جمعرات، 1 اگست، 2013

اگست کا مہینہ اور ماں کی یاد

28 تبصرے
اگست کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو ماں کی یاد شدت سے آنے لگتی ہے،حالانکہ اگست نہ تو ان کی پیدائش کا مہینہ ہے اور نہ ہی وفات کا،اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی ہم چھت پر پاکستانی پرچم اور جھنڈیاں لگانے کی تیاریوں میں مصروف ہوجاتے ۔ سارا
دن انہی تیاریوں میں گزر جاتا مگر جب بھی ماں پر نظر پڑتی وہ ان جھنڈیوں اور پرچموں کو دیکھ کر چپکے چپکے رورہی ہوتی،بڑا دکھ ہوتا کہ آخر کیا ہے جو ماں ہمیشہ انہی دنوں میں روتی ہے،ذرا ہوش سنبھالا تو  ماں سے پوچھنا شروع کیا کہ آپ کیوں روتی ہو؟۔ماں کہنے لگی  پتر یہ جو آپ محض جھنڈیاں لگا کر آزادی کا جشن منا لیتے ہو تمہیں پتہ ہے اس آزادی کے لئے تمہاری ماں نے کتنی قربانی دی ہے ؟ ماں بولتی چلی گئی ہم روتے رہے ،ماں کہتی بیٹا جب ہم اسی رمضان کے مبارک مہینہ میں اپنے پاک وطن کے لئے جس کی بنیاد ہر کلمہ شریف پر رکھی گئی ،ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے، لاکھوں کا سازوسامان گھروں میں چھوڑ کر مہاجر ہو گئے ۔تمہارا چند ماہ کا بھائی میری گود میں تھا، ہمارے قافلہ پر سکھوں نے حملہ کیا۔ست سری اکال کا نعرہ لگانے والے انسانیت کو بھول گئے جو سامنے آیا اسے گاجر مولی کی طرح کاٹتے چلے گئے۔ اپنے معصوم بچے کو بچانے کی پاداش میں میرے دونوں بازو ان کی تلواروں اور کرپانوں نے لہو لہان کر دیئے،میری انگلیاں میرے سامنے کٹ کر گر گئیں مگر میں پھر بھی تمہارے بھائی کو ان ظالمو سے نہ بچا سکی، پتہ نہیں کون کدھر چلا گیا سب بھاگ گئے ،میں بے ہوش ہو گئی ،آنکھ کھلی تو ارد گرد لاشوں کے ڈھیر تھے اور تمہارے معصوم بھائی کی لاش کے ٹکڑے میرے  پاس بکھرے پڑے تھے۔ پتہ نہیں کس نے لاہور پہنچایا اور پھر ہسپتالوں میں ڈھونڈتے ڈھونڈتے تمہارے والد کیسے ہم تک پہنچے  ، یہ ایک دردناک کہانی ہے جو کسی لمحے یادوں سے اوجھل نہیں ہوتی مگر اب صرف جھنڈیاں اور پرچم لہرا کر،موٹر سائیکلوں کے سائلنسر نکال کر سڑکوں پر ڈانس کرکے یوم آزادی منایا جارہا ہے۔ان شہیدوں کو اوران کی قربانیوں کو بھلا کر امن کی آشا لہرائی جا رہی ہے،ہماری قربانیوں کو بٹوارا کا نام دے کر ہمارے زخموں پر نمک چھڑکا جارہا ہے۔ آج ہم جو آزادی کے سانس لے رہے ہیں یہ آزادی دراصل برصغیر کے شہدا کی بے تحاشا قربانیوں کا ثمر ہے۔ یہ پیارا پاکستان ہمیں اپنے شہدا کی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔

28 تبصرے:

  • جمعرات, اگست 01, 2013

    ملک صاحب، اس درد بھری تحریر کیلئے میرے دو آنسو نذرانہ قبول کیجیئے

  • جمعرات, اگست 01, 2013

    ہماری دادی جان بھی اسی طرح داستان سنایا کرتی تھیں اللہ تعالیٰ آپ کی والدہ اور ہماری دادی جان کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین اور ہمارے پاکستان کو تاقیامت قائم رکھے آمین

  • جمعرات, اگست 01, 2013

    آج پاکستان کا حال دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ہم نصیحتوں سے آگے جاچکے ہیں

  • جمعرات, اگست 01, 2013
    گمنام :

    آئیے امی جی کی کہانی امی جی کی زبانی سنتے ہیں ….

    میں انڈیا کے ضلع جالندھر کے قصبہ اپرا کے گاؤں رائے پور میں رہتی تھی. قران شریف پڑھنے کے علاوہ کوئی کام ضروری نہیں ہوتا تھا. ہمارے پاس کوئی ڈگری نہیں ہوتی تھی لیکن سب بچے جوان بوڑھے قرآن پڑھے ہوئے تھے. سب علم کے خواہاں تھے پر ڈگریوں سے بے نیاز تھے . ہم سب لوگ ایک ساتھ رہتے تھے . سب کی عزت و احترام ایک دوسرے پر لازم تھی . جھوٹ بولنے کا تصور تک نہ تھا. خاندان کے خاندان ایک ساتھ رہتے تھے . ساررے رشتہ دار ایک براداری کی طرح رہتے تھے . سینا پرونا ، کھانا پکانا ، زمینداری کرنا، مٹی میں کھیلنا، مٹی میں رہنا ہی کام تھا .

    کھیت کنویں سب اپنےتھے . سوائے نمک کے ہم کچھ نہیں خریدتے تھے. ہمارے سامنے ہندوؤں کی برادری رہتی تھی . وہ امیر اور سنار تھے لیکن لین دین میں ہیرے تھے کبھی کوئی لڑائی نہیں . کوئی فساد اور دنگا نہیں . سب ایک دوسرے سے راضی . سب ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی تھے .شادی بیاہ، جینے مرنے میں بھی ساتھ رہتے تھے .

    جب پاکستان بنا تب بھی ہمارے گاؤں میں کچھ نہ ہوا تھا. کسی نے کسی کو نہیں لوٹا. مجھے یاد ہے کہ میرے ابا جی گھر میں آئے اور کہنے لگے کہ ارے تم لوگ ابھی بھی سو رہے ہو. گاؤں کے گاؤں جا رہے ہیں لیکن یہ پتہ نہیں تھاکہ کہاں جا رہے ہیں اور کیوں جا رہے ہیں .. . میری ماں نے دو لحاف گڈے پر رکھے .اور سب مردوں نے طے کیا کہ ہم اپنی ٹیوں کی خود حاظت کریں گے اور اگر کوئی موقع ایسا آیا تو سب لڑکیوں کو دریا میں پھینک دیں گے لیکن کسی کے ہاتھ نہیں لگنے دیں گے . اور خود لڑتے ہوئے مر جائیں گے . ابھی ہم چلے ہی تھے کہ ہمارے گاؤں کو کسی نے آگ لگا دی .. بس پھر کیاتھا ہم سب دھاڑیں مار کر رونے لگے .. لیکن چلتے گئے اورپھر اسی طرح قافلے کے قافلے ملتے گئے اور ہم سب ایک کیمپ میں پہنچ گئے.

    اتنے میں ایسے ہوا کہ ایک طرف سے رونے دھاڑنے کی آوازیں آنے لگیں . لوگوں نے اپنی لڑکیوں کو اپنے ہاتھوں میں مظبوطی سے تھام لیا اور دریا کی طرف دوڑنے لگے کہ لڑکیوں کو پھینک دیں گے . لیکن کسی نے چیخیں مار کر سمجھایا کہ لوگ اپنی جگہ چھوٹنے پر رو رہے ہیں . کوئی بلوہ کرنے والا آیا گیا نہیں ہے . میری امی کی یہی دعا تھی کہ اے اللہ اگر مارنا ہے تو ہم سب کو ایک ساتھ مار دے لیکن ہمیں الگ الگ مت کرنا. ایسے میں میرا چھوٹا بھائی ہم سے بچھڑ گیا. وہ جو گھنٹے ہم نے گزارے وہ ہم ہی جانتے ہیں کہ وہ کیسے گزرے . لیکن شکر خدا کا کہ وہ مل گیا . اور پانچ میل کے فاصلے پر فلور کیمپ میں پہنچ ہی گئے . ہم لوگ چھوٹی عید کے بعد نکلے تھے اور بڑی عید تک ہی ہم لوگ کیمپ میں ہی تھے .

    بارشیں برسیں . سیلاب آیا ، بھوک آئی ، سردی آئی ، کئی بچے پیدا ہوئے ، لاکھوں مر گئے ، بس نہ آیا تو آرام کا دن نہ آیا . بچوں کو اپنی گود میں سنبھالے بارشوں میں دوسرے کیمپ جانا پڑ گیا . نہ پاکی کا پتہ نا صفائی کا خیال . نہ کھانا نہ پانی … وہیں میری دادی اور تائی جی اور ان کی بیٹی کی وفات ہو گئی . کوئی جماعت ..کوئی خیر خبر لینے والا نہ تھا. . پھر ہم لوگ ساڑھے تین مہینے کیمپ میں رہے . پھر کہیں جا کر ریل گاڑی کا بندوبست ہوا اور ہم پاکستان کے لئے روانہ ہوئے. یہ ہندوؤں کا اصول تھا کہ اگر ہندؤں سے بھری گاڑی لاہورر سے آرام سے واپس آتی تو وہ لوگ مسلمانوں کی گاڑی کو سکون سے لاہور جانے دیتے تھے ورنہ امرتسر ، دریائے ستلج پر ہی بھری گاڑی تباہ کر دیتے تھے .

    ایک دن ہم لوگ مال گاڑیوں میں بھر دئے گئے اور پاکستان کے لئے روانہ ہو گئے . ہم لوگوں کو بولنے کی اجازت نہیں تھی . کہ ہندو مار ہی نہ دیں . ملتان چھاؤنی پہنچ کر گاڑی روک لی گئی . اور سب سے کہا کہ یہی پر سب اتر جائیں . گاڑی سے اتر کر سب سجدہ شکر میں پاک سر زمین پر گر گئے . اب ایک نئی مشکل درپیش تھی کہ کہاں جائیں . ہم لوگ پھر فوجی چھاؤنی میں آگئے . ایک کمرے میں بہت سارے خاندان ایک ساتھ رہنے لگے .دس دن رہنے کے بعد ہم لوگ وہاں سے چلے تو دو دن خانیوال پر رکنے کے بعد میاں چنوں پہنچے//

    ڈاکٹر نگہت نسیم
    http://www.aalmiakhbar.com/blog/?p=5657

  • جمعرات, اگست 01, 2013

    محترم ملک صاحب آپ کی اس تحریر سے دل بھر آیا ہے۔بس کیا کہوں ،،،یہی کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے آمین

  • جمعرات, اگست 01, 2013

    کاش کوئی اس خون اور قربانی کی قیمت جان سکتا اور اس کے صلہ کو پہچان سکے۔

  • جمعرات, اگست 01, 2013

    پہلے تو میں سمجھا کہ آپ میرے شہر کی کہانی ہی لکھ رہے ہیں ۔ آپ کی تحریر پڑھتے آنکھیں تو اشکبار ہونا ہی تھیں ساتھ 1947ء کے سارے مناظر میری آنکھوں کے سامنے گھوم گئے ۔ کاش اس قوم کو خدا یاد آ جائے

  • جمعرات, اگست 01, 2013

    آپ احباب کا شکریہ ، میری تحریر ان سب کے نام ہے جوپاکستان سے بے انتہا محبت کرتے ہیں
    میں بہت کچھ لکھنا چاہتا تھا مگر سب کچھ آنسوئوں میں بہہ گیا ، ہجرت ہمارے ماں پاب نے کی اور اپنا سب کچھ لٹا کر پھر پاکستان کو ہی اپنا سب کچھ بنا لیا مگر مہاجر کے نام پر سیاست کوئی کرنے لگ گئے ،مہاجر تو ہمارے ماں باپ تھے جو سب کچھ لٹا کر پیدل پاکستان پہنچے اور انہیں اس پاکستان کی قدر ہے اور جو گاڑیوں اور جہازوں میں بیٹھ کر آئے اور پاکستان کی تقدیر کے مالک بن گئے وہ پاکستان کی قدر کیا جانیں ، آج بھی کتنی مسلمان خواتین مشرقی پنجاب میں سکھوں کے بچوں کو جنم دے رہی ہیں اور رمضان اور عیدین کے موقع پر اپنے پیاروں کو یاد کر کر کے روتی ہیں مگر ہمارے حکمران بھارت کو موسٹ فیورٹ نیشن کا درجہ دینے کو تیار بیٹھے ہیں۔

  • جمعرات, اگست 01, 2013

    جنہوں نے اس دیس کیلئے سب کچھ قربان کیا ہم اس دیس سے بھی ہجرت کرنے والے ہیں۔
    ہمارے تایا ہوتے تھے اللہ جنت نصیب کرے انیس سو چھیالیس میں صوبہ بہار گئے ابھی کم سن ہی تھے۔روزگار کی تلاش میں کسی خالی مسجد کی امامت کا قصد تھا۔
    جب سکھوں نے مسلمان خواتین کے پستان کاٹ کر مینار بنایا تو مولوی صاحب کو غصہ آیا اور کچھ سکھوں کو قتل کر دیا ۔
    انگریز نے مولوی صاحب کے پیچھے گورکھا فوج لگا دی۔
    بھاگ کر واپس صوبہ سرحد میں آگئے۔سرحد میں اس وقت سکھوں کی کافی تعداد بستی تھی۔
    جہاد شروع کیا اور بتانے والے جو بزرگ حیات ہیں وہ بتاتے ہیں ۔کسی ناف پر بال والے سکھ کو نہیں چھوڑا۔ندیا ں نالے دریا سکھوں کی لاشوں اور خون سے پاٹ گئے۔
    ایک بارہ تیرہ سال کی سکھ بچی نے ہاتھ جوڑ کر التجا کی مجھے نہ مارو!! مولوی صاحب نے تلوار گھمائی اور گردن اڑا دی کہ مسلمان کا خون خراب کرے گی۔اب ہمارے تایا جی کے نام پر کچھ عرصے پہلے علاقےکے لوگوں نے ایک ہائی سکول قائم کیا ہے۔
    یعنی حساب دونوں طرف سے برابر رکھا گیا تھا۔
    اب تو یہی دعا ہے کہ اللہ ہمارے دیس کی حفاظت کرے اور ہم سب کے مسلمان ہونے کے باوجود ،نسلی ، لسانی ،مسلکی ، غبارے سے ہوا نکال کر ہمیں سچا مسلمان اور انسان ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔

  • جمعرات, اگست 01, 2013

    آپ کی تحریر نے مجھ بے چین کر دیا۔اللہ پاک ان پیاری ہستیوں کی قربانی رنگ لے آئے پاکستان کو ہر اعتبار سے مضبوط اور کامیاب کرے۔
    اس سچی داستان نے دل کو بہت بھاری کردیا بھائی اللہ جانے یہ سوچکے آپ کی کیا حالت ہوتی ہوگی ۔ مجھے یاد ہے میں نے اس پر بنی ایک فلم دیکھی تھی جس کو دیکھ کر میں زارو قطار روئی تھی اور کئی دن تک عجیب حالت تھی ۔اللہ پاک خیر کا معاملہ کرئے ہر مسلمان کے ساتھ

  • جمعرات, اگست 01, 2013

    اس وطن کیلئے، چاند تاروں کی اس انجمن کیلئے
    ہم نے جو کچھ کیا مسلکاً فرض تھا،مسلکاً فرض تھا،

  • جمعہ, اگست 02, 2013
    MWA :

    یہ دین اور یہ وطن ہمیں ہمارے بزرگوں کی بہت ساری قربانیوں کے بعد ملا جب ہم پیدا ہوئے تو یہ دین و وطن ہمیں ہوں ملا کہ جیسے نالائق ترین اولاد کو امیر ترین ، لائق فائق اور بہت محنتی پاب کے مرنے کے بعد وراثت میں بہت آسانی سے جائیداد ملتی ہے
    پھر ایسی جائیداد کا کیا حال ہوتا ہے آب بخوبی جانتے ہیں
    بلکل اسی طرح ہمارے وطن کے ساتھ ہو رہا ہے
    ہمیں اپنے اسلاف کی بےبناہ محنت اور بے دریغ قربانیوں کا کوئی احساس نہیں تو وطن کا کیوں ہوگا

  • جمعہ, اگست 02, 2013

    کاش ہم اور ہمارے ارباب اقتدار اس نظریے اور اس نظریے کی خاطر دی جانے والی قربانیوں کا کچھ پاس رکھ سکیں تا کہ ان شہداء کی روحوں کو کچھ سکون مل سکے جنہوں نے اس راہ میں اپنا سب کچھ وار دیا، ہمارے بہتر کل کے لیے اپنا آج قربان کر دیا تھا

  • جمعہ, اگست 02, 2013

    ملک صاحب ھم لوگوں کو کیا پتا کہ آزادی کے لیے ھمارے بڑوں نے کتنی قربانیاں دیں کتنی ماؤں بہنوں کی عصمتیں برباد ہویں لیکن آج اس قوم نے جس مقصد کے لیے پاکستان حاصل کیا تھا اس کو بلکل نظر انداز کر دیا اور اسلام کو چھوڑ کر بربادی کو اپنا لیا ھے اللھ تعالی ھمیں ھدایت دے امین اور آپ کو خوش رکھے آمین

  • جمعہ, اگست 02, 2013

    میرا خاندان جہاں اس جگہ بستا ہے
    یہ گاؤں سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ میں اتا تھا
    جو کہ بدل کر اب گوجرانوالہ ہو گیا ہے
    یعنی کہ ہم وہ لوگ ہیں جن کو تقسیم کے وقت ہجرت کے مسائل جھیلنے نہیں پڑے
    لیکن
    سرحد کے نزدیک کی وجہ سے محاجروں کے بہت سے گھرانے ہمارے نزدیک بستے ہیں
    اور بچپن سے ان کے دکھ سن سن کر کسی حد تک ہی سہی تقسم کے دکھون سے اشنا ہیں

    لیکن اس بات کا بھی احساس ہے کہ
    تقسیم کے دکھون پر لکھا کم گیا ہے۔
    ہجرت کر کے انے والی نسل گزرتی چلی جا رہی ہے
    اور پاکستا ن کے حالات اس طرح کے ہیں کہ
    یہان لکھنا کوئی کام ہی نہیں سمجھا جاتا
    حالنکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ
    انے والی نسلوں کے لئے زادہ سے زیادہ لکھ کر رکھ دیا جاتا۔
    اپ نے اپنی سی کوشش کی
    اللہ اپ کو جزا دے

  • جمعہ, اگست 02, 2013
    گمنام :

    آہ جناب میاں صاحب
    بالکل درست فرمایا ہے آپ نے کہ
    یہ آزادی دراصل برصغیر کے شہدا کی بے تحاشا قربانیوں کا ثمر ہے۔ یہ پیارا پاکستان ہمیں اپنے شہدا کی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔ پاکستانن میرا پیارا پاکستان
    آپ نے لکھا ہے کہ
    ست سری اکال کا نعرہ لگانے والے انسانیت کو بھول گئے جو سامنے آیا اسے گاجر مولی کی طرح کاٹتے چلے گئے
    اور آج؟ کیا پاکستان میں مطلوم کو انصاف، اور لاکھوں کا سازوسامان گھروں میں چھوڑ کر مہاجر بننے والوں کو تحففط
    نصیب ہوچکا ہے، کیا افلاس کے ماروںن کو غربت سے نجات
    مل گئ ہے، پہلے تو لوگوں کا استحصال فقط انگریز اکیلا ہی کرتا
    تھا اب اس خون ریزی میں اس کا سالا بھی شامل ہو گیا ہے
    بقول احمد فراز کے
    ​جب سازِ سلاسل بجتے تھے، ہم اپنے لہو میں سجتے تھے​
    وہ رِ یت ابھی تک باقی ہے، یہ رسم ابھی تک جاری ہے​

    میاں صاحب انسان آج بھی گاجر مولی کی طرح کاٹتے جارہے
    ہیں لیکن یہ الگ بات ہے کہ اب ست سری اکال کے نعرہ کی
    جگہ کسی اور نعرہ نے حاصل کرلی ہے
    آج بھی سینکڑوں لوگ اپنے پیاروں کے جنازے سڑکوں پر
    رکھ کر احتجاج کرنے پر مجبور ہیں، لیکن انصاف تو درکنار
    کوئی ان کی اشک سوئی بھی نہیں کرپاتا،
    آج بھی ملک کے ہزاروں باسی اپنے ہی ملک میں محاجر ہونے
    پر مجبور ہیں
    ماں روتی ہے تو اس بات پر نہیں کہ اس نے یہ وطن اپنے پیاروں کی قربانی سے حاصل کیا ہے اس بات پر تو انہیں فخر
    ہوگا ، رو تو وہ اس بات پر رہی ہونگی کہ روز محشر وہ اپنے
    ان پیاروں کا سامنا کیونکر کر پائیں گی، کیونکہ ہم ان کی قربانی
    کا ثمر پاکستان نہیں سنھبال پاے

  • جمعہ, اگست 02, 2013
    گمنام :

    آہ جناب میاں صاحب
    بالکل درست فرمایا ہے آپ نے کہ
    یہ آزادی دراصل برصغیر کے شہدا کی بے تحاشا قربانیوں کا ثمر ہے۔ یہ پیارا پاکستان ہمیں اپنے شہدا کی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔ پاکستانن میرا پیارا پاکستان
    آپ نے لکھا ہے کہ
    ست سری اکال کا نعرہ لگانے والے انسانیت کو بھول گئے جو سامنے آیا اسے گاجر مولی کی طرح کاٹتے چلے گئے
    اور آج؟ کیا پاکستان میں مطلوم کو انصاف، اور لاکھوں کا سازوسامان گھروں میں چھوڑ کر مہاجر بننے والوں کو تحففط
    نصیب ہوچکا ہے، کیا افلاس کے ماروںن کو غربت سے نجات
    مل گئ ہے، پہلے تو لوگوں کا استحصال فقط انگریز اکیلا ہی کرتا
    تھا اب اس خون ریزی میں اس کا سالا بھی شامل ہو گیا ہے
    بقول احمد فراز کے
    ​جب سازِ سلاسل بجتے تھے، ہم اپنے لہو میں سجتے تھے​
    وہ رِ یت ابھی تک باقی ہے، یہ رسم ابھی تک جاری ہے​

    میاں صاحب انسان آج بھی گاجر مولی کی طرح کاٹتے جارہے
    ہیں لیکن یہ الگ بات ہے کہ اب ست سری اکال کے نعرہ کی
    جگہ کسی اور نعرہ نے حاصل کرلی ہے
    آج بھی سینکڑوں لوگ اپنے پیاروں کے جنازے سڑکوں پر
    رکھ کر احتجاج کرنے پر مجبور ہیں، لیکن انصاف تو درکنار
    کوئی ان کی اشک سوئی بھی نہیں کرپاتا،
    آج بھی ملک کے ہزاروں باسی اپنے ہی ملک میں محاجر ہونے
    پر مجبور ہیں
    ماں روتی ہے تو اس بات پر نہیں کہ اس نے یہ وطن اپنے پیاروں کی قربانی سے حاصل کیا ہے اس بات پر تو انہیں فخر
    ہوگا ، رو تو وہ اس بات پر رہی ہونگی کہ روز محشر وہ اپنے
    ان پیاروں کا سامنا کیونکر کر پائیں گی، کیونکہ ہم ان کی قربانی
    کا ثمر پاکستان نہیں سنھبال پاے

  • جمعہ, اگست 02, 2013

    بالکل درست بات ہے۔ قیام پاکستان کے وقت مہاجرین کو جن مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہم اس کا اندازہ تک نہیں لگا سکتے محسوس کرنا تو دور کی بات ہے۔

  • جمعہ, اگست 02, 2013
  • جمعہ, اگست 02, 2013
    گمنام :

    خوب بہت خوب

    مصطفےٰ بیگ
    اسلام آباد

  • جمعہ, اگست 02, 2013

    برادر مکرم ! ملک غلام مصطفیٰ صاحب
    السلام علیکم و رحمتہ اللہ
    اللہ تعالیٰ آ پ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔وطن عزیز پاکستان جن عظیم مقاصد کے لیے حا صل کیا گیا تھا۔افسوس کہ ان مقاصد کو اب پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔اب تو نام نہاد دانشور اور مغربی ایجنڈے پر کام کرنے والے بعض لکھاری نظریہ پاکستان اور پاکستان کا مطلب کیا ؟ ۔ ۔ لا الہ الا اللہ۔ ۔سے ہی انکاری ہیں ۔اس حوالے سے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔
    اللہ آپ کو اچھی صحت سے نوازے ۔آپ سے دعائوں کی درخواست ہے۔
    والسلام
    ملک محمد اعظم
    راولپنڈی

  • جمعہ, اگست 02, 2013

    دل جلنے لگتا ہے جب اپنے اسلاف کی قربانیاں دیکھیں اور آج کی آشائیں دیکھیں۔۔۔ میں نے جنگ آزادی کی بہت ساری ایسی حقیقی کہانیاں پڑھی ہیں اور میری خواہش ہے کہ ہر پاکستانی یہ حقیقی واقعات پڑھیں تاکہ اُن کو معلوم ہو کہ پاکستان کتنی قربانیوں کے بعد حاصل ہوا ہے ۔ میں مشکور ہوں جناب الطاف حسن قریشی صاحب کے کہ جن کی ادارت میں "اُردو ڈائجسٹ" کی آزادی ایڈیشن اور ماں ایڈیشن میں ایسے حقیقی واقعات سے نوجوان نسل کو روشنا کرایا۔اور ملک صاحب کا بھی شکریہ کہ اپنی والدہ کی باتیں شیئر کیں۔

  • جمعہ, اگست 02, 2013

    خوبصورت ۔ ۔ ۔ملک صاحب ۔ ۔ ۔ضمیر کو جھنجھوڑ دینے والے ایک اندہ تحریر ۔ ۔

  • ہفتہ, اگست 03, 2013
    گمنام :

    Bohat aalha Malik sab ..pakistan key leye humare baro nain bohat qurbani de hain kash key hum log es bat ka iashas Kare kash hum Pakistan ko bachaye kash

  • ہفتہ, اگست 17, 2013

    ۔وطن عزیز پاکستان جن عظیم مقاصد کے لیے حا صل کیا گیا تھا۔افسوس کہ ان مقاصد کو اب پس پشت ڈال دیا گیا ہے

  • منگل, ستمبر 17, 2013

    سر!!! یہ تحریر آج پڑھی، دل اشک بار ہے ،آنکھیں نم ہیں۔ مجھے اپنی نانی جان اللہ پاک ان کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطاء فرمائے، آمین ثم آمین ، مجھے ان کی یاد آ گئی،جب بھی وہ ہمیں ہجرت کی باتیں بتاتی تھیں، تو کانپنا اور رونا شروع کر دیتی تھیں۔ سات بھائیوں کی اکلوتی بہن ، اور ان کے سامنے ان کے بھائیوں کو سکھوں نے شہید کیا، کچھ کو زندہ جلا دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ پاک اس سوہنی دھرتی کو سدا قائم رکھے، ٰخوشحالی نصیب فرمائے۔ آمین

  • منگل, ستمبر 17, 2013

    راشد ادریس رانا صاحب ، ہمارے اباؤاجداد نے اس وطن کو بنانے لئے بہت بھاری قیمت چکائی ہے مگر ہمارے حکمرانوں نے اس کوصرف لوٹا ہے ، بحر حال پاکستان قائم رہنے کے لئے بنا ہے اور انشا ء اللہ قیامت تک قائم رہے گا۔
    اللہ پاک اس سوہنی دھرتی کو سدا قائم رکھے، ٰخوشحالی نصیب فرمائے۔ آمین

  • جمعہ, جولائی 24, 2015
    گمنام :

    ایسے واقعات اور کہانیاں جب بھی اور جتنی بار پڑھیں ، دل کی کیفیت ہر بار ملول ہوجاتی ہے ۔ یہ ہماری مٹی کا المیہ ہے، ہم اس سے بھاگ نہیں سکتے، ہمارا اجتماعی ٹراما ہے، میڈیا نے بہت زور مارا کہ ایسے حقائق پہ کم بات ہو، یا یہ ذینوں سے محو کئے جاسکیں، ایسا ہوا بھی لیکن آج بھی وہ بچے جنہوں نے تقسیم کو آنکھوں سے نہیں دیکھا، وہ جب یہ سنتے ہیں تو محسوس کرتے ہیں۔
    احساس موجود ہے ، اُجاگر کرنے کی کمی ہے ، اس قوم کے اندر موجود احساس کے خوف کی وجہ سے ، اس قوم کو خوابیدہ رکھنے کی تدبیریں کی جاتی ہیں
    یہ بلاگی سلسلہ اس سلسلسے میں بہت خوش آئند قدم ہے ، ایک تبصرے میں 'اردو ڈائجسٹ' کی بات بھی ہوئی، وہ بھی اس ضمن میں بہت محنت سے لگے ہوئے ہیں ، ایسے اور بہت سے کاموں کی ضرورت ہے ۔۔۔
    اللہ والدہ مرحومہ کو اپنی رحمت کے سائے میں جگہ دے اور آپ کو استقامت اور آسانیاں عطا کرے

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

.