پیر، 24 اگست، 2015

کریڈٹ کارڈ ، دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا

15 تبصرے
سر ، ایک ضروری بات کرنی ہے آپ سے  ؟
جی ، آجائیں ، اس نے  آہستہ سے کرسی  سرکائی اور میرے سامنے بیٹھ گیا ، آفس میں بطور اسسٹنٹ کام کرنے والا نوجوان  مجھے کئی دنوں سے پریشان نظر آرہا تھا ،اس سے پہلے کہ  میں اس سے پوچھتا ،شائد وہ خود ہی بتانے کے لئے آگیا ،
 سر ۔۔۔۔۔۔ کچھ پیسوں کی ضرورت پڑ گئی ہے ،گھر میں کچھ پریشانی ہے ، میں نے پوچھا ،کتنے ؟
جی بیس ہزار ،  جی آئندہ تنخواہ پر لوٹا دوں گا ، میں نے پوچھا کہ تمہاری تنخواہ  توپندرہ ہزار ہے تم بیس ہزار کیسے لوٹا دو گے؟
بس جی اگلے ماہ ایک کمیٹی نکلنی ہے ۔
مجھے آج ہی اہلیہ نے پچیس ہزار روپے دیئے تھے بیٹی کے اکاؤنٹ میں جمع کروانے کے لئے ، میں نے اس کی مشکل حل کرنے کے لئے اسے دراز سے بیس ہزار روپے نکال کر دے دیئے ۔اس نے میرے شکریہ ادا کرتے ہوئے  دوبارہ بر وقت ادا کرنے کی یقین دہانی بھی کروا دی ۔ ابھی وہ کمرے سے نکلا ہی تھا کہ  دوسرا اسسٹنٹ آ گیا ، کہنے لگا ،سر کتنے پیسے لے گیا ؟
کیا مطلب ۔۔۔۔۔۔۔ سر جی آپ تو بھولے بادشاہ او ، اس کا تو کام ہی یہی ہے ، کریڈٹ کارڈ بنوانے کا شوق تھا ، اب ادائیگیاں نہیں ہو رہی ہیں ، بنک والے پیچھے پیچھے اور یہ آگے آگے ، بس اب بھول جائیں اپنے پیسوں کو ، میں نے انہیں بتایا کہ وہ مجھ سے پیسے لینے نہیں بلکہ اپنے کارڈز کے سلسلہ میں مشورہ کرنے آیا تھا ۔
میں نے اسے اگلے دن بلالیا ، بھائی کیا بنا تمہاری پریشانی کا ؟ جی ۔۔ جی ، وہ    ۔۔۔ جی
بھائی مجھے اصل بات بتاؤ گے تو میں تمہاری کچھ مدد کر سکوں گا ۔ وہ چند لمحے خلاؤں میں گھورتا رہا ، اچانک اٹھ کر زمین پر بیٹھ گیا اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگ گیا  ،میرے لئے یہ غیر متوقع صور حال تھی ، سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کروں ، میں نے جلدی سے دروازہ اندر سے لاک کر دیا ، اسے حوصلہ دیا  ۔۔۔۔ بس وہ ایک ہی بات کئے جارہاتھا ، سر مجھے بچا لیں ، میرے بہت چھوٹے بچے ہیں ، میں خود کشی کر لوں گا ، میرے بچے رل جائیں گے سر ۔۔۔۔ میں نے کہا کہ بھائی حوصلہ کرو ، کچھ بتاؤ گے تو بات بنے گی ناں ،
سر ۔۔۔ میں نے ایک کریڈٹ کارڈ بنوا لیا تھا ، تین لاکھ کا ، پہلے چند ماہ تو بہت مزا آیا ، بیوی اور بچوں کو لے خوب گھومے ، اسی کے  لون پر موٹر سائیکل بھی لے لی ، پھربیوی کی بہن کی شادی تھی ، بیگم کے کہنے پر جی بھر کے شاپنگ بھی کر لی اور اس کی بہن کے لئے تحائف بھی لے لئے  ،  بیگم کہنے لگی ،بنک کا کیا  ہے ، قسطوں میں ہی تو واپس کرنا ہے ،ایک سال تک تنخواہ سے جیسے تیسے قسطیں دیتا رہا ہوں ، ایک سال بعد دیکھا ، وہ تین لاکھ تو وہیں کہ وہیں  اور الٹا کچھ انٹرسٹ اور اوپر  چڑھ گیا ہے ،تنخواہ ان کو دیتا ہوں  تو کھانے کے لئے کچھ نہیں بچتا ، ان کو نہیں دیتا تو بنک ریکوری افسران گھر  آکر گالی گلوچ کرتے ہیں ، پچھلے ماہ بیوی کا کچھ زیور بیچ کر شارٹ قسطیں جمع کروائیں تو پتہ چلا وہ ساری رقم لیٹ پیمنٹ اور جرمانوں کی مد میں جمع ہو گئی ، سر میں تباہ و برباد ہو گیا ہوں ، میں بس اب خود کشی کرلینی ہے ، میں نے اسے حوصلہ دیا ،اسے اٹھا کر کرسی پر بٹھایا اور کہا کہ پہلے پانی پیو پھر بات کرتے ہیں ،اس کو حوصلہ دیا اور اس کے چائے بنوائی۔
اس کی ساری رام کہانی سننے کے بعد میں نے اسے کہا کہ اب حوصلہ کرے ، رونے کی ضرورت نہیں ،نہ ہی پریشان ہونے کی ، بنک کے اہلکار آئیں تو انہیں پیسے جمع نہیں کروانے بلکہ  انہیں مجھ سے ملوانا ہے ،  کچھ عرصہ قبل کراچی میں ایک نوجوان کے ساتھ اسی طرح کا المناک واقعہ پیش آیا جب بنک کے  ریکوری نمائندوں نے اسے ڈرایا دھمکایا اور اس کے گھر جاکر گالی گلوچ کی جس کے نتیجہ میں اس نے خود کشی کرلی  جس عدالت عالیہ نے نوتس لیا جس کے بعد سٹیٹ بنک آف پاکستان نے یہ قوانین  لاگو کردیئے کہ بنک کا کوئی بھی نمائندہ بغیر اپنے کلائینٹ سے  ایڈوانس اپوئنٹمنٹ کے اس کے گھر یا دفتر نہیں جا سکتا ، اس کے علاوہ اس کے کسی عزیز سے پوچھ کچھ نہیں کر سکتا اور اگر اس سے ملاقات ہو بھی تو دن کے اوقات میں ہو گی ۔ اگلے ہی دن اس نے بتایا کہ بنک کا ایک نمائندہ آیا ہے میں نے اس کو ملاقات کے لئے بلوا لیا ، میں نے ان سے پوچھا کہ کیا تم نے اسٹیٹ بنک کے قوانین کا مطالعہ کیا ہے ، تم کس بنیاد پر اس کو اور اس کے گھر والوں ں کو ڈرا دھمکا رہے ہو ،جائیں ہم رقم ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ، آپ اپنے بنک کو بتا دیں کہ وہ بنکنگ کورٹ میں ہمارے خلاف دعویٰ کر دے ۔آپ نے ایک شریف آدمی کی ساری جمع پونجی بھی لوٹ لی ہے اور اسے ڈرا دھمکا بھی رہے ہو، ہم الٹا تمہارے خلاف کیس بنوائیں گے ، اسے بات کی سمجھ آ گئی ، اس نے اجازت لینے میں ہی عافیت جانی ،میں نے اسے کہا کہ اگر آپ نے اپنی رقم واپس لینی ہے تو کوئی پلان بنا کر لے آئیں،ہم اپنی سہولت کے مطابق آپ کو رقم واپس کردیں گے کیونکہ یہ ہمارے ذمہ ہے مگر آئندہ دھونس نہیں چلے گی ۔
"کریڈٹ کارڈ ایک شیطانی چال ہےلوگوںکوپھنسانےکی ،اس کا انجام صرف ڈیفالٹر کی شکل میں سامنے آتا ہے
اس وقت پاکستان میں ان ڈیفالٹرز کی تعداد لاکھوں میں ہوگی جو بے چارے گھر پر "نہیں ہوتے" فون پر "نہیں ہوتے" اور آفس یا کاروبار پر "نہیں ہوتے" کیونکہ ان سب کو بنک کے ہرکاروں کا ڈر ہوتا ہے جو کہلاتے تو ریکوری افسر ہیں لیکن دراصل " بھائی لوگ" یا "کن ٹٹے" ہوتے ہیں"
کریڈٹ کارڈ ایک دھوکہ کا نام ہے جس کے چکر میں ہزاروں لوگ اپنے گھر برباد کر چکے ہیں کیونکہ ایڈوانس رقم بغیر کسی محنت میں  حاصل ہوتی اس لئے اسی طرح خرچ ہو جاتی ہے ، پھر انسان  اس کی ادائیگی کرنے لے لئے اور اور کریڈٹ کارڈ بنوا لیتا ہے پھر اس کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے تو پھر دوستوں سے ادھا ، گھر کی اشیاء ، بیوی کے زیور تک بکنے کے لئے آجاتے ہیں مگر ادائیگیاں نہیں ہوتا اور انسان سود درسود کی دلدل میں دھنستا ہی چلا جاتا ہے ، پھر اگر بات عدالتوں تک چلی جائے تو وکلاء کے اخراجات ، پیشیوں پرپورے پورے دن کا ضیاع ،پھر سزا اورگرفتاری کا  خطرہ ۔
پھر اس کا حل کیا ہے ، بس اس کا حل یہی ہے کہ اپنے اخراجات کو محدود رکھیئے ، سود کو اللہ رب العزت نے اپنے سے جنگ قرار دیا ہے تو پھر کون اللہ سے جنگ جیت سکتا ہے،اس لئے سود سے بچیں لیکن اگر آپ اس چنگل میں پھنس چکے ہیں تو گھبرانے کی بجائے  ، ان کو ماہانہ ادائیگیوں کی بجائے کسی وکیل سے مشورہ کریں ، بنک والوں کے پاس آپ کو ڈارنے دھمکانے یا بلیک میل کرنے کا اختیا نہیں ، ان سے وعدہ کیجیئے ، ادائیگیوں کا پلان بنوائیں  ، یکمشت ادائیگی میں بنک تیس فیصد سے زیادہ چھوٹ دے دیتا ہے ،وہ بھی اصل زر میں سے ، سود سارا معاف ہو جاتا ہے ،تین یا چار قسطوں میں بھی بنک مان جاتا ہے اور چھوٹ بھی دے دیتا ہے،اگر بنک عدالت میں بھی چلا جائے تو عدالتیں حسب معمول پانچ پانچ سال لگا دیتی ہیں فیصلے کرنے میں ،ایسے میں کہیں نہ کہیں سے ، کوئی چھوٹی موٹی کمیٹی دال کر رقم کا بندوبست کریں اور جس موڑ پر چاہیں بنک کو کچھ لے دے کر اپنی چان چھڑوالیں کیونکہ سود بہت بری چیز ہے سب کچھ کھا جاتی ہے ،بس یاد رکھیں ڈرنا نہیں ،ایک غلطی کر لی  اب دوسری غلطی نہ کریں ،بنک سے براہ راست بات کریں لیکن  پہلے ہی چھوٹی چھوٹی قسطوں میں انہیں ادائیگی نہ کریں 

پیر، 17 اگست، 2015

17 اگست 1988 ء کی خون آشام شام

5 تبصرے
سترہ  اگست 1988ءکی شام آٹھ بجے تھے ، میں اپنے دوست کے ہمراہ لاہور سے واپس آرہاتھا ، تب لاہور فیصل آباد کا سفر بھی تین گھنٹہ سے زیادہ طویل ہوتا تھا اس لئے کوچز شیخوپور ہ گزرنے کے بعد مانانوالہ کے قریب ایک چھپڑ ہوٹل پر ضرور رکتی تھیں اور مسافر چائے وغیرہ پی لیتے تھے ۔ کوچ کے رکتے ہی چائے والے کی پہلی آواز جو کانوں میں پڑی وہ یہ تھی "ضیاء الحق کا طیارہ تباہ"مسافروں کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا ،اک عجیب سی خاموشی پھیل گئی ، خبر ہی ایسی تھی کہ کسی کو یقین ہی نہیں آرہا تھا ۔دراصل ہم نے ایسے ماحول میں آنکھ کھولی جہاں جمہوریت تھی ہی نہیں ،1977ء کے عام انتخابات کے بعد اس وقت کی حکومت کے خلافانتخابات میں دھاندلیکروانے پر تحریک کا آغاز ہوا جو بعد میں مشہور زمانہ تحریک نظام مصطفیٰ   کا روپ اختیار کرگئی ،اس وقت ہم ساتویں یا آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے،جلسے جلوسوں کا شوق تھا ، روز انہ کی بنیاد پر جلوس نکلتا تھا ، پھر ایک دن گولی بھی چلی ، دو افراد اپنی جان سے بھی گئے ۔جنازے پر بھی پولیس نے ہوائی فائرنگ  کی ، بھٹو صاحب جو ان دنوں وزیر اعظم تھے  ، انہیں ایک انتہائی ظالم اور جابر انسان بنا کر پیش کیا جاتا تھا اس لئے سب لوگوں کی  ہمدردیاں تحریک کے ساتھ تھیں ، ایسے میں جب تحریک کے راہنماؤں اور بھٹو صاحب کے درمیان مزاکرات عروج پر پہنچے تو  ضیاالحق صاحب قوم کے نجات دہندہ بن کر آ گئے ، بھولی  بھالی قوم کو لگا جیسا طوفان رک گیا ،ملک میں امن و امان ہو گیا ، ویسے بھی ہم نے بڑوں سے سنا تھا کہ فوج کے آنے پر ہی اب امن ہو سکتا ہے ۔پھر ضیا صاحب ہی اس کے ملک مرد آہن بنگئے، اسلامائزیشن کا عمل شروع ہوگیا ،ملک کے سرکاری ٹی وی اور ریڈیو پر سارا دن کے گن گائے جاتے اور بھولی بھالی قومسب بھول کر ان کے گن گانے لگی ۔ہم لڑکپن سے جوانی کا فسر بھی شروع کر چکے مگر ان کا اقتدار تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لینا  چاہتا تھا ، سارا دن مرد مومن مرد حق کی صدائیں ہی آتی رہتیں ۔ان کےاقتدار کی طوالت پر تو فیصل آبادی جگت بازوں نے بڑے بڑے لطیفے بنا رکھے تھے ،ضیا صاحب ہر دو تین ماہ بعد سرکاری یڈیو ٹی وی  پرقوم سے خطاب کیا کرتے تھے ، کسی نے ایک فیصل آبادی سے پوچھا " بھائی صدر صاحب کا اقتدار کب ختم ہو گا ، اس نے جواب دیا ،آپ کو پتہ ہے وہ ہر دو تین ماہ بعد قوم سے خطاب کرتے ہیں اور اس چند آئتیں بھی پڑھتے ہیں ، اب حساب لگا لو پورا قرآن کتنے وقت میں ختم ہو گا"۔ کسی کا اتنا طویل اقتدار اور بھی آمر کا ، اس لئے جب ان کے طیارہ تباہ ہونے کی خبر سنی تو عجیب سا دھجکا لگا ،شائد کسی اتنے بڑے آدمی کی اس موت پہلی دفعہ سنی تھی ، اب تو دہشت گردی کی اس لہر نے بڑے بڑے نام نگل لئے ہیں ۔پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ قوم کی ان سے محبتکی نشانی تھی کیونکہ انہوں نے کچھ کام ایسے ضرور کئے جنہیں بھلایا نہیں جا سکتا ۔وہ ایک سچے عاشق رسول تھے ، روس کو اس کی سرزمین پر شکست اور پاکستان میں اسلامائزیشن کا عمل ان کے ایسے کارنامے ہیں جن پر فخر کیا جا سکتا ہے ۔ ان کے زمانہ میں تو صرف سرکاری ٹی وی تھا ، آج جب تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو صحافیوں ، ٹریڈیونین اور  طلبا تنظیموں کے نمائندوں پر حکومتی جبرو تشدد ، کوڑوں کی سزائیںایک ایسی کالک ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ان کی رحلت کے دو تین برس بعد اسلام آباد میں ان کی قبر پر جانے کا اتفاق ہوا ،میرے لئے اپنی زندگی میں ایک تجربہ تھا ، میں اپنے احساسات کو بیان نہیں کر سکتا کیونکہ جس شخص کو ہم نے اپنے بچپن سے جوانی تک اپنے پورے جلال میں دیکھا ،اس کی قبر پر جا کر جو احساس ہوا اس کو بیان کرناہی میرے لئے مشکل ہے ، وہ اب دنیا میں نہیں ہیں دعا ہے کہ اللہ کریم ان کو مغفرت کرے ۔

اتوار، 9 اگست، 2015

کپل آف فیصل آباد

8 تبصرے
 منفرد رہنے کی خواہش بعض اوقات انسان کو بہت دور تک لے جاتی ہے اور کچھ لوگ اس کے لئے کچھ ایسا بھی کر جاتے ہیں جو عام زندگی میں ممکن نہیں ہوتا ، بعض لوگ پہاڑیوں کی چوٹیوں سے چھلانگ لگا دیتے ہیں اور بعض اپنی شادی کی تقریبات گہرے پانیوں میں منعقد کروا کے اپنے آ پ کو دنیا سے منفرداور ممتاز  نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایسے ہی لوگوں میں ایک جوڑا فیصل آباد میں بھی رہائش پزیر ہے جو سماجی تقریبات میں ایک جیسا لباس پہن کر شرکت کرتے ہیں اور اپنی انفرادیت کو برقرار رکھنے کے لئے اس کو مزید بہتر سے بنانے کے لئے کو شاں رہتے ہیں ۔ان کی اس انفرادیت کو دیکھتے ہوئے زندہ دلان فیصل  آباد نے انہیں "کپل آف فیصل آباد" کے  خطاب سے نواز رکھا ہے۔مسٹر اینڈ مسز ناصر حسین فیصل آباد کے رہائشی ہیں ، ناصر حسین کی جناح کالونی میں پلاسٹک کی کرسیوں اور دیگر سامان کی شاپ ہے ، اس سے قبل وہ الیکٹرنکس کا کامبھی کرتے تھے ۔ساٹھ سالہ ناصر حسین  اور شگفتہ ناصرتین جوان بیٹوں کے  والدین ہیں ۔ناصر حسین کا کہنا ہے کہ وہ اکثر فیصل آباد آرٹس کونسل کے زیر اہتمام ہونے والی سماجی تقریبات میں شرکت کرتے رہتے تھے ،ہماری ہر تقریب میں اکھٹے شرکت  پر ہمیشہ ہماری حوصلہ افزائی کی جاتی جس پر انہوں نے سوچا کہ کچھ ایسا کیا جائے جس پر ہماری انفرادیت قائم ہو ۔
میں نے اور میری اہلیہ نے فیصلہ کیا کہ ان سماجی تقریبات میں ایک جیسا لباس پہن کر شرکت کی جائے  تو پھر ہم نے ایک رنگ ،کڑھائی اور ڈیزائن کے لباس کا استعمال شروع کر دیا ۔شروع شروع میں ہمیں مذاق کا نشانہ بھی بنایا گیا مگر ہم اپنے اس عزم پر قائم رہے اور آہستہ آہستہ  ہماری یہ انفرادیت ہی ہماری اور ہمارے شہر کی پہچان بن گئی  پھر 2005ء میں ہونے والی ایک تقریب میں فیصل آباد کے شہریوں نے اپنی محبتوں سے نوازتے ہوئے ہمیں "کپل آف فیصل آباد" کے اعزاز دے دیا جو ہمارے لئے باعث فخر ہے ۔اسی اعزاز کی بنیاد پر پھر ہم نے  مختلف ٹی وی پروگراموں اور بیرون ملک اپنے شہر کی نمائندگی کی ۔انہیں اس پر بے حد خوشی ہے کہ وہ جہاں بھی جاتے ہیں لوگ انہیں  ان کے شہر کے نام سے پہچانتے ہیں ، لوگ ان کے ساتھ تصاویر کھنچواتے ہیں ،آٹو گراف لیتے ہیں  ۔

منگل، 4 اگست، 2015

لہو لہو اگست ، لہو لہو آزادی

2 تبصرے
ہم اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو پاکستان معرض وجود آنے کے ابتدائی بیس سالوں میں پیدا ہوئے ، ہوش سنبھالا تو قیام پاکستان کو کم و پیش پچیس سال گزر چکے ہوں گے ، بیس پچیس سال اتنا عرصہ نہیں ہوتا کہ انسان اپنے اوپر گزرے دکھ کو بھول جائے پھر وہ زمانہ ایسا تھا کہ کوئی اور ایسی دلچسپی نہیں تھی کہ جس کے ذریعے دکھ کم ہو سکے ۔ ٹی وی ،موبائل ، ویڈیو گیمز ،سوشل میڈیا کا تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا ،صرف شہروں میں بجلی تھی،دیہات اس سے بھی محروم تھے ،تفریح کا واحد ذریعہ ریڈیو تھا جو بھی ہر کسی کو آسانی سے دستیاب نہیں تھا۔جب کچھ اور دلچسپی نہ ہو تو پھر سوائے مل بیٹھ کر پرانی یادوں اور بیتے دنوں کو یاد کرنا ایک ذریعہ رہ جاتا ہے ۔ہوش سنبھالنے پر سب سے پہلا احساس اپنی ماں کی کٹی ہوئی انگلیوں اور چہرے پر ایک بہت بڑے زخم کے نشان کو دیکھ کر ہوا کہ آخر یہ کیا ہے، کیسے اتنے بڑے زخم آئے ، جس چیزکاذکر بار بار اپنی ماں سے
.