اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنا جذباتیت نہیں بلکہ عبادت ہی‘ تو بھلا ہم اُن سے محبت کابرملا اظہار کیوں نہ کریں؟ کیوں نہ ڈنکا بجائیں!‘ شادیانے بجائیں! چونکہ ترقی یافتہ ممالک میں محبت کے اظہار کے لیے کچھ ایام مخصوص ہوتے ہیں لہٰذا ہم نے بھی اس کام کے لیے ربیع الاوّل کا مہینہ مخصوص کرلیا ہے۔ ادھر ربیع الاوّل کا گلی میں چاند نکلا ادھر عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اژدھام ہوا۔ گلیاں چوبارے سجا دیئے گئی‘ ممبر و محراب چمکا دیئے گئی‘ خانقاہوں‘ درباروں اور مساجد میں چراغاں کردیا گیا‘ ہر گھر‘ ہر عمارت‘ ہر گلی‘ ہر کوچے میں سبز جھنڈا لہرا دیا گیا۔ 14 اگست کی روایت کی طرح ہر ہاتھ میں جھنڈا‘ ہر دکان میں جھنڈا‘ ہر فٹ پاتھ پہ جھنڈا‘ ہر بازار میں جھنڈا نظر آنے لگا‘ ہر گلی میں ایک ٹینٹ لگا ہی‘ ہر لاوڈ اسپیکر سے صدا آرہی ہے ”جشن آمد رسول اللہ ہی اللہ“ عیقدت کے پھول نچھاور کیے جارہے ہیں‘ محبت کے گلدستے پیش کیے جارہے ہیں۔ سیرت کے جلسے ہورہے ہیں‘ نعتیہ مشاعرے پڑھے جارہے ہیں‘ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منایا جارہا ہی‘ عطر پاشی کی جارہی ہی‘ گل پاشی کی جارہی ہی‘ نعت خوانوں پر روپے اشرفی‘ ڈالر و درہم لٹائے جارہے ہیں۔ ان محافل میں شرکت کو خوش بختی و سعادت سمجھنے کے ساتھ ساتھ نجات کی گارنٹی سمجھا جارہا ہے۔ خواتین نہایت ادب و احترام‘ تیاری اور اہتمام کے ساتھ محفل میلاد میں شریک ہورہی ہیں‘ آنکھوں میں کجرا اور ہاتھوں میں گجرا سجا ہوا ہی‘ بہترین تراش خراش کے لباس میں ملبوس ہیں‘ گوٹے کنارے کے دوپٹے برہنہ سروں کو آج ڈھانپے ہوئے ہیں‘ ثواب بھی مل رہا ہے اور شیرنی بھی ۔ نعتوں کے نئے البم ریلیز ہورہے ہیں‘ مشہور مغنیوں کے علاوہ اداکارائیں اور فن کارائیں نعت خوانی کی سعادت سے مشرف ہورہی ہیں‘ نعت خواں صبح اس محفل میں‘ شام اس محفل میں‘ دن اس ریکارڈنگ میں‘ رات اس ریکارڈنگ میں (کیا فیوض و برکات ہیں! واللہ!) کہہ کہہ کر جھوم جھوم کر نعت پڑھتے جارہے ہیں‘ اعلان کرتے ہیںکہ ”میں تو پنجتن کا غلام ہوں‘ میں غلام ابن غلام ہوں“ دعویٰ کرتے ہیں کہ ”تم پر میں لاکھوں جان سے قربان یا رسول!“ جلسی‘ جلوس‘ ریلیاں‘ محافل‘ کانفرنس‘ خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے فلوٹ‘ جشن میلاد النبی کے بینرز.... غرضیکہ کوئی کسر نہیں چھوڑتے اظہار عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں۔ ہم چونکہ ہر کام میں ”دکھاوے“ کے قائل ہوچکے ہیں اس لیے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی دکھاوے سے باز نہیں آتی‘ حد سے گزر جاتے ہیں‘ غلو کر جاتے ہین‘ جذبات کے اس ریلے میں یہ بھی نہیں سوچتے کہ ہم کر کیا رہے ہیں؟ دھوم دھام سے جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی منا لیتے ہیں۔ ہم سب کچھ کرلیتے ہیں مگر وہ نہیں کرتے جو آپ کو پسند ہی‘ جس میں آپ کی خوشنودی ہے۔ اگر ہم کسی کام کو کرنے سے قاصر ہیں تو وہ صرف اسوہ حسنہ کی پیروی ہے۔ اگر اس ماہِ مبارک میں ہم صرف ایک سنت کو ہمیشہ کے لیے اپنانے کا ارادہ کرلیں تو شاید اس محبت کا ایک ادنیٰ سا حق ادا ہوسکے جس کا دعویٰ ہم ببانگ دہل کرتے ہیں۔
فہرستِ صفحات
منظر نامہ شناسائی
آمدو رفت
محفوظات
-
▼
2012
(42)
-
▼
فروری
(8)
- ذرائع ابلاغ وسیع پیمانے پر اخلاقی تباہی پھیلانے وا...
- پاکستان میں پرائیویٹ سیکٹرکو تعلیم کے میدان میں کھ...
- پاکستان میں پرائیویٹ سیکٹرکو تعلیم کے میدان میں ک...
- ویلنٹائن ڈے ,دنیاکی خاطر اپنی آخرت برباد کرنا خسار...
- دوست ہیرے کی مانند ہے اور بھائی سونے کی مانند
- اگر اس ماہِ مبارک میں ہم صرف ایک سنت کو ہمیشہ کے ل...
- غیرضروری اشیاءکی خریداری کو ترک کرکےطلب میں کمی لا...
- پھربھی پانچ سال پورے کرنے کی خواہش؟
-
▼
فروری
(8)
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
منگل، 7 فروری، 2012
اگر اس ماہِ مبارک میں ہم صرف ایک سنت کو ہمیشہ کے لیے اپنانے کا ارادہ کرلیں تو شاید اس محبت کا ایک ادنیٰ سا حق ادا ہوسکے جس کا دعویٰ ہم ببانگ دہل کرتے ہیں
rdugardening.blogspot.com
منگل, فروری 07, 2012
0
تبصرے
اس تحریر کو
اسلامیات,
مصطفیٰ ملک، مصطفےٰملک ،
کے موضوع کے تحت شائع کیا گیا ہے
.
0 تبصرے:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔