصلہ تھا کہ ان کا سامنا کرسکوں ۔مجھے میرا اپنا وجود اس کا مجرم لگ رہا تھا کیونکہ میں اس معاشرہ کا فرد ہوں جہاں آمنہ مسعود اور ڈاکٹر عافیہ جیسی خواتین ہمارے سامنے انصاف کی طلب گار ہیں مگر ہم ان کے لئے کچھ بھی نہیں کر رہے مگرآفرین ہے اس بپر جو اپنے سر کا تاج گنوا کر بھی وہ ناامید نہیں اسے یقین ہے کہ اگر اسے انصاف نہیں ملا مگر وہ باقی دکھیاروں کو انصاف کے حصول میں مدد گار ضرور بنے گی۔
آمنہ مسعودجنجوعہ کا خاوند جب آمر پرویز مشرف کے دور میں لا پتہ ہوا تو کبھی نہ گھر سے نکلنے والی اس باپردہ خاتون نے اپنے خاوند کی تلاش کا بیڑا اٹھایا اورسالوں سے اپنے گمشدہ خاوند کی تلاش میں ماری ماری بھٹکتی رہی مگر کسی کو اس پررحم نہ آیا۔نام نہاد این جی اوز کا لبادہ اوڑھ کر مال پانی بنانے والی مغرب زدہ خواتین کو بھی اس کی مدد کی توفیق نہ ہوئی اور جب اس کو اس کے خاوند کے قتل کیاطلاع مل گئی تو اس نے تھک ہار کر بیٹھنے کی بجائے ان سینکڑوں بے سہارا خواتین کا سہارا بننے کا فیصلہ کر لیا جن کے پیارے لاپتہ ہیں اور اس سلسلہ میں کبھی وہ سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکا رہی ہوتی ہیں کبھی پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے دھرنا اورکبھی شہر شہر امن واک مگر آج اسلام آباد کی فضاؤں نے جو منظر دیکھا اور ناقابل بیان ہے ،اس آمنہ کو پارلیمنٹ کے سامنے سڑکو ں پر گھسیٹا گیا۔ گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی،وردی پوش اخلاقیات تمیز احترام کے معنی بھول گئے،بنیادی انسانی حقوق کی دھجیاں اڑادیں،خواتین اہل کاروں نے آمنہ مسعود پر مکوں کی بارش کردی اور اسی ہلڑ بازی میں گھسیٹتے ہوئے آمنہ مسعود کو گاڑی میں ڈالا گیا اور مظاہرین پر تاک تاک کر لاٹھیاں برسائی گئیں اور یہ سب ہوا بھی نواز شریف کے دور میں ، لگتا ہے نواز شریف کو ان مظلوموں کو لے ڈوبیں گی،ظلم آخر ظلم ہے اور پھر مظلوم کی آہ تو عرش ہلا دیتی ہے ،مجھے یاد ہے پرویز مشرف کی طرف سے نواز شریف کی حکومت کے خاتمہ سے صرف چند ماہ پہلے لاہور میں جماعت اسلامی کے بوڑھے کارکنوں کو انہیں میاں صاحبان کے حکم پر لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹا گیا،سیاسی کارکنوں پر اس تشدد کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی تب ایک بوڑھے کو میں نے بددعا دیتے دیکھا تھا،اس نے دونوں ہاتھ پھیلاکر چہرہ آسمان کی طرف کیا ہوا تھا، پتہ نہیں وہ زیر لب کیا بڑبڑا رہا مگر مجھے ایسا لگا کہ وہ اپنے رب سے ہم کلام ہورہا ،جیسے اللہ تبارک تعالی کے کانوں میں کوئی بات کہہ رہا ہے اور پھر چشم فلک نے وہ منظر دیکھا کہ چند ماہ بعد ہی میاں صاحب جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھے اورپھر انہیں جہاز کی کرسی سے باندھ کر جدہ پہنچایا گیا ۔مجھے آج پھر وہ منظر یاد آرہا ہے ،
میاں صاحب خدا کے لئے بچ جاؤ ان مظلوموں کی بددعاؤں سے ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہفتہ، 26 اپریل، 2014

لالچ کے اندھے اور تبدیلی کے خواہش مند

1 تبصرے
کل رات فیملی کے ہمرا فیصل آباد کے بڑے پیزا ریسٹورانٹ
جانے کا تفاق ہوا ۔وہاں اتنا رش ہوتا  ہے کہ دو سو سے زائد سیٹ ہونے کے باوجود اپنی باری کے لئے  بیس پچیس منٹ انتظار کرنا پڑتا ہے۔پیزا کے ساتھ دی جانے والی کولڈ ڈرنک انتہائی غیر معیاری تھی ،یوں سمجھ لیں کہ  پانی کے ایک گلاس میں  کوک کا ایک گھونٹ  مکس کر دیا گیا تھا،میں نے منیجر کو بلایا اور کہا  اس سے صرف ایک گھونٹ پی کر دیکھ لیں،کہنا لگا مجھے معلوم ہے سر ، ہماری مشین خراب ہے،میں نے کہا کہ اگر آپ کی مشین خراب ہے تو لکھ کر لگا دو یا لوگوں کو کولڈ ڈرنک دینے سے معذرت کر لو ، دوسری صورت میں لوگوں کو  شیشے والی بوتل دو حالانکہ ہونا بھی یہی  چاہیے کہ ہر فرد کو جراثیم سے پاک علیحدہ علیحدہ بوتل ملے ناکہ ایک بڑے ڈرم سے گلاس بھر بھر لوگوں کو  دیئے جائیں،اگر دو سو روپے والا پیزا تم لوگوں کو سات سو  روپے میں فروخت کر رہے ہو تو کم از کم اتنا تو کر لو کہ  لالچ میں اندھے ہوکر لوگوں کی صحت نہ برباد کرو۔
میرا بدلتا موڈ دیکھ کر اس نے فوری طور پر پاس سے گزرتے ہوئے ویٹر کو روکا اور کہا کہ سر کے لئے فوری طور پر فرج سے بوتل نکال کر لاؤ،میں نے اس کی ضرورت نہیں  اور نہ یہ آپ کا قصور ہے بلکہ قصور ان مالکان کا ہے جو اتنا کما کر بھی اللہ کا شکر ادا کرنے کی بجائے اور لالچ میں میں پڑے ہوئے ہیں اور واقعی ایسے لوگوں کا پیٹ قبر کی مٹی ہی بھرے گی یا پھر وہ حکومتی ادارے  جن کی ذمہ داری ہے چیک اینڈ بیلنس کی مگر اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہے کیونکہ ان کو ان کا حصہ انتہائی عقیدت سے ان کے گھروں میں پہنچ جاتا ہے لیکن میری نظر میں سب سے بڑے قصور وار ہم ہیں جو پیسے ادا کرنے کے باوجود شکائت نہیں کرتے ،ظاہر اس وقت وہاں دوسو سے زائد کھا رہے تھے اور اتنے ہی اپنی باری کے انتظار میں باہر کھڑے تھے مگر اسٹیسس کے مارے شکائت کرنا  شائد توہین سمجھتے ہوں گے یا محسوس کرتے ہوں کہ لوگ کیا کہیں گے مگر یہی لوگ جب ریڑھی والے سے مونگ پھلی لے رہے ہوں تو ایک دانہ غلط آنے پر اس کو  ماں بہن کی گالیاں تک دے ڈالتے ہیں مگر یہاں اپنے اسٹیسس کو  بچانے کے لئے چپ چاپ کھائے جارہے ہیں حالانکہ مینیجر نے اقرار کیا کہ کہ ان کی مشین کی خرابی ہے جبکہ نہ تو مشین خراب تھی اور نہ کوئی اور مسئلہ ،صرف لالچ نے آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے اور یہ لوگ سب سے زیادہ پاکستان میں تبدیلی کے خواہشمند ہیں،

.