فہرستِ صفحات
▼
پیر، 11 نومبر، 2013
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
یہ اڑھائی سالہ نور فاطمہ ہے جو دس نومبر کی
صبح اپنے والد کے ہمراہ موٹر سائیکل پر ناشتہ لینے نکلی اور قاتل ڈور نے
ایک جھٹکا سے اس کی زندگی کی ڈور کاٹ دی۔
ذرا تصور کیجئے وہ کتنا کرب ناک لمحہ ہو گا جب اس کا والد اس کی تن سے جدا گردن
والی لاش اٹھائے سڑک پر کھڑا ہو گا۔ سنا
ہے پرانے وقتوں میں بادشاہ اپنی تفریح کے لئے زندہ انسانوں کو ایک بڑے میدان میں بھوکے شیروں کے سامنے ڈال
دیا کرتے تھے اور شیروں کی انسانی جسموں کی چھیڑ پاڑھ اور انسانی آہ و بکاہ سے لطف
اندوز ہوا کرتے تھے ۔ اب یہی ڈرامہ عصر حاضر کےحکمران کر رہے ہیں، سمجھ نہیں آتا
یہ کونسی تفریح ہے جس نے لوگوں کو گلے کاٹنے
کی آزادی تک فراہم کر دی ہے۔ کسی کی جان
چلی جاتی ہے اور آپ اسے تفریح قرار دیتے ہیں۔پتنگ بازی کے باعث معصوم شہریوں کی ہلاکتوں کے باعث سپریم کورٹ کے احکامات پر حکومتیں
پتنگ بازی پر مکمل پابندی عائد کر چکی ہیں۔ یہ پابندی گذشتہ حکومتوں کے ادوار سے چلی
آ رہی ہے ۔ ’’بسنت‘‘ کو فیسٹیول کی شکل
دی جا چکی ہے ۔ ثقافت کے نام پر سارا دن انڈین گانوں کے بلند آواز میں چھتوں لاؤڈ
سپیکر لگا کر لوگوں کے گلے کاٹے جا رہے ہیں اور نام نہاد دانشور اسے قومی ورثہ
قرار دے رہے ہیں۔ ہر سال درجنوں
جانیں اس تفریح کی نذر ہو جاتی ہیں مگر پھر بھی معصوم شہریوں کیساتھ ہونیوالے اندوہناک
حادثات کے باوجود مکمل طور پر ختم کیا جا رہا۔ صوبائی
انتظامیہ اور پولیس کی غفلت کے باعث پتنگ بازی کا خونخوار مشغلہ لاہور سمیت پنجاب کے
تمام شہروں میں بڑی تیزی سے بڑھتا پھلتا اور
پھولتا جا رہا ہے۔ آئے دن اب پھر شہریوں کی ہلاکتوں کے دل ہلا دینے والے کربناک واقعات
ایک تسلسل سے سُننے کو مل رہے ہیں لیکن انتظامیہ کی عدم توجہی اور پولیس کی فرائض سے
تسلسل کیساتھ غفلت نے اب پتنگ بازی کے باعث ہلاکتوں میں ایک بار پھر اضافہ کر دیا ہے۔
لیکن حکومت خاموش تماشائی بنے بیٹھی ہے۔ خدا کیلئے اس رسم بد سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لئے موثر قانون سازی کی
جائے اوراس پر سختی سے عمل درآمد بھی کرایا جائے اور خلاف ورزی کرنیوالے کیخلاف سخت
تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے تاکہ اس قاتل ڈور سے کسی اور معصوم نور فاطمہ کی گردن
کٹنے سے بچ سکے۔
آسان علاج ،اس بچی کی دیت تمام پتنگ اور تار فروخت کرنے والوں سے لی جائے،بس پھر دیکھنا کیسے یہ ٹھیک نہیں ہوتے۔
جواب دیںحذف کریںمحترم ۔ جب معاشرہ بے حس ہو جائے تو کوئی قانون قاعدہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا ۔ راہ جاتے پیدل ب
جواب دیںحذف کریںمیں نے بڑوں سے سنا ہے کہ میں نے زندگی میں ایک بار پتنگ اُرائی تھی جب میری عمر 8 سال تھی وہ اس شرط پر کہ یہ پہلی اور آخری بار ہو گی