جمعہ، 6 دسمبر، 2013

مائی جھوٹ بولتی ہے

6 تبصرے
ساٹھ سالہ رشیداں بی بی تین چار سال پہلے میرے پاس آئی تھی، اس کے ساتھ اس کا بیٹا اور بہو تھے، رشیدہ بی بی ساہیوال کے قصبے یوسف والا کی رہنے والی تھی، اس کے بیٹے نے گاؤں کے با اثر گھرانے کی لڑکی سے لو میرج کر لی تھی اور وہ جان کو خطرے کی وجہ سے لاہور میں کہیں پناہ لئے ہوئے تھے، رشیداں بی بی نے بتایا کہ اس کی بہو کے ورثاء اسے اٹھا کر لے گئے تھے اور اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا،انہوں نے اس کے بوڑھے خاوند پر بھی جھوٹا مقدمہ بنا کر ساہیوال جیل میں بند کرا رکھا تھا، یوسف والا میں اسکی جواں سال بیٹی جو بی اے کی طالبہ تھی جان اور عزت بچانے کے لئے اپنے ہی گھر کے ایک کمرے میں قیدی بن کر رہ رہی تھی، اس خاندان کی مدد کو گاؤں کا کوئی شخص سامنے نہیں آیا تھا، پولیس رشیدہ بی بی سے اجتماعی زیادتی کا پرچہ کاٹنے کی بجائے اسے خوفزدہ کر رہی تھی کہ وہ اپنے بیٹے اور بہو کو پیش کردے ورنہ اس کی طالبہ بیٹی کے ساتھ بھی وہی ہوگا جو اس کے ساتھ کیا گیا۔۔۔
رشیدہ بی بی اپنے اور اپنے خاندان کے ساتھ گزرنے والی کسی قیامت کو کسی ٹی وی چینل پر چلوانا چاہتی تھی نہ کسی اخبار میں چھپوانا،،،،، وہ انصاف چاہتی تھی۔۔ لیکن کوئی عدالت کوئی تھانہ اس کے لئے نہیں بنا تھا، روزانہ وقوع پذیر ہونے والےاس طرح کے سیکڑوں،ہزاروں واقعات تو تماشہ ہوتے ہیں ۔ جنہیں ہم بڑی دلچسپی سے دیکھتے اور سنتے ہیں۔۔
میں نے ساہیوال میں دی نیوز کے نمائندے علمدار حسین شاہ کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ رشیدہ بی بی کی مدد کرے، میں نے اس خاتون کی آئی جی سے ملاقات بھی کروائی، لیکن نتیجہ کوئی نہ نکلا، رشیدہ بی بی در بدر رہی
دو تین مہینے گزر گئے، رشیدہ بیگم آئی نہ اس کی کوئی کال،پھر جب وہ آئی تو اس حالت میں کہ اسے دیکھا نہیں جا سکتا تھا، اس کے چہرے پر تیزاب ڈال دیا گیا تھا، پولیس اس کامقدمہ بھی نہیں درج کر رہی تھی، ساہیوال پولیس کا کہنا تھا کہ مائی ڈرامے کر رہی ہے،اپنے اوپر تیزاب بھی اس نے خود اپنے اوپر ڈالا ہے
رشیدہ بی بی اپنی بپتا مجھے سنا رہی تھی کہ اسی دوران پنجاب اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر راجہ ریاض میرے کمرے میں آ گئے، میں نے رشیدہ بی بی سے کہا کہ اچھا ہوا کہ آپ کی موجودگی میں راجہ صاحب آ گئے، شاید یہ آپکی کوئی مدد کر سکیں۔۔ میں نے راجہ صاحب کے کرسی پر بیٹھتے سے پہلے ہی انہیں رشیدہ بی بی کی کہانی سنادی، انہوں نے اپنے سیکرٹری سے کہا۔۔۔ ڈی پی او ساہیوال کا نمبر ملاؤ۔۔۔۔۔ راجہ  صاحب نے ڈی پی او سے رشیدہ بی بی کی بابت پوچھا اور پانچ سیکنڈ میں ہی جواب سن کر موبائل سیکرٹری کو واپس کرتے ہوئے کہا
!
!
مائی جھوٹ بولتی ہے
اور پھراس واقعہ کے چند دن بعد ہی رشیدہ بی بی کے بیٹے کی کال آئی۔۔۔۔۔


ماں مر گئی ہے جی


اس تحریر کے راوی معروف صحافی اور دانشور خاور نعیم ہاشمی ہیں جو آج کل جیو نیوز نیٹ ورک سے منسلک ہیں

6 تبصرے:

  • جمعہ, دسمبر 06, 2013

    مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے :(

  • جمعہ, دسمبر 06, 2013
    گمنام :

    لعنت ہے ایسے معاشرے پہ جہاں کمزور اور طاقتور کے لئیے انصاف کے دو الگ پیمانے ہوں۔ ایسے معاشرے ناپید ہو جاتے ہیں۔
    یہ ہماری پوری قوم کا المیہ ہے ۔ ہمیں سوچنا چاہئیے ۔ رُکنا چاہئیے اور ایک بار اپنی سمت درست کرنی چاہئیے ۔ ورنہ خدا کے مجرم اور خدا کی مخلوق کے بھی مجرم ٹہرائے جائیں گے۔

  • جمعہ, دسمبر 06, 2013

    ان کمینوں سے انصاف کی توقع کرنا بذات خود ایک حماقت ہے

  • جمعہ, دسمبر 06, 2013

    پولیس کا جو نظام ہمیں ہندوستان پر قابض انگریز بنا کر دے ہم نے اُس میں بہتری لانے کی بجائے اور ابتر کر دیا ہوا ہے ۔ لیکن بات صرف پولیس کی نہیں سب کی ہے ۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو کسی ایسے آدمی کی مدد کرتے ہیں جس سے کسی فائدے کی بالکل اُمید نہ ہو ؟ صحافی بھی وہ خبر لگاتے ہیں جس کے نتیجہ میں اُنہیں کچھ فائدہ نظر آتا ہو۔ اس ادارہ جیو کے اخبار میں میں نے فقط جھوٹ لکھا پایا ہے رپورٹ کے نام پر ۔

  • اتوار, دسمبر 08, 2013

    ایسے حالت میں پولیس والے بےچارے کیا کرسکتے ہیں۔
    معمولی ادھر اُدھر کریں تو یہ بے چارے بھی فاقے کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں

    اس میں سارے کا سارا قصور سیاست دانوں کا ہے۔مائی خود کش حملہ نہیں کرے گی تو اور کیا کرے گی۔

    بات اس وقت بنتی جب اسکو بار بار میڈیا پر لایا جاتا،اور جب تک ملزمان کیفر کردار تک نہ پہنچتے ،انکی پٹی چلائی جاتی۔

  • منگل, دسمبر 10, 2013
    گمنام :

    ایک نہیں کتنے ہی ایسے کربناک واقعات ہوں گے ۔

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

.