پیر، 26 مارچ، 2012

واہ وکیل صاب

3 تبصرے

وزیراعظم کے وکیل اورسینیٹ میں نئے قائدایوان بیرسٹراعتزازاحسن پاکستان کے روشن خیال دانشوروں میں ایک اہم نام ہیں۔ ان کی فکرودانش کا ان کے مخالفین بھی احترام کرتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلوں پر عمل درآمد نہ ہونے اور وزیراعظم پرتوہین عدالت کے الزام میں ’’فرد جرم ‘‘ عائد ہونے کے بعد اعتزازاحسن نے اپنی زندگی کے سب سے مشکل مقدمے کا دفاع شروع کیاہے۔ اس مقدمے میں بیرسٹر اعتزازاحسن کے دلائل نے دوستوں اور ناقدوں سب کو شرمندہ کرنا شروع کردیاہے۔ وہ کوئی تکنیکی نکتہ سامنے نہیں لاسکے ہیں۔  گزشتہ روز عدالت عظمیٰ میں وزیراعظم کے حق میں دلائل دیتے ہوئے وکیل صفائی بیرسٹر اعتزازاحسن نے کہاکہ عدالت نے وزیراعظم کے خلاف سخت الفاظ استعمال کیے ہیں حالانکہ وہ پیراورگدی نشین ہیں۔ روشن خیال حضرات ایک جملہ بار باراستعمال کرتے ہیں کہ وہ پاپائیت اور تھیوکریسی کو تسلیم نہیں کرتے ۔ویسے تو اسلام میں پاپائیت کا کوئی وجود نہیں ہے‘ لیکن وکیل صفائی بیرسٹر اعتزازاحسن نے وزیراعظم کا یہ استحقاق بیان کیاہے کہ چونکہ وہ پیر اورگدی نشین ہیں اس لیے ان کے بارے میںسخت الفاظ استعمال نہیں کیے جانے چاہئیں تھے۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ ہمارے ملک کا لبرل اور روشن خیال طبقہ کس تضاد فکری کا شکارہے۔ جدیدیت تو ویسے بھی کسی طبقے کا تقدس قبول نہیں کرتی۔ یہ الگ بات ہے کہ حکومت نے ریاست کے سب سے بڑے منصب دارکو استثنیٰ کے ’’مقدس‘‘ منصب پرفائزکیاہواہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج وزیراعظم کی صفائی پیش کرنے کے لیے اعتزاز احسن کو اس لیے موقع مل گیا ہے کہ عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے حکومت کو ضرورت سے زیادہ مہلت دے دی ہے۔ اس کی وجہ سے پاکستان کا لبرل طبقہ بھی بے نقاب ہوگیاہے۔

3 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

.