ہفتہ، 8 جون، 2013

اک "عام" سا پودا، جومجھے بہت پیارا ہے

11 تبصرے
آپ سوچ رہے ہوں کہ آخر اس عام سے گھریلو پودے میں اتنی خاص بات کونسی ہے کہ میں نے اس کو بلاگ کا موضوع بنا دیا ہے، جی ہاں میرے لئے  یہ عام سا پودا  بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ آپ حیران ہوں گے میرا اور اس کا ساتھ 25 سال پرانا ہے  اور 25 سال کوئی معمولی عرصہ نہیں ہوتا،ساری زندگی گزر جاتی ہے، 1988ء میں نئے گھر میں شفٹ ہوئے تو بچپن سے دل میں بسا  باغبانی کا شوق انگڑائیاں لینے لگاچونکہ گھر بناتے وقت صحن میں کیاریاں بنانے کی تجویز والد گرامی بری طرح رد کر چکے تھے اس لئے اس شوق کو گملوں میں لگے پودوں سے پورا کرنے کی کوشش کی اور اس کے لئے محترم دوست طارق سلطان نے بھر حوصلہ افزائی اور تعاون کیا جن کا مشہور قول ہے کہ کتاب اور پودوں کی چوری کوئی چوری نہیں ہوتی اس لئے موصوف جو مہنگا پودا خریدنے کا حوصلہ نہ رکھتے اس کو کبھی کبھی زور جوانی کے ہاتھوں چرانے سے بھی  نہیں کتراتے تھے۔ سو موصوف نے نئے گھر شفٹ ہونے پر اس پودے کی صورت میں ناچیز کو پہلا تحفہ دیا۔ تب روز بروز نئے  خوبصورت پودوں کا اضافہ ہونے لگا اور ہر نئے  پودے کی آمد پر یہ اور پچھلی صف میں چلا جاتا  اور آخر  چند سال بعد ایک دن میں نے جگہ کی تنگی کا بہانہ بنا کر اس کو باہر پھینک دیا۔ مجھے یاد ہے ابا جی مرحوم عصر کی نماز کے بعد مسجد سے واپس آئے تو ان کی نظر اس پر پڑی تو سیخ پا ہو گئے،کہنے لگا اس کو کیوں باہر پھینکا ؟ بس جلدی میں کہہ دیا بہت پرانا ہو گیا تھا۔ کہنے لگے میں بھی پرانا ہوتا جارہا ہوں تو کیا مجھ کو ایک دن باہر  پھینک دو گے ۔ میں بہت شرمندہ ہوا اور اس کو والد مرحوم نے دوبارہ نئے گملے میں لگا دیا۔سالہا سال بیت گئے ، والد مرحوم بھی جہان فانی سے رخصت ہوگئے ،شائد اتوار کا دن تھا  میں نماز عصر کے بعد مسجد سے گھر واپس آیا تو  میں نےاس کو  گھر کے باہر گرا پایا  تو مجھے کئی سال پرانا یہی وقت یاد آ گیا ۔ گھر میں داخل ہوا تو چھوٹا صاحبزادہ ہاتھ میں کھرپہ لیئے پودوں کو درست کررہا تھا ، میں نے پوچھا میاں یہ کیا کیا تم نے ؟ اس کو  اکھاڑ کے کیوں باہر پھینک دیا ، کہنے لگا ابو بہت پرانا ہو گیا ہے اور خوبصورت بھی نہیں  لگتا اب ،مجھے ابا جی کے کہے کلمات یاد آ گئے ۔ میں نے اس کو کہا بیٹا  پرانا تو میں بھی ہو رہا ہوں میرا کیا کروگے،بڑا شرمندہ ہوا کہتا اس کو   گھر کی بیرونی دیوار  کے ساتھ بنی کیاری میں لگا دیتا ہوں اور اس کو وہاں لگا دیا گیا  ،تین چارسال وہاں گزارنے کے بعد بیٹا کہنے لگا ابو جی اس نے ساری جگہ گھیر لی ہے اس کو اب ختم ہی نہ کر دیں تو پھر میں نے کہا بیٹا اس کا میرا ساتھ بہت پرانا ہو گیا ہے اب اس کو ضائع نہیں کرنا کسی گملے میں لگا کر دوبارہ صحن میں ہی رکھ دو اور اب دو سال سے یہ پھر گھر کے اندر ہے مگر اب میں نے اس کو سب پودوں سے الگ تھلگ گیٹ کے پاس رکھ دیا ہے ، میں صبح گھر سے نکلتا ہوں تو مجھے لگتا ہے یہ مجھے رخصت کرتا ہے ، واپس آتا ہوں تو مسکرا کر میرا استقبال کرتا  ہے ،مجھ سے باتیں کرتا ہے ،میرا خیال رکھتا ہے ، بسا اوقات مجھ سے باتیں کرتا ہے اور میری پریشانیوں اور میری خوشی غمی میں شریک ہوتا ہے۔گھر میں باقی پودے بھی ہیں  مگر یہ "عام" سا پودا مجھے بہت پیارا ہے۔

11 تبصرے:

  • ہفتہ, جون 08, 2013

    سر جی، آپ کے پودے نے میری آنکھوں میں ایسی جلن پیدا کی کہ تبصرہ لکھتے ہوئے دھندھلے پن کا احساس ہوتا رہا۔

  • ہفتہ, جون 08, 2013

    شیو کمھار بٹالوی کا گیت یاد آیا



    کجھ رکھ مینوں پتّ لگدے نے
    کجھ رکھ لگدے ماواں
    کجھ رکھ نونہاں دھیاں لگدے
    کجھ رکھ وانگ بھراواں
    کجھ رکھ میرے بابے واکن
    پتر ٹاواں ٹاواں
    کجھ رکھ میری دادی ورگے
    چوری پاون کاواں
    کجھ رکھ یاراں ورگے لگدے
    چماں تے گل لاواں
    اک میری محبوبہ واکن
    مٹھا اتے دکھاواں
    کجھ رکھ میرا دل کردا اے
    موڈھے چکّ کھڈاواں
    کجھ رکھ میرا دل کردا اے
    چماں تے مر جاواں
    کجھ رکھ جد وی رل کے جھومن
    تیز وگن جد واواں
    ساوی بولی سبھ رکھاں دی
    دل کردا لکھ جاواں
    میرا وی ایہہ دل کردا اے
    رکھ دی جونے آواں
    جے تساں میرا گیت ہے سننا
    میں رکھاں وچ گاواں
    رکھ تاں میری ماں ورگے نے
    جیوں رکھاں دیاں چھاواں ۔

  • ہفتہ, جون 08, 2013

    برادر مکرم مصطفی ملک
    السلام علیکم
    آپ کو بلاگر مبارک ہو
    ملک محمد اعظم
    راولپنڈی

  • ہفتہ, جون 08, 2013

    پرانی چیزوں کے ساتھ محبت اور لگاؤ تو پیدا ہو جاتا ہے
    اس پودے کے ساتھ لگاؤ میں زیادہ کمال والد صاحب کےاس جملے کا بھی ہے جس نے آپکو وہ پودا پھر سے لگانے پر مجبور کر دیا :)

  • ہفتہ, جون 08, 2013
  • ہفتہ, جون 08, 2013

    پچھلے سال میں نے گھر بنایا تو گھر کے سامنے ایک چھوٹا سا کھیت بنا لیا۔
    اور گھر کے آس پاس پھو لوں کیلئے کیاریاں بھی بنا لیں۔
    زمین سے چھیڑ چھاڑ سے ایک دلفریب سی طمانیت محسوس ہوتی ہے۔
    زیتون کے دو ننھے نھنے سے پودے بھی لگا دیئے ۔جو جیسے جیسے بڑے ہو رہے ہیں ایک عجیب سی محبت محسوس ہو تی ہے۔چند دن پہلے ایک پودے پر میرے پیارے سے کتے نے ٹانگ اٹھا کر پیشاب کر دیا۔
    میرا غصے سے برا حال ہو گیا۔
    کتے کا دماغ بھی اب ٹھکانے آگیا ہے کہ اب دوبارہ اس کا بھی ایک گھنٹے کا بھونکتا لکچر سننے کا ارادہ نہیں لگتا۔
    پودے کے قریب بھی نہیں جاتا۔
    ہر جاندار سے انسان کی محبت کا انداز مختلف ہوتا ہے جی۔محبت پودے سے ہو یا جانور سے انسان کیلئے فائدہ مند ہی ہو تی ہے۔

  • ہفتہ, جون 08, 2013

    دل پر ایک چوٹ سی لگی ہے، یوں لگتا ہے جیسے ہم سب اپنے قیمتی اثاثوں کو بس پرانا کہہ کر رد کر رہے ہیں اور نئے اور غیر معیاری اشیاء کے ڈھیر لگا کر اپنے لئے جھوٹی تسلی کا بندوبست کررہے ہیں۔ میرے پاس اور کوئی الفاظ نہیں ہیں۔۔۔

  • اتوار, جون 09, 2013
    گمنام :

    your page is very interesting and hope i will your page daily

  • اتوار, جون 09, 2013

    بہت خوب زبردست۔
    علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کہا تھا کہ
    خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو
    سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

.