جمعہ، 21 اکتوبر، 2016

کیا پنجابی بیہودہ زبان ہے ؟

1 تبصرے
تحریک انصاف کی خاتون راہنما کے سکولوں کے نیٹ ورک بیکن ہاؤس نے اپنے سکولوں میں پنجابی زبان کو بے ہودہ زبان قرار دیتے ہوئے اس زبان میں گفتگو کرنے پر پابندی لگانے کا باقاعدہ نوٹیفیکیشن جاری کر کے پوری ایک تہذیب پر حملہ کیا ہے۔اس افسوس ناک خبر نے اپنی مادری زبان سے محبت کرنے والے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے میرے جیسے کروڑوں لوگوں کی دل آزاری کی ہے لیکن میرے خیال میں اس میں قصوروار شائد وہ سکول والے نہیں جتنے ہم خود پنجابی ہیں ،ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پنجابی متعصب نہیں ہیں،اس لئے پنجابی سے ان کی محبت بھی کمزور ہوتی جارہی ہے۔اگر آپ اندرون سندھ جائیں تو آپ کو ہر ریلوے اسٹیشن پر نام اردو کے ساتھ سندھی میں بھی لکھا نظر آئے گا۔ بعض جگہوں پر دکانوں کے سائن بورڈ بھی سندھی میں لکھے نظر آئیں ،دوسری طرف پختون بھائیوں کی ایک انتہائی اچھی عادت ہے ،جب بھی جہاں بھی دو پختون اکھٹے ہوں گے تو پشتو میں بات کریں گے لیکن ہمارے ہاں پہلے گھروں میں پنجابی کی جگہ اردو نے لی اور اب اس کی جگہ بتدریج انگریزی لے رہی ہے۔ ماؤں کا اپنے بچوں سے گفتگو کا سٹائل کچھ اس طرح ہے " پپو بیٹا،جلدی سے میڈیسن لے لو،یو نو سنڈے کو تمہاری برتھ ڈے ہے،مما پاپاآپ کو وش کریں گے،کیک کاٹیں گے،پپا آپ کو سرپرائز گفٹ دیں گے،اس لئے جلدی جدی ہیل اپ ہو جاؤ" اب جو لوگ اردو کے ساتھ یہ کھلواڑ کر سکتے ہیں پنجابی ان کی کیا لگتی ہے ۔ یہ لوگ جو جی چاہیں کریں مگر میرے جیسے کروڑوں پنجابی جنہیں اس زبان سے اپنی ماؤں کی خوشبو آتی ہے ،کبھی اس سے ناطہ نہیں توڑیں گے۔بچوں کے ساتھ ہونے والے اس کھلواڑ نے بچوں کو ذہنی مریض بنا دیا ہے،گھر میں اردو بولی جاتی ہے ، سکول میں انگریزی بولنے کا حکم آتا ہے تو محلے میں دوسرے بچوں کے ساتھ پنجابی بولنی پرتی ہے جس سے بچوں کی ذہنی نشوونما پر انتہائی برے اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔پنجابی کو بیہودہ زبان کہنے والوں کو معلوم ہی نہیں کہ یہ تو صوفیا ء کرام کی زبان ہے ، یہ توبابا بلھے شاہ، بابا فرید گنج شکر، وارث شاہ اور شاہ حسین جیسے بزرگوں کی زبان ہے ۔کیا ایسا ممکن ہے کہ کسی زبان کو ہی بیہودہ قرار دے دیا جائے ۔آپ کوکبھی کینیڈا،برطانیہ یا ان یورپی ممالک جانے کا اتفاق ہو جہاں بھارتی سکھ آباد ہیں وہ آج بھی اپنے گھروں میں اور اپنے بچوں کے ساتھ پنجابی بولتے ہیں ،ان کے معصوم بچے ٹھیٹھ پنجابی میں گفتگو کرتے کتنے پیارے لگتے ہیں ،حیرت ہے ان لوگوں پر جو اپنی ماں بولی ،اپنی تہذیب کو چھوڑنے اور برا بھلا کہنے پر تلے ہوئے ہیں۔ دنیا بھر کے ماہرین تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ اگر مادری زبان میں تعلیم دی جائے تو اس کے دورس اثرات مرتب ہوتے ہیں کیونکہ سکول جانے کی عمر سے پہلے ہی بچے کے پاس اپنی مادری زبان کے ہزاروں الفاظ کا ذخیرہ ہوتا ہے لیکن جب اسے سکول میں جاکر نئے الفاظ اور نئی زبان سیکھنی پڑتی ہے تو اسے اس کے لئے کئی سال لگ جاتے ہیں ۔ ایک طرف توآئین پاکستان کی دفعہ 251 میں صوبائی حکومتوں کو مقامی زبانوں کی ترویج و اشاعت کا پابند کیا گیا ہے تو دوسری طرف ایک سکول کی طرف سے اس طرح کا نوٹیفیکیشن جاری ہونا قابل افسوس ہے ،میرا خیال ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو بھی اس پر نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔
یہ تحریر اردو بڑی ویب سائیٹ دلیل ڈاٹ پی کے پر بھی چھپ چکی ہے، نیچے دیئے گئے لنک سے اسے پڑھا جا سکتا ہے

1 تبصرے:

  • ہفتہ, اکتوبر 22, 2016

    مندرجہ ذیل ربط (لِنک) پر کلِک کر کے اسی سلسلے میں ایک معلوماتی تحریر پڑھیئے
    http://www.theajmals.com/blog/2016/10/%d8%a7%d8%ad%d8%b3%d8%a7%d8%b3%d9%90-%da%a9%d9%85%d8%aa%d8%b1%db%8c-%db%8c%d8%a7-%d9%88%d8%b7%d9%86-%d8%af%d9%8f%d8%b4%d9%85%d9%86%db%8c-%db%94-%d8%a8%db%8c%da%a9%d9%86-%db%81%d8%a7%d8%a4%d8%b3-%d8%b3/

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

.