محترم شعیب صفدر گھمن نے ایک نئی روائت کا آغاز کیا اور پھر احباب کو بھی حکم نامہ صادر فرمایا کہ اپنے پہلے روزے کے متعلق لکھا جائے اور پھر ان کے حکم پر ڈاکٹر اسلم فہیم،نعیم خان اورمحترمہ کوثر بیگ اور کچھ دوسرے احباب نے بھی لکھا اور ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی ترغیب دی ، شعیب صاحب کی طرح محترم نعیم خان اور داکٹر اسلم فہیم نے تو باقاعدہ حکم نامہ جاری فرمایا کہ ہرصورت لکھا جائے ۔کئی دنوں سے کوشش میں تھا کہ کچھ لکھ سکوں ،سوچنے بیٹھتا تو یادوں کا سلسلہ ایک ایسی شخصیت تک چلا جاتا کہ کہ گھنٹوں گزر جاتے اور اور کچھ بھی نہیں لکھا جاتا ۔ بچپن کہ بارے میں سوچتے ہی اولین یاد ماں ہوتی ہے اور ماں کی یاد آجائے تو باقی ساری یادیں بھول جاتی ہیں ،سلسلہ کہیں سے شروع ہوتا ہے اور چلا کہیں اور جاتا ہے ،ایسے ہی ہوا اور کچھ لکھا نہیں جا سکا ۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب کچھ کچھ ہوش سنبھالی تو ان دنوں شدید سردیوں میں روزے تھے،تب نہ تو گھر اتنے بڑے تھے اور نہ اتنی سہولتیں تھیں ۔کچھ یاد آتا ہے کہ ایک سال شدید ضد کی یہ میں نے بھی روزہ رکھنا ہے مگر ماں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ بچوں کا تو چڑی روزہ ہوتا ہے،اللہ تعالیٰ بچوں سے بہت پیا ر کرتے ہیں اس لئے بچے اگر ایک دن میں دو دفعہ بھی رکھ لیں تو اللہ میاں ناراض نہیں ہوتے مگر دل کہتا کہ یہ سبھی بہلاوے کی باتیں ہیں اگر ایک دن میں دو رکھے جا سکتے تو یہ سب کیوں دو نہیں رکھتے۔وہ سال گزر گیا تو آئندہ سال شب برات کی آمد پر ہی ہم نے ضد شروع کر دی کہ اس سال روزہ ضرور رکھنا ہے،تب شب برات کی آمد اس امر کا اعلان سمجھا جاتا تھا کہ روزوں کی تیاری کر لیں اور میری ماں اس دن کا روزہ رکھتی تھی اور شام کو حلوہ پوری کے ساتھ کھولا جاتا تھا ۔رمضان شروع ہوا تھا تو ہماری ضد بھی عروج پر پہنچ گئی ،ماں نے ہماری ضد کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔بس اتنا یاد ہے کہ ماں نے سحری کے وقت گردن سے پکڑ کر اٹھایا اور وہیں کلی کرنے کے لئے پانی فراہم کردیا ،رضائی سے نکلنے کی اجازت نہیں ملی ۔وہیں ہمیں پراٹھا اور دہی فراہم کر دیا گیا اور ماں نے اپنے ہاتھوں سے ہمیں نوالے بنا کر دیئے ،ساتھ چائے کی پیالی منہ کو لگا دی اور حکم دیا کہ سو جاؤ ۔صبح سو کر اٹھے تو حسب عادت ناشتہ طلب فرمایا تو ہمیں یاد کروایا گیا کہ ہمارا روزہ ہے اور اب بھول کر بھی کوئی چیز نہیں کھانی ، شدید سردیاں تھیں ماں نے سارا دن گھر سے بھی باہر نہیں نکلنے دیالیکن بھوک تو بھوک ہوتی ہے ،کچھ لگی بھی روئے بھی اور ماں سے جھڑکیاں بھی وصول کیں،ماں نے سارے محلہ کو بتایا کہ آج میرے بیٹے نے روزہ رکھا ہے اور شام کو سارا محلہ اکھٹا ہوا مبارک باد دینے کے لئے اور والد محترم میرے لئے میری پسندیدہ مٹھائی گرما گرم جلیبیاں لے کر آئے جس سے میں نے افطاری کی لیکن اگلے رمضان تک روزے رکھنے کی اجازت نہ ملی ،پھر نہیں یاد پڑتا کہ کبھی روزہ چھوڑا ہو کیوں کہ جن بچوں کے روزوں کی ابتدا سردیوں میں ہوتی ہے ان کی روزے رکھنے کی عادت پختہ ہو جاتی ہے ، گرمیوں میں بچوں کو روزے رکھنے نہیں دیئے جاتے جس پر انہیں آئندہ زندگی میں مشکل ہی لگتے ہیں ۔اللہ کریم ہم سب کو رمضان المبارک کی سعادتیں سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے ، اللہ کریم میری ماں کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے جن کی تربیت سے میں روزے رکھنے کے قابل ہوا ۔
جمعہ، 3 جولائی، 2015
بچپن کا رمضان
rdugardening.blogspot.com
جمعہ, جولائی 03, 2015
13
تبصرے
اس تحریر کو
بچپن کا رمضان ، مصطفیٰ ملک کا بلاگ ،
کے موضوع کے تحت شائع کیا گیا ہے
13 تبصرے:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔
.
بہت اعلیٰ تحریر سر جی
کسی کا روزہ سردیوں میں تو کسی کا گرمیوں میں لیکن ان سب میں ایک بات تو "مشترک" ہے اور وہ ہے ماں کی محبت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کا کوئی ثانی نہیں
آمین
بچپن اور والدین یہ دونوں سچ میں ایک دوسرے سے منسلک ہیں ایک کو یاد کرو تو دوسرے کی یاد اس میں بسی ملتی ہے ۔ بس اچھا لگا بھائی آپ کی باتیں پڑھکراللہ آپ کو سلامت رکھے۔
بچپن ماں سے وابستہ ہوتا ہے جہاں ماں نہ ہو وہاں بچپن آدھورا ہی ہوتا ہے۔ ہماری خوشیاں اور تمام کامیابیاں ماں کی دعا اور اس کی تربیت کا نتیجہ ہے۔
محترم نجیب عالم ، نعیم اللہ خان ،محترم ڈاکٹر اسلم فہیم ،بہن کوثر بیگ ،
آپ سب کی محبتوں کا شکریہ
جناب مصطفیٰ ملک صاحب آپ نے مجھے اس تحریر سے جناح کالونی کے گھر کی ساری یاد دلوا دی رمضان شریف کے روزے گھر کی بھنسوں کا دودھ اور زمان کریانے والے سے لال سوڈے کی بوتل اور پھر دودھ سوڈا کراچی سے آئی کجھوریں کیا یاد آیا ملک صاحب اللہ آپ کو خوش رکھے جو آپ نے مجھ نا چیز کو اپنے بچپن کے دن ماں اور باپ کی شفقت کے ساتھ گذرے لمحات کیا بات ہے۔۔۔۔۔۔۔
بچپن کی یادیں ماں کے ساتھ ہوتی ہیں جو اُنھیں باآواز بلند یادکرتی اور واقعات سناتی ہیں -تحریرمختصر لیکن بہت عمدہ ہے اور
بےساختگی اور مصومیت سے مہک رہی ہے -
عبدالماجد بھائی ، شکریہ ،
ماں کی خوشبو سے مہکتا احساس لیے اس تحریر نے مجھے آپ کا وہ بلاگ یاد دلا دیا جو دو برس پہلے آپ کے لفظ سے وجۂ تعارف بنا۔
"اگست کا مہینہ اور ماں کی یاد"۔۔۔۔اگست 01, 2013
ایسی مائیں تو خواب خیال ہوئیں اب تو ہم جیسی مائیں ہی ملتی ہیں جو نہ تو اتنے لاڈ اٹھاتی ہیں اور نہ ہی ان کے بچے اتنے معصوم ہوتے ہیں۔بس ایک احساس ذمہ داری ہے جس پر ضمیر کے مطابق عمل کرنا ہے بس۔ اور اس نفسا نفسی کے دور میں یہی غنیمت دکھتا ہے۔
شکریہ ،بہن نورین تبسم ، اللہ تعالی ہم سب پر رحمت فرمائے ،
آپ کے گراں قدر خیالات میرے لئے باعث اعزاز ہیں
بچپن جس کا بھی ہو ایسا ہوتا ہے معصوم اوربہت ہی خوبصورت ، ۔۔۔ ماں کے بغیر بچپن ادھورا ہوتا ماں اور بچپن جیسے لازم و ملزوم ہیں ۔۔بہت ہی اچھی یادوں بھری تحریر
پسندیدگی کا شکریہ ، اسریٰ بہن
بہت عمدہ ۔۔۔۔ یہ سلسلہ تو گویا حکم نامہ ہے کہ اپنی مصروف زندگی سے کچھ لمحے کو اپنے بچپن کی سیر کر آئیے ۔۔۔ اور بچپن سب ہی کو پُر کیف لگتا ہے۔
سدا خوش رہیں