جمعرات، 10 نومبر، 2016

خزیمہ نصیر کی موت کا ذمہ دار کون ؟ حکمران یا والدین

0 تبصرے
پنجاب کے چھوٹے سے شہر ڈسکہ سے جرمنی جانے والا پچیس سالہ خزیمہ نصیر جرمنی کے ہسپتال میں بے کسی کی حالت میں صرف ایک دفعہ اپنے والدین تک پہنچ چانے کی خواہش دل میں لئے اپنی زندگی کی بازی ہار گیا،آنکھوں میں سہانے مستقبل کے خواب سجائے حزیمہ ایک سال سال قبل ایران، ترکی،یونان اور یورپ کے دیگر راستوں سے ہوتا ہوا جرمنی پہنچا تھا اس بھیانک اور طویل سفر کے دوران ایرانی بارڈر پر وہ اور اس کے ساتھی پکڑے بھی گئے اور حزیمہ کی ایک ٹانگ میں گولی لگ گئی اور وہ ایران کے ایک ہسپتال میں زیر علاج بھی رہا،اس کے ساتھی تو ملک بدر کر دیئے گئے مگر اس کو آزاد کر دیا گیا۔ اس نے سفر جاری رکھا اور یورپی ممالک کے غیر قانونی راستوں سے سفر کرتا ہوا جرمنی پہنچ گیا۔جرمنی آنے کے صرف چندماہ بعد ہی اسے شدید بخار ہوا اور اس کی ایک ٹانگ بہت زیادہ سوج گئی تھی۔ یہ اس کی وہی ٹانگ تھی، جس پر ایران میں اسے گولی لگی تھی۔ جب اسے ایک ہسپتال میں داخل کرایا گیا تو تفصیلی معائنے پر بتایا چلا کہ وہ سرطان کا مریض ہے۔ ہسپتال میں ایک ماہ تک زیر علاج رہنے کے بعد اسے کولون کے ایک بڑے ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ اس ہسپتال میں ڈاکٹروں کو پتہ یہ چلا کہ خزیمہ نہ صرف ہڈیوں کے سرطان میں مبتلا ہے بلکہ اس کی یہ بیماری تب تک بہت خطرناک حد تک پھیل چکی تھی۔ پھر سرطان کے علاج کے لیے اس کی کئی طرح کی کیموتھراپی بھی کی گئی لیکن کینسر بڑھتا گیا اور آخر کار ڈاکٹروں کو اسے بتانا پڑا کہ وہ اس کا مزید علاج نہیں کر سکتے تھے۔ اپنا آخری وقت اپنے والدین کے ساتھ گزارنے کی خواہش لئے نو مارچ 1992ء کو ڈسکہ میں پیدا ہونے والا خزیمہ جو ابھی 25 برس کا بھی نہیں ہوا تھا کہ جمعہ چار نومبر کو صبح 10 بج کر 48 منٹ پر خزیمہ اپنے آخری سفر پر روانہ ہوگیا۔جرمنی میں رہنے والے چند درمند پاکستانیوں نے اس کی والدہ کو جرمنی بلانے کے لیے ویزے کے حصول کی کارروائی بھی شروع کی مگر قانونی پیچیدگیوں کے باعث مکمل نہ ہو سکی اس پردیس میں ایک نوجوان اپنوں کو پکارتا اللہ کے حضور پہنچ گیا ۔
خزیمہ کی موت نے مجھ جیسے لاکھوں لوگوں کو رونے پر مجبور کردیا۔خزیمہ کے بارے میں مجھے معلومات ایک سرچ کے دوران جرمنی کی سرکاری اردو ویب سائیٹ سے ملیں۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ بدقسمت حزیمہ کی موت کا ذمہ دار کون ہے ،ہمارے حکمران یا اس کے والدین۔ریاست کے ہر شہری کی تعلیم ،روزگار اور کفالت کی ذمہ دار حکومت ہوتی ہے،اگر حکمران حزیمہ اور اس جیسے لاکھوں نوجوانوں کو روزگار فراہم کر دیں تو شائد کوئی اور حزیمہ اپنی ماں کے زیور فروخت کرکے سہانے مستقبل کے خواب سجائے پردیس نہ جائے ، ماں باپ کیا کریں ،جس باپ کو بڑھاپے میں اس لئے نیند نہ آتی ہو کہ چار جوان بیٹیوں کے جہیز کا کس طرح بندوبست کرنا ہے تو اس کا بیٹا اپنے والدین کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا پھر اس کے پاس پھر ایک ہی حل ہے یا تو گن اٹھا کر ڈاکو بن جائے یا پھر خزیمہ کی طرح دھکے کھاتا جرمنی چلا جائے اور پھر پھر ہمیشہ ہمیشہ کے ماں باپ سے دور ہوجائے ۔اب بھی وقت ہے کہ حکمران اور اپوزیشن دھرنا دھرنا کھیلنے کی بجائے عوام کو ریلیف دیں تاکہ آئندہ کوئی اور حزیمہ پردیس میں ایڑیاں رگڑرگڑ کر مرنے پر مجبور نہ ہو۔یاد رکھنا اگر حکمرانوں اگر آپ یہ نہ کر سکے تو روزقیامت خزیمہ کی ماں کا ہاتھ ہوگا اور آپ کا گریبان ہوگا۔
وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور میرٹ کے قتل عام نے ملک میں ملک میں بے روزگاری میں اضافہ ہوا جس نے دہشت گردی کو بھی پروان چڑھایا ،عوام کو تعلیم صحت ،روز گار انصاف اور چھت کی سہولت دینا حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے مگر کسی حکومت نے بھی اس طرف کوئی دھیان نہیں دیا جس کی وجہ سے آج کا نوجوان بے چینی ،مایوسیوں اور محرومیوں کا شکار ہو کر بیرون ملک جانے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے نتیجہ میں خزیمہ نصیر جیسے واقعات جنم لیتے ہیں
یہ تحریر اردو کی بڑی ویب سائٹ دلیل ڈاٹ پی کے پر بھی شائع ہو چکی جو درج ذیل لنک سے پڑھی جا سکتی ہے

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

.