جمعرات، 10 مئی، 2012

قابل رحم ہے وہ قوم جس کا حکمران سزا یافتہ مجرم ہو

4 تبصرے

 اٹارنی جنرل نے فرمایا کہ ’’ شعرو شاعری سے سزا نہیں دی جا سکتی‘‘ لیکن انہیں شاید یہ نہیں معلوم کہ جس شعرو شاعری کا وہ حوالہ دے ہیں اس کا تعلق سزا کے فیصلے سے نہیں ہے بلکہ فیصلے سے ہٹ کر جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ کا اضافی نوٹ ہے اور اس کا تعلق بھی اخلاقیات سے ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جسٹس کھوسہ نے لبنان کے عیسائی شاعر اور فلسفی خلیل جبران کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے وہ فیصلے کا حصہ نہ ہوتے ہوئے بھی فیصلے کی جان ہے۔ اس سب کا تعلق بھی ا خلاقیات سے ہے لیکن اس میں غلط کیا ہے؟ یہ بات کس کو ناگوار گزری کہ’’ قابل رحم ہے وہ قوم جس کے رہنما قانون کی نافرمانی کرکے شہادت کے متلاشی ہیں‘ قابل رحم ہے وہ قوم جس کے حکمران قانون کا مذاق اڑاتے ہیں اور قابل رحم ہے وہ قوم جو اپنے کمزوروں کو سزا دیتی ہے مگر طاقت وروں کو کٹہرے میں لانے سے کتراتی ہے ۔ ترس آتاہے ایسی قوم پر جو مخصوص افراد کے لیے من پسند انصاف چاہتی ہے‘‘۔ اگر پاکستان میں صورتحال ایسی ہی ہے تو اس کے ذمہ داران کو شرم کرنی چاہیے اور اگر وہ سمھجتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے تو چراغ پا ہونے کی ضرورت نہیں۔ مگر اس کا کیا کیاجائے کہ یہ قوم واقعی قابل رحم ہے۔ سید یوسف رضا گیلانی فی الوقت تو مجرم ہو گئے لیکن وہ نجانے کس حد تک جانے کی بات کرتے ہیں اور وکیل استغاثہ مجرم کی پشت پر کھڑا اعلان کررہاہے کہ فیصلہ تسلیم نہ کیاجائے۔ کیا اس لیے کہ مخصوص فرد کو من پسند ’’انصاف ‘‘ نہیں ملا۔ گیلانی صاحب خط لکھ دینے سے آپ کے صدر کا کچھ نہ بگڑتا مگر آپ نے خود بات بگاڑدی۔ قابل رحم ہے وہ قوم جس کا حکمران سزا یافتہ مجرم ہو۔

4 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

.